گزشتہ روز ’’جیو‘‘ کے ’’کیپٹل ٹاک‘‘ پروگرام میں راولپنڈی، اسلام آباد میٹرو بس کے بارے میں پروگرام دیکھنے کا اتفاق ہوا، حامد میر نے بہت اچھا کیا کہ اس منصوبے کے چیئرمین حنیف عباسی کو بھی پروگرام میں مدعو کیا، اگر عباسی صاحب اس پروگرام میں نہ ہوتے تو دلوں میں بہت سی غلط فہمیاں جنم لے سکتی تھیں، میٹرو بس کا روٹ 29کلو میٹر لمبا ہے، اور اس میں فلائی اوور وغیرہ کے علاوہ غالباً 24اسٹیشن بھی ہوں گے، ہر ایک منٹ کے بعد بسوں، ویگنوں اور ٹیکسیوں میں بھاری ’’جرمانے‘‘ ادا کرنے اور اس کے علاوہ کھجل خوار ہونے والے لاکھوں عوام الناس کو بے انتہاء سستی اور شاندار سروس میسر آ جائے گی، مگر شرکائے گفتگو کی طرف سے اس منصوبے پر جو اعتراضات کئے گئے، افسوس وہ سب کے سب ویسے ہی تھے جو اس سے پہلے لاہور اسلام آباد موٹر وے اور لاہور میں میٹرو بس کے حوالے سے کئے گئے تھے، اب یہ دونوں منصوبے عوام کے منظور نظر ہیں، لاہور میٹرو بس میں بس کی گنجائش سے دوگنا زیادہ افراد سفر کرتے ہیں، انہیں روٹ کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک جانے کے لئے ڈیڑھ سو روپے خرچ کرنا پڑتے تھے، جبکہ اب یہ سفر وہ صرف بیس روپے میں کرتے ہیں، بسیں ایئر کنڈیشنڈ ہیں اور ان کی آمد کا انتظار بھی نہیں کرنا پڑتا، لگتا ہے کہ وہ ہر وقت مسافروں کی چشم ابرو کی منتظر رہتی ہیں۔ اب یہی سہولت راولپنڈی، اسلام آباد کے عوام کو بھی مل رہی ہے، مگر اعتراضات یہ ہو رہے ہیں کہ اس سے رستے رُک گئے ہیں، گردوغبار میں اضافہ ہو گیا ہے، گرین بیلٹ ختم ہو رہی ہے، بلیو ایریا کا حسن ماند پڑنے کا خطرہ ہے، میں گزشتہ دنوں اسلام آباد گیا تھا، مجھے بھی تعمیراتی کام کی وجہ سے قدرے لمبا رستہ اختیار کرنا پڑا تھا، گردوغبار نے بھی تنگ کیا لیکن اگر ایک عورت 9مہینے تکلیف اٹھا کر اپنی گود ہری کر سکتی ہے اور پورے گھرانے کو خوشیوں کی دولت سے مالا مال کر سکتی ہے، تو لاکھوں عوام کی اِن خوشیوں پر تو انگلی نہ اٹھائیں جو انہیں تھوڑی سی تکلیف برداشت کرنے کے بعد حاصل ہو جائیں گی اس کے بعد وہ اسی طرح حکومت کو دعائیں دیں گے جس طرح موٹر وے اور لاہور میٹرو بس پر سفر کرنے والے آج دعائیں دیتے ہیں!
شرکائے گفتگو میں اسلام آباد کے ایک تاجر اور ایک معروف دانشور خاتون شامل تھیں، تاجر کو صرف یہ فکر دامن گیر تھی کہ بلیو ایریا کا حسن ماند پڑ رہا ہے اور کاروبار ٹھپ ہو کر رہ گیا ہے۔ جس کے جواب میں حنیف عباسی نے کہا اور بالکل صحیح کہا کہ اس منصوبے کی تکمیل سے بلیو ایریا کے حسن میں بھی اضافہ ہو گا اور کاروباری سرگرمیوں میں بھی تیزی آئے گی، اس بس پر روزانہ ایک لاکھ ساٹھ ہزار شہری راولپنڈی اسلام آباد کے درمیان سفر کریں گے، روٹ کے سگنل فری ہونے کی وجہ سے عوام کم وقت میں منزل مقصود پر پہنچیں گے، اور بلیو ایریا میں خریداری بھی کر لیں گے، کرایہ بھی برائے نام ہے اور یوں ہر کس و ناکس اسلام آباد آ سکے گا، جبکہ اس سے پہلے انہیں بہت پاپڑ بیلنا پڑتے تھے۔ عباسی صاحب نے اس گرین بیلٹ کی ڈرائنگ بھی دکھائیں جو اس منصوبے کے اطراف میں ہوں گی اور جس سے اس روٹ کی خوبصورتی میں اضافہ ہو گا، عباسی صاحب کو یہ بھی بتانا چاہئے تھا کہ میاں شہباز شریف کو خود بھی گرینری بہت پسند ہے چنانچہ آج کے لاہور میں سیمنٹ اور لوہے کی سڑکیں اور فلائی اوورز ہونے کے باوجود شہر میں جگہ جگہ چھوٹے اور بڑے پارک بنائے گئے ہیں، جہاں سے درخت کاٹا جاتا ہے، اسی وقت اس کی جگہ دوسرا پودا لگا دیا جاتا ہے اور اس کی مکمل نگہداشت بھی کی جاتی ہے راولپنڈی اسلام آباد کے میٹرو روٹ کو بھی سرسبز و شاداب رکھنے کا پورا اہتمام ابھی سے کر دیا گیا ہے!
