• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وہ ایک دوسرے کے خلاف نمائشی نعرے لگاتے رہیں لیکن میں میاں نوازشریف اور عمران خان کو ایک دوسرے کا حقیقی مخالف نہیں سمجھتا۔گہرائی میں دیکھاجائے تو وہ ایک دوسرے کے محسن ہیں۔ بدترین اور بادشاہت نما طرز حکمرانی کے ذریعے میاں نوازشریف ‘عمران خان کے جلسوں اور دھرنوں میں حاضری بڑھارہے ہیں جبکہ غیرجمہوری طرزِ احتجاج کے ذریعے عمران خان ‘ میاں نوازشریف کو مظلوم بنا کر ان کے اقتدار کا دورانیہ طویل کررہے ہیں ۔ عمران خان وہ کام نہیں کررہے ہیں (خیبرپختونخوا اسمبلی کی تحلیل) جس سے میاں نوازشریف کی حکومت حقیقی معنوںمیں ہل جائے گی اور میاں نوازشریف وہ کام نہیں ہونے دے رہے ہیں (قومی اسمبلی سے پی ٹی آئی کے اراکین اسمبلی کے استعفوں کی منظوری) جس سے تحریک انصاف کی صفوں میں بدترین انتشار جنم لے گا۔ تحریک انصاف نے اسلام آباد کی سڑکوں کو بندکئے رکھا‘ سپریم کورٹ کا راستہ روکا‘ پارلیمنٹ کی بے توقیری کی ‘ پی ٹی وی پر حملے کی راہ ہموار کی ‘ جیو کی بلڈنگ کی اینٹ سے اینٹ بجا دی لیکن رائے ونڈ کے محل کا محاصرہ کرنے یا وزیراعظم ہائوس پر چڑھ دوڑنے کی ہمت نہیں کی ۔ اس کے برعکس حکومت نے ماڈل ٹائون میں بے دردی سے گولیاں چلوائیں ‘ فیصل آباد میں خون بہنے دیا لیکن عمران خان کے بنی گالہ کے محل کا رخ کیا اور نہ شیخ رشید احمد کے گریبان میں ہاتھ ڈالنے کی ہمت کی ۔ تبھی تو میں کہہ رہا ہوں کہ مسلم لیگ(ن) اور تحریک انصاف ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ اول الذکر جمہوریت کی آڑ لے رہی ہے لیکن خود اس جماعت کے اندر جمہوریت ہے اورنہ ملک کو جمہوری انداز میں چلارہی ہے۔ ثانی الذکر میرٹ اور انصاف کا نام لیتی ہے لیکن فیصلے کرتے وقت ان دو صفات کو قریب نہیں آنے دیتی۔مسلم لیگ (ن) میں پیر صابر شاہ ‘ اقبال جھگڑا اور سید غوث علی شاہ جیسے وہ لوگ جو پرویز مشرف کے دور میں میاں صاحب کے ساتھ ڈٹے رہے ‘ آج زیرعتاب ہیں جبکہ زاہد حامد ‘ ماروی میمن اور اسی نوع کے دیگر پرویز مشرف کے مدح خواں آج میاں صاحب کے دست و بازو بنے ہوئے ہیں ۔
دوسری طرف وہ عمر چیمہ جو اٹھارہ سال سے عمران خان کا ساتھ دے رہے تھے‘ پس منظر میں دھکیل دیئے گئے ہیں اور کچھ ہی عرصہ قبل شامل ہونے والے خاص قوتوں کے نمائندوںکو میڈیا منیجر بنادیا گیا ہے ۔ روزاول سے ساتھ دینے والے منتخب صوبائی صدر اسد قیصر کو وزارت اعلیٰ کا مستحق نہیں سمجھا گیا اور خبیر پختونخوا میں ا سٹیٹس کو کی سب سے بڑی علامت پرویز خٹک صاحب (جو پیپلز پارٹی کی حکومت میں بھی وزیر تھے‘ حید رہوتی کی حکومت میں بھی وزیر تھے اور پرویز مشرف کے دور میں ضلع ناظم تھے) کو وزیراعلیٰ بنا دیا گیا۔