’’ چہرے نہیں نظام کوبدلو ‘‘ پاکستان کا ایک مقبول نعرہ ہے ، مگر ہر آنے والی حکومت اسی فرسودہ، ناکام اور ناکام عمل نظام کو اپناکرناکامی سے دوچار ہوتی رہی ۔ 1947میں ایکت آف انڈیا مجریہ 1935نافذ کیا گیا جس کے تحت جمہوری پارلیمانی ہرسال ملک کی حکومت کی تبدیلی اور غیر یقینی حالات کاشکار رہا۔ 1958میں نافذ ہونے والا جنرل محمد ایوب خان کا نظام حکومت، جنرل خان کا حکومتی نظام اور1971میں ذوالفقار علی بھٹو نے ابتدا میں چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر اور صدر پاکستان کی حیثیت سے صدارتی طرز حکومت کا آغاز کیا اور بعد میں1973کا آئین بنایا جو پارلیمانی نظام کا حامل ہے ۔ پاکستان میں صدارتی نظام جنرل ضیا الحق کے دور حکومت میں اور جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت میں قائم رہا ۔ اگر دیکھا جائے تو پاکستان67سالہ سیاسی تاریخ میں34سال صدارتی طرز حکومت چلتا رہا اور باقی33سال پارلیمانی جمہوری حکومتیں قائم رہیں۔
تاریخ سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان میں پارلیمانی جمہوری نظام ناکامیوں سے دوچار رہا اس نظام میں وزیر اعظم زیادہ بااختیار نہیں ہوتا کیوں کہ پارلیمان کے مختلف النوع ممبران اور مختلف منشور رکھنے والی اتحادی جماعتوں کے جائز اور ناجائز مطالبات تسلیم کرنے پر مجبور ہوتا ہے جس کے باعث اس کی کارکردگی متاثر ہوتی ہے اس کی مثال اس طرھ دی جاسکتی ہے کہ اگر ایک گھوڑا گاڑی میں تیز رفتار گھوڑوں کے ساتھ ایک یا دو سست رفتار گھوڑے بھی باندھ دیئے جائیں تو گاڑی کی مجموعی رفتار سست روی کا شکار رہتی ہے پاکستان کا جمہوری پارلیمانی نظام برطانیہ کے West Minsterجمہوری نظام کی ایک کمزور شکل ہے West Minsterجمہوری نظام دنیا کے صرف تیس ملکوں میں رائج ہے پارلیمانی میں جمہوری نظام برطانیہ کے سینکڑوں سال کے زیروبم ، بادشاہ پارلیمنٹ کی چپقلش اور تلخ تجربوں کے بعد مستحکم نظام حکومت ہے جو مطلق العنان بادشاہت کے زیر اثر رواں دواں ہے ۔ جنگ عظیم دوئم کے بعد چند ممالک جو برطانیہ یا یورپی اقوام کے زیر اثر تھے انہوں نے برطانوی پارلیمانی نطام کو اپنایا، اس کے برعکس دنیا کے68ممالک میں صدراتی نظام رائج ہے ۔30ممالک میں صدارتی نظام بشمول وزیراعظم اور تقریباً 40ممالک میں بادشاہت کا نظام رائج ہے ۔ دنیا کے55ممالک میں مختلف النوع پارلیمانی نظام عمل پیرا ہے ۔ برطانوی جمہوری نظام میں ملکہ یا بادشاہ مکمل بااختیار ہوتا ہے جبکہ پاکستان، بھارت، سری لنکا اور دیگر West Minsterجمہوریت کے حامل ممالک میں صدر صرف نمائشی ہوتا ہے ۔اسلامی طرز حکومت کے لحاظ سے خلفائے وقت کا نظام حکومت صدراتی نظام حکومت سے مطابقت رکھتا ہے مگر پاکستان میں کثیر التعداد اسلامی جماعتیں اور فرقے کسی ایک متفقہ اسلامی نظام حکومت کے لیے عوام کی تائید حاصل نہیں کرسکے ۔