• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پنجاب لیکویڈیشن بورڈ کا قیام 1992ء میں وزیراعظم نواز شریف کی پہلے دورہ حکومت کے دوران عمل میں آیا، جس کا مقصد فنانس کریڈٹ کمپنیوں کے متاثرین کی رقم کی واپسی تھا۔ 1997ء میں جب وزیراعظم نواز شریف کی دوسری مرتبہ حکومت قائم ہوئی تو ان کے بھائی شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ بنے۔ وزیراعلیٰ بننے کے بعد ان کے حکم سے مختلف بینکوں سے دو ارب کا قرضہ لیا گیا تا کہ کوآپریٹو فنانس کمپنیز کے متاثرین کی رقوم واپس کی جاسکیں۔ فنانس کوآپریٹو کمپنیز کا فراڈ پاکستان کے بڑے فراڈوں میں شمارہوتاہے۔ ان کمپنیوں کو بنانے میں ہمارے سیاستداں سابق بیورو کریٹ اور بڑے بڑے بزنس مین شامل تھے جنہوں نے لوگوں کے پیسوں سے پراپرٹیز خریدیں، مختلف کاروباروں میں سرمایہ کاری کی اور بعد میں لوگوں کو پرافٹ دینے کی بجائے کمپنیاں دیوالیہ کروانا شروع کردیا۔اس صورتحال کے پیش نظر تب وزیراعلیٰ پنجاب نے لیکویڈیشن بورڈ کو فعال کیا کوآپریٹوسوسائٹیز اور فنانس کمپنیز کی تمام پراپرٹیز ضبط کرنے کے لئے قانون سازی کی تمام فنانس کریڈٹ کمپنیز کو کالعدم قرار دے کر ان کے اثاثہ جات لیکویڈیشن بورڈ کے سپرد کر دیئے گئے۔ جس کے بعد سب سے پہلے25 ہزار تک سرمایہ لگانے والے متاثرین کی رقم واپس کرنے کا عمل شروع ہوا۔2001ء میں جب ملک بھر میں پراپرٹیز کی قیمتوں میں بے انتہا اضافہ ہوا تو لیکویڈیشن بورڈ کے اثاثے متاثرین کی رقوم سے کہیں زیادہ بڑھ چکے تھے۔ 2004ء اور2005ء میں بریگیڈئیر (ر) فاروق مان چیئرمین پنجاب لیکویڈیشن بورڈ تعینات ہوئے تو انہوں نے بورڈ کی پراپرٹیز کو فروخت کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ نا صرف متاثرین کی رقوم کی ادائیگی کی جا سکے بلکہ مختلف بینکوں سے لئے جانے والے قرضوں کی واپسی کو یقینی بنایا جا سکے جو کہ بڑھ کر دگنی ہو چکے تھے۔ ان پراپرٹیوں کی فروخت کے بعد ناصرف متاثرین کی ادائیگی کا سلسلہ جاری رہا بلکہ بینکوں کی رقوم بھی ادا کر دی گئیں۔ ان ہی کے دورِ ملازمت میں پنجاب لیکویڈیشن بورڈ نے بڑی بڑی پراپرٹیز کوفروخت کیا جس میں کافی باقاعدگیاں بھی رپورٹ ہوئیں۔ ان کے دور میں ٹھوکر نیاز بیگ میں واقع ایک بڑے اسٹور کی پراپرٹی فروخت کی گئی۔ جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ سابق اعلیٰ بیورو کریٹ اور پنجاب حکومت کے سابق اہم شخصیت کے بیٹوں کے کہنے پر ایک کمپنی کوفروخت کی گئی۔ اسی طرح بُچّہ گارڈن واقع ملتان روڈ انتہائی قیمتی پراپرٹی کو بھی انتہائی کم قیمت پر فروخت کیا گیا اس کے پس پردہ ایک سیاستداں جو کہ اب اس دنیا میں نہیں ہیں اس کے حصہ داروں میں شامل ہیں۔ بچہ گارڈن واقع ملتان روڈ پراپرٹی کی اہمیت کااندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس وقت کے وزیر کوآپریٹو ذوالفقار اعوان کو قتل کر دیا گیا اور اطلاعات یہی ہیں کہ ان کے قتل کی وجہ بھی یہی پراپرٹی تھی۔ اسی طرح ڈیفنس ہائوسنگ سوسائٹی لاہور کے اردگرد واقع پنجاب لیکویڈیشن بورڈ کی پراپرٹیز اس وقت کی ایک بڑی کنسٹریکشن کمپنی کے مالکان کو انتہائی کم قیمت میں دی گئیں۔ اسی دور میں اور بھی بہت ساری پراپرٹیاں مارکیٹ ویلیو سے کم قیمت پر فروخت کی گئیں ۔ لیکویڈیشن بورڈ میں پراپرٹی کی فروخت کی اجازت بورڈ دیتا ہے اور اس کو کسی کورٹ میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔ 2008ء میں جب شہباز شریف دوبارہ وزیراعلیٰ پنجاب بنے تو انہوں نے ایک قابل اور ایماندار بیورو کریٹ کو پنجاب لیکویڈیشن بورڈ کا چیئرمین مقرر کیا اورہدایت کی کہ وہ ناصرف متاثرین کھاتے داروں کی رقوم کی واپسی کو جلد از جلد مکمل کیا جائے اور ساتھ ہی اضافی بچ جانیوالے اثاثوں کی شفاف فروخت کے بعد اس بورڈ کو ختم کیاجائے اس کے علاوہ اس میں ہونے والی کرپشن اور بے ضابطگیوں کی مکمل انکوائری کی جائے۔ لیکویڈیشن بورڈ کے تمام کھاتوں کو از سر نو چیک کروایا گیا اور بورڈ میں ہونے والی بے ضابطگیوں اور کرپشن کے 7 رنفرنس سابق چیئرمین کے خلاف اینٹی کرپشن میں دائر کئے۔ جس کے بعد ان کے خلاف اینٹی کرپشن میں 4 پرچے درج کروائے گئے جس میں بچہ گارڈن کو اونے پونے داموں فروخت کرنے کاالزام تھا ۔ خانیوال ٹیکسٹائل مل کی 156کینال کمرشل اراضی کو فروخت کرنے کا مقدمہ بھی درج کروا گیا۔ ان مقدمات میں سابق سیکرٹری لیکویڈیشن بورڈ ، ایڈیشنل سیکرٹری پراپرٹی،ڈپٹی سیکرٹری پراپرٹی بھی شامل ہیں۔ جس میں یہ تمام لوگ آج تک اشتہاری ہیں۔ صرف خانیوال ٹیکسٹائل ملز کی 156کنال کمرشل اراضی ایک لاکھ 25 ہزار کنال کے حساب سے فروخت کی گئی۔ پنجاب لیکویڈیشن بورڈ کی بے ضابطگیوں اور بے قاعدگیوں میں بورڈ کے سابق لیگل ایڈوائزر نے بھی اہم کرداراداکیا ۔بورڈ کے اعلیٰ حکام کا کہنا ہے کہ سابق لیگل ایڈوائزر نے بورڈ کا بیشتر ریکارڈ اپنے گھر رکھاہوا تھا جس کی آج تک واپسی نہ ہوئی۔ بورڈ کے پاس مکمل ریکارڈ نہ ہونے کے باعث بھی اربوں روپے کی پراپرٹی محکمہ مال کے ساتھ مل کر مختلف لوگوں کے نام منتقل کئے جانے کا اندیشہ ہے۔ پنجاب لیکویڈیشن بورڈ کے پاس اب بھی اربوں روپے کے اثاثہ جات ہیں جبکہ کھاتے داروں کی رقم نا ہونے کے برابر ہے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب نے اپنے موجودہ دور حکومت میں ریونیو ڈیپارٹمنٹ کے ایک ماہر بیورو کریٹ کو چیئرمین پنجاب لیکویڈیشن بورڈ تعینات کیا۔
وزیر اعلیٰ پنجاب کی طرف سے ان کو ہدایات جاری کی گئیں ہیں کہ دسمبر 2017ء تک اس بورڈ کو ختم کردیا جائے اور سرپلس پراپرٹیز کی نیلامی یقینی بنائی جائے تاکہ اس سے حاصل ہونے والا اربوں روپے کا ریونیو پنجاب کے فلاحی کاموں پر خرچ کیا جاسکے۔ چیئرمین لیکویڈیشن بورڈ نے وزیراعلیٰ پنجاب کو ایک روڈ میپ پیش کیا ہے جس کو خادم اعلیٰ پنجاب نے فوری منظور کرلیا ہے۔ پہلے سال میں 22 کوآپریٹو فنانس کمپنیز کو بند کر دیا جائے گا۔ یہ وہ کمپنیز ہیں جن کے متاثرین کی رقم ادا کر دی گئی ہے۔ دوسرے سال میں 26 کے قریب مزید کوآپریٹو کمپنیز بند کردی جائیں گی۔ اس حوالے سے ضروری انتظامات مکمل کر لئے گئے ہیں۔ وزیر اعلیٰ پنجاب کی طرف سے پنجاب لیکویڈیشن بورڈ کو ختم کرنے اور باقی ماندہ رہ جانے والے کھاتے داروں کی رقم کی فوری ادائیگی کیساتھ ہی بچ جانے والے اثاثہ جات کی فوری طور پر نیلامی احسن اقدام ہے ۔ ایسا کرنے سے لیکویڈیشن بورڈ کے ملازمین سے ناصرف اضافی بوجھ ختم ہوسکے گا بلکہ اربوں روپے کا ریونیو حکومت پنجاب کو مل سکتاہے جس سے صحت اورایجوکیشن سمیت دیگر بڑے بڑے فلاحی منصوبے بنائے جاسکتے ہیں لیکن ایسا ہونا اتنا آسان نہیں وزیر اعلیٰ پنجاب کو اس حوالے سے تمام اقدامات کی خود نگرانی کرنے کی ضرورت ہے خاص طور پر رائیونڈ، بیدیاں روڈ، جیل روڈ،مال روڈ سمیت پنجاب بھر کے دیگر اضلاع میں انتہائی قیمتی پراپرٹیز ہیں جن کو سابق ادوار میں اونے پونے داموں فروخت کرنے کی متعدد بار کوششیں ہو چکی ہیں اور ان پر قبضے ہونے کا بھی اندیشہ ہے اگرچہ موجودہ چیئرمین بہت احسن طریقے سے اپنی ذمہ داریاں نبھارہے ہیں اس کے باوجود حکومت پنجاب کو چاہئے کہ وہ پنجاب لیکویڈیشن بورڈ کے معاملات پر خصوصی توجہ دے تاکہ صوبے کے قیمتی اثاثہ جات کی حفاظت کو یقینی بنایا جاسکے۔


.
تازہ ترین