اسی طرح سترہ سال سے ساتھ دینے والے اور تمام وزراء میں سب سے بہتر کارکردگی دکھانے والے شوکت یوسف زئی کو جہانگیر ترین کے ایما پر وزارت سے فارغ کردیا گیا اور وہ وزارت اتحادی جماعت کے شاہرام ترکئی کو اس وجہ سے عنایت کی گئی کیونکہ وہ جہانگیر ترین صاحب کے قریب تھے۔ میاں نوازشریف کے اقتدارمیں آنے کے بعد پارٹی کو معطل کردیا گیا ہے ‘ پارلیمنٹ کو ربڑ ا سٹیمپ بنا دیا گیا ہے جبکہ پارٹی فورم پر مشاورت ایک خواب بن گیا ہے جبکہ تحریک انصاف کے آئینی فورمز بھی عملاً معطل ہیں اور جو بھی فیصلے کئے جاتے ہیں وہ من پسند افراد پر مشتمل غیرآئینی فورم یعنی کور کمیٹی سے مہر لگا کرکرائے جاتے ہیں ۔ مسلم لیگ (ن) کے مختار خاندان کے چند افراد اور ان کے چند منظور نظر افراد بن گئے ہیں جبکہ تحریک انصاف کے مختار شاہ محمود قریشی بن گئے ہیں اور صرف چند خوشامدیوں کو ہی قیادت تک رسائی حاصل ہے ۔مسلم لیگ (ن) اور حکومت کے لئے فواد حسن فواد اور اسحقٰ ڈار گھنٹہ گھر بن گئے ہیں اور کوئی بھی فیصلہ سیاسی ہو‘ مالی‘ یا سفارتی اس گھنٹہ گھر سے گزرے بغیر نہیں ہوسکتا جبکہ پی ٹی آئی میں یہ حیثیت شاہ محمودقریشی اور جہانگیر ترین کو حاصل ہوگئی ہے ۔ میاں صاحب بھی لاہور سے اسلام آباد تک کے علاقے کو اصل پاکستان سمجھتے ہیں اور ماشاء اللہ خان صاحب کی بھی یہی سوچ ہے ۔ اقتدار تک رسائی کے لئے میاں صاحب چھوٹے صوبوں اور چھوٹی قومیتوں کے علمبردار بن گئے تھے ۔ رائے ونڈ میں ان کے ایک طرف بلوچستان کے اور دوسری طرف سندھ کے قوم پرست کھڑے ہوتے تھے لیکن اقتدار میں آنے کے بعد وہ لاہور‘ مری اور اسلام آباد کو ہی پاکستان سمجھنے لگے ۔ اسی طرح خان صاحب کی سیاست کا محور و مرکز پہلے فاٹا‘ طالبان ‘ پختون اور بلوچستان جیسے موضوعات تھے لیکن پاپولر بن جانے کے بعد وہ سب کچھ بھول کرلاہور کو پاکستان اور اس کے چار حلقوں کو پورے پاکستان کا مسئلہ سمجھنے لگے ہیں ۔ میاں نوازشریف صاحب نے تما م اہم وزارتیں پنجاب کے لوگوں کو دے رکھی ہیں ۔ سندھ‘ بلوچستان ‘ پختونخوااور فاٹا کی نمائندگی نہ ہونے کے برابر ہے ۔ اسی طرح خان صاحب پر ووٹوں کی بارش پختونوں نے کررکھی ہے لیکن پارٹی مختاروں میں کوئی ایک بھی پختون نہیں ۔ ٹاک شوز میں لڑوانے کے لئے پختون مرادسعید‘ علی محمد خان اور شوکت یوسف زئی کو آگے کررکھا ہے لیکن حکومت سے مذاکرات ہوں تو قیادت شاہ محمودقریشی کرتے ہیں اور کمیٹی میں ایک بھی پختون شامل نہیں ہوتا۔میاں نوازشریف پنجاب کا مختار بننے کے بعد مطمئن ہیں ۔ انہوںنے سندھ ‘ بلوچستان اور پختونخوا کو اپنے اپنے حال پر چھوڑ رکھا ہے ۔وہ تحریک انصاف کا مطالبہ اس لئے مان نہیں رہے ہیں کہ چاروں حلقے لاہور کے ہیں ۔ سندھ‘ بلوچستان یا پختونخوا کے ہوتے تو چار کی بجائے چالیس حلقے بھی خوشی سے دے دیتے ۔ دوسری طرف دھاندلی کی شکایت سب سے پہلے اور زیادہ بلوچستان میں سامنے آئی تھی ‘ فاٹا شاید دھاندلی کے حوالے سے نمبرون تھا۔ پختونخوا میں یہ شکایت اے این پی اور جے یو آئی نے کی تھی ‘ سندھ کے قوم پرستوں اور مسلم لیگ(فنکشنل) جیسی جماعتیں بھی دھاندلی سے متاثر ہوئیں لیکن کسی اور کی آواز بننے کی بجائے خان صاحب نے صرف لاہور کے چار حلقوں کو ایشو بنا دیا ہے ۔ خیبرپختونخوا کے تحریک انصاف کے ایم این ایز اپنے اپنے حلقوں میں یا پھر قبائلی علاقوں میں پختونوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کا ذکر نہ تو اسمبلی میں کرسکتے ہیں اور نہ ٹاک شوز میں لیکن دن رات وہ لاہور کے چار حلقوں کا رونا رورہے ہیں ۔ میاں نوازشریف کے امیدوار(شہاب الدین ) کو باجوڑ کے قبائلیوں نے بھی کامیاب کرایااور جنوبی وزیرستان کے قبائلیوں نے بھی ان کے امیدوار کو اسمبلی میں بھیج دیا لیکن میاں صاحب نے کسی قبائلی کو کوئی وزارت نہیں دی ۔ قبائلی علاقوں کے کوٹے میں انہوں نے وزارت عملاً بندوبستی(ایف آر پشاور) علاقے سے تعلق رکھنے والے عباس آفریدی کو دے دی جو پیپلز پارٹی کی حکومت میں بھی وزیر تھے۔اسی طرح عمران خان صاحب نے صوبے میں وزارت اسی عباس آفریدی کے بھائی ‘ امجد آفریدی کو دے رکھی ہے ۔ یہ خاندان اگر بندوبستی علاقوں سے تعلق رکھتا ہے تو پھر عباس آفریدی ‘ قبائلی علاقوں کے کوٹے میں کیسے ایم این اے اور وزیر ہیں اور اگر یہ لوگ قبائلی ہیں تو پھر ان کے بھائی عباس آفریدی کس طرح صوبائی اسمبلی کے ممبر اور پی ٹی آئی کے وزیر ہیں ۔ میاں نوازشریف صاحب اور خان صاحب کی ایک اور قدر مشترک ذاتی جہاز کے مالکان سے محبت بھی ہے ۔ ایک ذاتی جہاز کے مالک جو زرداری صاحب کے منظور نظر تھے ‘ اب میاں صاحب کی حکومت میں بھی اہم تقرریاں کررہے ہیں ۔ لیکن خان صاحب نے شیخ رشید احمد اور پارٹی کے دیگر رہنماوئں کو ہدایت کررکھی ہے کہ وہ میاں صاحب کے اس قریبی کاروباری شخصیت پر تنقید نہ کریں کیونکہ وہ پی ٹی آئی کے بھی فنانسر ہیں ۔
اسی طرح ذاتی جہاز اور ذاتی ہیلی کاپٹر کا مالک ہونے کی وجہ سے جہانگیر ترین صاحب سے عمران خان صاحب کی عقیدت سے بھی ایک دنیا واقف ہے ۔گویا کئی حوالوں سے دیکھئے تو مسلم لیگ اور پی ٹی آئی ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں ۔ قابل رحم ہیں وہ غریب پاکستانی جو ان سب کچھ کے بعد بھی میاں نوازشریف کے حق میں نعرے لگاتے ہیں اور ترس آتا ہے پی ٹی آئی کے ان ورکروں پر جو اپنی قیادت کو انقلابی سمجھ کر ان کی خاطر گھروں سے نکلتے اور دوسروں کو گالیوں سے نوازتے ہیں۔ قابل رحم ہیں وہ پختون‘ سندھی اور بلوچی مسلم لیگی جو اس کے بعد میاں نوازشریف کو اپنا لیڈر مانتے ہیں اور افسوس ہوتا ہے پی ٹی آئی کے ان پختونوں پر جو پختونوں کو تباہی کے سپرد کرکے لاہور کی باشاہت کے لئے لڑنے والی قیادت کی خاطر دوسروں کے عزتوں پر حملہ آور ہوتے ہیں۔جنگ تخت لاہور کی ہے اور تختہ مشق بنے ہوئے باقی پاکستان کے لوگ۔
تازہ ترین