آج دنیا کی عظیم قوتوں ریا ستہائے متحدہ امریکہ ، روس، چین، ارجنٹائن، برازیل، انڈونیشیا، ایران ، مصر ، شام سمیت دنیا کے اکثر ممالک میں صدارتی نظام میں حکومت رائج ہے بھارت، پاکستان اور سری لنکا میں جمہوری نظام میں موروثی اور خاندانی سیاست نے نیم بادشاہت قائم کی۔ ہندوستان میں جواہر العل نہرو، اندراگاندھی، راجیو گاندھی، سونیا گاندھی اور من موہن سنگھ نے تقریباً46سال دنیا کی سب سے بڑی پارلیمانی جمہوری ملک پر ایک خاندان کی حکومت مسلط رکھی۔ اسی طرح سری لنکا میں مسزبندرانائیکے خاندان طویل عرصے تک منتخب ہوتا رہا ۔پاکستان میں1970کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی نے چار مرتبہ حکومت بنائی اور چار مرتبہ ہی پاکستان مسلم لیگ نے حکومت بنائی ان جماعتوں میں خاندان، موروثی سیاست اور نیم بادشاہت کار فرمارہی۔
یہ پارلیمانی جمہورہی حکومت مکمل طور سے ناکام ثابت ہوئی ۔ مشاہدے سے ثابت ہوا کہ یہ حکومتیں ملک سے غربت ، مہنگائی، افراط زر ، تخریب کاری، بدعنوانی کم نہیں کرسکے، عوام کو پانی،بجلی، ٹرانسپورٹ، روزگار، انصاف کی فراہمی، معاشی استحکام اور بیرونی اور اندرونی قرضوں سے نجات دلانے میں ناکام ثابت ہوئیں۔
وزیراعظم کی جماعت اکثریت میں ہونے کے باوجود چھوٹی جماعتوں کے سہارے اتحادی حکومت بناتی ہے پارلیمنٹ کے ممبران اور اتحادی جماعتیں حکومت کو مختلف اوقات میں ذاتی مفاد کے لئے دباو کا شکار رکھتی ہیں جس کے باعث حکومت کے منصوبوں اور کارکردگی میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے پاکستان میں پارلیمنٹ ایک بے اختیار ادارہ ہے وزیر اعظم اور حکومتی ٹولہ اپنے فیصلے مسلط کرکے پارلیمنٹ کو ان فیصلوں پر عمل درآمد کا حکم سنا دیتا ہے پاکستان کی تاریخ میں چند خاندان اور چند جزلز پاکستان کی قسمت کے فیصلے کرتے رہے ہیں۔صدارتی نظام حکومت میں تمام عہدے انتخابات کے ذریعے عوام کے ووٹ سے منتخب ہوتے ہیں ملک کا صدر عوام کے ووٹ سے براہ راست منتخب ہوکر انتہائی بااثر اور بااختیار ہوتا ہے اور ملکی افواج کا سپریم کمانڈر ہونے کی حیثیت سے ملک کے داخلی اور خارجی معاملات پر مکمل کنڑول رکھتا ہے صدارتی نظام میں سینیٹر، ممبران پارلیمنٹ، ریاستی ادارے، بلدیاتی ادارے، براہ راست عوام کے ووٹ سے منتخب ہوتے ہیں اس لئے ضرروی ہے کہ نئے نظام میں صدر سے لے کر پارلیمنٹ، سینیٹ، گورنر، صوبائی حکومت اور بلدیاتی اداروں کا انتخاب عوام کے ووٹ سے براہ راست ہونا چاہیے پاکستان میں مختلف جماعتوں کی طرف سے ایک نعرہ بلند کیا جاتا ہے کہ ’’ چہرے نہیں نظام کو بدلو‘‘ ، مگر67سال بعد بھی کسی نئے نظام پر سیاسی جماعتیں متفق نہیں ہوسکیں ۔