شریک گفتگو قابل احترام دانشور خاتون نے شروع میں تو بہت سے سوال اٹھائے مگر حنیف عباسی کی وضاحتوں کے بعد انہوں نے صرف ایک نکتے پر فوکس کیا اور وہ یہ کہ اتنے بڑے منصوبے کی بجائے صرف ایک بس لین (LANE)بنا دینا چاہئے تھی۔ انہوں نے نیو یارک اور لندن وغیرہ کی مثال دی مجھے ان کے اس استدلال نے قائل نہیں کیا، میں ان شہروں میں جاتا رہتا ہوں۔ نیو یارک کی صورتحال تو یہ ہے کہ وہاں آپ صبح بس میں بیٹھتے ہیں اور شام کو اپنی منزل پر پہنچتے ہیں۔ چنانچہ ان بسوں میں غریب قسم کے ٹورسٹ، سیاہ فام پسماندہ امریکی اور بوڑھے لوگ ہی زیادہ تر سفر کرتے پائے گئے ہیں، لندن میں ٹیوب ایک بہترین وسیلہ سفر ہے تاہم بسوں میں وہاں بھی بہت مجبور قسم کے لوگ سفر کرتے ہیں، مجھے سمجھ نہیں آتی کہ اگر راولپنڈی کے غریب عوام کو ایک شاندار، وقت بچانے والی ایک سروس مہیا کی جا رہی ہے تو اس پر بے جا اعتراض کیوں کیا جاتا ہے، کیا یہ ملک صرف امیروں کے لئے بنایا گیا تھا یا ان تاجروں کے لئے جو ایک کھوکھے سے اپنا کاروبار شروع کرتے ہیں اور ٹیکس چوری کر کے اور دوسرے ہیر پھیر کے ذریعے پلازوں پر پلازے بناتے چلے جاتے ہیں اور جب غریب عوام کو کوئی سہولت دی جاتی ہے تو یہ فکر مند ہو جاتے ہیں کہ کچھ دنوں کے لئے وہ لوٹ مار نہیں کر سکیں گے!
اور ہاں راولپنڈی، اسلام آباد منصوبے پر ایک اعتراض معزز خاتون نے یہ بھی کیا کہ جو رقم متذکرہ منصوبے پر خرچ کی جا رہی ہے وہ صحت اور تعلیم کے منصوبوں پر خرچ ہونا چاہئے تھی، اس کے جواب میں حنیف عباسی نے ان کاموں کی ایک طویل فہرست پیش کر دی جو راولپنڈی میں صحت اور تعلیم کے حوالے سے کئے گئے تاہم میرا خیال ہے کہ ابھی صرف پنجاب نہیں پورے پاکستان میں صحت اور تعلیم پر بہت زیادہ خرچ کرنے کی ضرورت ہے، میں امید کرتا ہوں کہ حکومت ان شعبوں پر بھی پہلے سے زیادہ توجہ دے گی۔
اور اب آخر میں احمد فراز کی ایک خوبصورت غزل جو ان کے خاص رنگ میں ہے اور مجھے بہت پسند ہے!
شعر کسی کے ہجر میں کہنا حرفِ وصال کسی سے
ہم بھی کیا ہیں دھیان کسی کا اور سوال کسی سے
ساری متاع ہستی اپنی خواب و خیال تو ہیں
وہ بھی خواب کسی سے مانگے اور خیال کسی سے
ایسے سادہ دل لوگوں کی چارہ گری کیسے ہو
درد کا درماں اور کوئی ہو کہنا حال کسی سے
دیکھو اک صورت نے دل میں کیسی جوت جگائی
کیسا سجا سجا لگتا ہے شہر ملال کسی سے
تم کو زعم فرازؔ اگر ہے تو بھی جتن کر دیکھو
آج تلک تو ٹوٹ نہ پایا درد کا جال کسی سے