جنرل (ر) پرویز مشرف کے حقیقی بھائی اقوام متحدہ کے ایک ذیلی ادارہ سے منسلک تھے اور اٹلی میں متعین تھے انتہائی شریف النفس اور اپنی وضع داری کیلئے ہر خاص و عام میں اچھی شہرت و احترام کے مالک تھے۔ ان کے ایک صاحبزادے جن کی بصارت بھی خاصی کمزور تھی وہ امریکہ میں سخت سیکورٹی ، امیگریشن رجسٹریشن اور ضوابط کی لپیٹ میں آگئے اور سویلین حراست میں لے لئے گئے۔ امریکی حکام کے علم میں جونہی آیا کہ یہ جنرل (ر) پرویز مشرف کے بھتیجے ہیں امریکی حکام نے انہیں انتہائی خاموشی سے ازخود رہا کردیا تھا مگر واشنگٹن میں پاکستانی سفارتخانہ میں ایک زلزلہ آیا ہوا تھا۔ اسی طرح انہی ایام مشرف دور میں جب قومی اسمبلی کے اسپیکر امیر حسین کے ایک نوجوان رشتہ دار کو برطانوی جعلی پاسپورٹ پر امریکہ میں گرفتار کرکے سویلین کسٹڈی میں رکھا گیا تو پھر ایک مرتبہ اسلام آباد کے حکمرانوں اور قانون کی بالادستی کے دعویداروں کی ہدایات، فون کالز اور مطالبات نے واشنگٹن کے پاکستانی سفارتخانہ کو ایک بڑے زلزلہ میں مبتلا کر رکھا تھا۔ ایک رنگے ہاتھوں پکڑے جانے والے نوجوان کو امریکی قانون کی گرفت سے چھڑانے کیلئے فون کالز کا سلسلہ جاری تھا ۔ پاکستان میں قانون کی بالادستی ، انسانی وقار اور حقوق کی پاسداری اور آزادی پاکستان کے دعوے کرنے والے حکمرانوں اور سیاستدانوں کو زندگی میں بارہا امریکیوں کے سامنے اور امریکی نظام کے سامنے جھکتے اور ’’کمپرومائز‘‘ کرتے ہوئےدیکھا ہے۔امریکی نظام کے اصولوں کے سامنے پاکستانی حکمرانوں کی اکثریت کو جھکتے ، خوشامد کرتے اور ذاتی اقتدار کیلئے قومی مفادات کو قربان کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ لیکن 8دسمبر کو امریکی سینیٹ کی انٹیلی جنس کمیٹی نے 485 خفیہ دستاویزات پر مشتمل اپنی جو ’’ایگزیکٹو سمری رپورٹ‘‘ جاری کی ہے وہ انتہائی چشم کشا ، دلخراش اور تاریخی ظلم پر مبنی ہے جس کے بارے میں امریکی صدر اوباما بھی افسوس کا اظہار کررہے ہیں اور وہ انہی واقعات کی بنیاد پر پہلے ہی 2009ء میں ایک ایگزیکٹو آرڈر کے تحت امریکہ میں دوران تفتیش ٹارچر کے استعمال کو ممنوع قرار دے چکے ہیں۔ اس رپورٹ میں پاکستان کا ذکر بھی ہے۔ دراصل سی آئی اے کی یہ خفیہ رپورٹ اسی دور کے حقائق اور واقعات پر مشتمل ہے جب جنرل (ر) پرویز مشرف پاکستان کے کلی مختار حکمران اور امریکہ کے فرنٹ لائن اتحادی تھے۔ یہ امریکی رپورٹ پڑھنے ، سمجھنے اور نتیجہ اخذ کرنے کیلئے منطق ، اصول ، تاریخی تناظر اور مشرف دور کے حقائق کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے۔ جنرل (ر) مشرف نے خود اپنی کتاب کے صفحہ 237پر یہ اعتراف کیا ہے کہ انہوں نے کتنے ہی دہشت گردوں کو پکڑ کر امریکہ کے حوالے کیا۔ امریکہ سی آئی اے نے ان کو کتنے ہی ملین ڈالر دیئے ہیں لہٰذا پاکستان پر الزامات لگانا غلط ہے کہ وہ دہشت گردی کے خلاف کچھ نہیں کرتا۔ ادھر امریکہ صدر اوباما نے پانچ قبل ٹارچر کو ممنوع قرار دینے کا حکم جاری کیا اور اس رپورٹ کی اشاعت میں سی آئی اے کے ظلم اور تشدد پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اس رپورٹ کی تصدیق کی جبکہ امریکی عوام کے منتخب کردہ امریکی سینیٹ کی انٹیلی جنس کی کمیٹی کی سربراہ سینیٹر ڈایان فائن اسٹائن نے سی آئی اے کے شدید اعتراضات کے باوجود امریکی صدر کی منظوری سے ریلیز کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ایگزیکٹو سمری رپورٹ میں ریلیز کی گئی خفیہ دستاویزات کے حقائق امریکی تاریخ، روایات امریکی قانون اور امریکی اقدار پر ایک بدنما داغ اور خلاف ورزی ہیں۔ رپورٹ کی اشاعت کا واحد مقصد سینیٹر ڈایان کے مطابق یہ ہے کہ آئندہ یہ ٹارچر کے طریقے دوبارہ کسی پر بھی استعمال نہ کئے جائیں۔اب اس امریکی رپورٹ کے تناظر ، سیاق و سباق ، حقائق اور ایسے غیرملکی قیدیوں پر امریکی سی آئی اے اور اس کے کنٹریکٹرز کے ہاتھوں کئے جانے والے شرمناک ٹارچر کی تفصیل سمیت چند امور کو سمجھنا ضروری ہے تاکہ تمام صورتحال کو سمجھنے میں آسانی ہوسکے۔
جب یہ انکشاف ہوا کہ سی آئی اے نےگوانتا موبے میںزیر حراست اور دیگر زیر حراست قیدیوں پر کئے جانے والے ٹارچر کی تیار کردہ وڈیوز تباہ کردی ہیں تو امریکی سینیٹ کمیٹی نے اس بارے میں اقدامات بھی کئے اور سی آئی اے کے سربراہ اور حکام کے بیانات کیلئے سماعت بھی کی اور پھر سی آئی اے کی دہشت گردوں کے حوالے سے 60 لاکھ خفیہ دستاویزات کے مطالعہ اور چھان بین کیلئے اپنے عملہ کو بھی مصروف کردیا۔ 60لاکھ میں سے صرف 6700 خفیہ دستاویزات پر مشتمل ایک ’’ مکمل رپورٹ‘‘ پانچ سال تک محنت کرکے تیار کی گئی۔ اس ’’فل رپورٹ‘‘ کی ایگزیکٹو سمری رپورٹ صرف 485 دستاویزات و صفحات پر مشتمل تیار کی گئی جس کے جاری کرنے پر سی آئی اے کے سخت اعتراضات کے باعث ہے اس کی ریلیز ملتوی ہوتی رہی۔ بالآخر صدر اوباما سے ان خفیہ دستاویزات کو ’’ڈی کلاسی فائی‘‘ کرنے کی درخواست امریکی سینیٹر خاتون ڈایان فائن اسٹائن نے کی اور 8دسمبر کو یہ رپورٹ امریکی عوام اور میڈیا کو ریلیز کردی گئی ہے۔ اس رپورٹ میں مشرف دور میں امریکہ کے حوالے کئے جانے والے ان افراد کی تفصیل اور ان پر ٹارچر کی تفصیل جو دہشت گردی، شدت پسند تنظیموں سے وابستہ ہونے کے الزام میں امریکہ کو مطلوب تھے لیکن اس رپورٹ میں ایسے بے گناہ معصوم انسانوں کا سی آئی اے کی تحویل میں پتہ چلتا ہے کہ جن پر نہ کوئی الزام تھا نہ امریکہ کو مطلوب تھے لیکن امریکہ کے حوالے کردیئے گئے اور سی ائی اےنے ان افراد پر وہی ٹارچر اور وہی ظالمانہ سلوک کیا جو دہشت گردی کے الزام میں مطلوب خالد شیخ، ابو زبیدہ اور رمزی الشبیح جیسے قیدیوں پرکیا گیا۔ان خفیہ دستاویزات کی رپورٹ میں یہ بھی تسلیم کیا گیا ہے کہ امریکی سی آئی اے کو 26 ایسے بے گناہ اور معصوم افراد بھی دیئے گئے جو بالکل بے گناہ اور دہشت گردی یا شدت پسند تنظیموں ، القاعدہ اور طالبان سے وابستگی کا کوئی الزام یا ریکارڈ نہیں رکھتے تھے۔ بالآخر ان افراد کو قید اور ٹارچر کے بعض مراحل کے بعد سی آئی نے کوئی الزام لگائے بغیر انہیں رہا تو کردیا۔ مگر ان انسانوں کی رہائی کے بعد کی زندگی اور قید کے ریکارڈ نے زندگی تو تباہ ہی کردی۔ ان بے گناہوں کی تباہی کا ذمہ دار کون ہے؟سی آئی اے نے تمام قیدیوں کو صرف گوانتا ناموبے میں ہی نہیں رکھا بلکہ پاکستان اور افغانستان سمیت مختلف ممالک میں اپنی خفیہ جیلوں اور ٹارچر سیلوں میں بھی رکھا ہے۔ یعنی بہت سے پاکستانی شہریوں کو اپنے پاکستانی قانون کے تقاضے پورے کئے بغیر اپنی ہی سرزمین پر امریکی سی آئی اے اور اس کے کنٹریکٹرز کو خوفناک ٹارچر اور اذیتوں سے نوازا گیا۔ ہمارے حکمران اور حکام انعام و اکرام اور سیکورٹی و شاباش کے مزے لوٹتے رہے۔ کاش کہ ان بے گناہ انسانوں میں حکمرانوں کے چند رشتے دار بھی شامل ہوتے جو بے گناہ ہونے کے باوجود پانی میں غوطے، ننگا کھڑا رہنا، پانچ دن تک نیند سے محرومی ، پشت سے خوراک اور پانی کی ترسیل ، اندھیری کوٹھڑی میں مسلسل قید اور دیگر ٹارچر کے بعد قید سے بے گناہ قرار پاکر اپنے خاندانوں اور گھروں میں لوٹتے اور کسی سے اس سلوک کی تفصیل بیان کرتے تو شاید یہ حکمراں انسانی اقدار، قانون اور ضمیر کی اہمیت کو بہتر سمجھنے لگتے۔ اپنے پیاروں کو بچانے اور دوسرے بے گناہ انسانوں کو غیروں کے سامنے تشدد اور اذیتوں کیلئے حوالے کردینا کیسا بہادرانہ انداز حکمرانی ہے؟ امریکی صدر جارج بش کے خفیہ آرڈر مجریہ 17ستمبر 2001ء کے تحت صرف ایسے افراد کو گرفتار یا تحویل میں لینے کی اجازت تھی جو امریکہ ، امریکی شہری امریکی اثاثوں کو نقصان پہنچا سکتے تھے۔ اس آرڈر کو M.O.N کا مخفف نام دیا گیا تھا۔
اس ایگزیکٹو سمری رپورٹ کی دستاویزات میں پاکستان کے حوالے سے بھی بہت سے ایسے انکشافات بھی ہیں جو ہمارے حکمرانوں نے اپنے ہی عوام، اپنی ہی پارلیمینٹ اور اپنے ہی اداروں سے چھپائے ہوئے تھے۔ کاش صدر اوباما کم از کم ان 6700 خفیہ دستاویزات پر مشتمل ’’فل رپورٹ‘‘ کو ڈی کلاسیفائی کرنے کا حکم جاری کردیں تو 11؍ستمبر 2001ء سے لیکر 2009ء تک کے پاکستانی دور اور حکمرانوں کے خوشامدانہ فیصلے، امریکی خواہشات کی تعمیل اور بے گناہ انسانوں کو حوالے کرنے کی داستانیں سامنے آسکیں گی۔ چونکہ یہ تمام عرصہ پاکستان میں جنرل (ر) پرویز مشرف کی حکمرانی کا دور تھا لہٰذا جنرل (ر) مشرف کو چاہئے کہ وہ پاکستانی عوام کو بتائیں کہ انہوں نے امریکہ کو مطلوب اشخاص کو گرفتار کرکے پاکستانی قانون کے تقاضے پورے کرکے امریکہ کے حوالے کرنے کا اقدام درست کیا۔ مگر ان کے دور حکومت میں بعض بے گناہ اور امریکہ کو غیرمطلوب ، انسانوں کو امریکہ کے حوالے کرکے پاکستان میں ہی خفیہ جیلوں میں ٹارچر اور امریکی تحویل و قید کا نشانہ کیوں بنایا۔ جنرل (ر) مشرف عموماً یہ کہہ کر بری الذمہ ہونے کی کوشش میں رہتے ہیں کہ میں تو صدر تھا یہ کام تو میرے علم میں نہیں یا کسی دوسرے نے ایسا کیا تھا۔ مگر جنرل صاحب کام خواہ کوئی کرے اس کا کریڈٹ یا ڈس کریڈٹ ٹیم لیڈر یعنی آپ کو ہی ملے گا۔ آپ کے دور حکمرانی میں پاکستانی سرزمین سے جن بے گناہ انسانوں کو امریکی سی آئی اے کے حوالے کیا گیا اور وہ تمام تر ٹارچر اور ظالمانہ سلوک کے بعد بھی امریکی سی آئی اے کی نظر میں بھی بے گناہ اور قابل رہائی قرار پائے ان کی زندگیاں تباہ کرنے اور زندہ د رگور کرنے کے ذمہ دار آپ ہیں۔
ا س چشم کشا رپورٹ کے دیگر پہلو بھی اہل دانش کو دعوت فکروتجزیہ دیتے ہیں۔ جنرل (ر) پرویز مشرف پاکستانی عوام کو اپنے موقف اور حقائق سے آگاہ کریں۔