کسی بھی ملک کی ترقی کے لئے علم وہنر کا حصول اور نفاذ سب سے ضروری چیز ہے تاریخ پر نظر ڈالے تو ایک دور میں یونان علم وہنر اور جنگ وجدل میں سرفہرست تھا سکے بعد رومن آئے جن کے اصول تھے کہKnowledge power and actionاس کے بعد مسلمانوں نے قرآن کا علم وعمل اپناکر دنیا پر طویل عرصے تک حکومت کی اس کے بعد یورپی اقوام، جاپان اور امریکہ نے علم وہنر میں کامیابی حاصل کرکے دنیا پر تسلط جمالیا ۔ آج کا پاکستان تعلیمی اہلیت میں دنیا کے ممالک میں150ویں نمبر پر ہے۔ اقوام عالم کی ترقی کا دارومدار افراد کی تعلیم اور ملٹری ٹریننگ میں ہے ۔ اسلامی دور حکومت میں ہر شخص علم کے ساتھ ملٹری ٹریننگ اور فنون حرب میں مہارت رکھتا ہے آج کی ترقی یافتہ دنیا میں امریکہ ، برطانیہ، اور دیگر ترقی یافتہ ممالک میں ہر نوجوان کے لئے تعلیم اور ملٹری ٹریننگ لازمی ہے ملٹری ٹریننگ سے انسان میں نظم وضبط ، ذہنی ہم آہنگی ، جسمانی طاقت، بولنے، چلنے، سوچ اور طرز عمل میں پختگی پیدا ہوتی ہے پاکستان کی نصف آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے اس نوجوان آبادی کو ملک کی ترقی ، دفاع اور خوش حالی کے لئے تعلیم اور ملٹری ٹریننگ دی جائے تاکہ قوم اندورنی اور بیرونی جارحیت سے نمٹنے کے لئے تیار ہوسکے ۔ ملک میں عدل وانصاف کا نظام قائم کرنا، ملک کی بہتری کے لئے انتہائی ضرروی ہے جب عدالتیں صحیح کام کررہی ہونگی تو ملک کا ہر ادارہ صحیح کام کرنے لگے گا پارلیمنٹ، پولیس ، انکم ٹیکس ، کسٹم، ٹرانسپورٹ، ٹریفک اور دیگر اداروں کو صحیح سمت میں گامزن کرنے کے لئے عدل وانصاف کے نظام کی اولین ترجیح ضروری ہے ۔ صوبائی خود مختاری اور صوبوں کی تعداد بڑھاکر ایک قابل عمل چھوٹے یونٹ بنانا ملک کی ترقی میں ممدومعاون ثابت ہوسکتا ہے ۔نظام کی تبدیلی آسان کام نہیں مگر دنیا کے سینکڑوں ممالک نے جنگ عظیم دوئم کے بعد اپنے ملکوں میں بہتر اور کامیاب نظام حکومت قائم کیا پاکستان میں نطام کی تبدیلی کے لئے مندرجہ ذیل اقدامات ناگریز ہیں۔
1۔ صدارتی نظام حکومت کا قیام
2۔ عدل وانصاف کی فراہمی
3۔ علم وہنر کا حصول
4۔ سماجی انصاف کا نظام نافذ کرنے کے لئے ضروری ہے کہ غریب اور امیر کے فرق کو کم سے کم کیا جائے زرعی زمین کی حد 18ایکٹر مقرر کی جائے ، مکانوں کا سائز500گز کیا جائے اور لگژری ایشیا کی درآمد پر پابندی لگائی جائے ملک میں تیار شدہ گاڑیاں اور اشیا استعمال کی جائیں اور ملکی صنعت کو فروغ دینے کے لئے ان ہی اشیا کا استعمال کیا جائے جو ملک میں بنائی جاتی ہے ہمارے پڑوسی ممالک چین اور ہندوستان نے انہی اصولوں کو اپنا کر ترقی کی حیرت انگیز کامیابیاں حاصل کی ہیں ۔
دنیا کے تمام ترقی یافتہ ممالک اپنی ملکی صنعت وحرفت کو فروخت کے مرہون منت ہیں۔پاکستان میں فوجی حکمران ، پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کے حکمرانوں کو نطام کو تبدیل کرنے اور بہتر بنانے کے لئے کئی مواقعے حاصل ہوئے مگر وہ حکمران پرانے ، فرسودہ اور ناکام نظام حکومت کو اپناتے ہوئے زوال کا شکار ہوگئے۔