آج کے جدید ترقی یافتہ دور میں جب انسان اپنے ہی ہاتھوں اپنی تباہی کے کئی ہتھیار و اوزار تیار کر چکا ہے اور جدید ٹیکنالوجی کے فوائد سے مستفید ہونے کے ساتھ ساتھ اسکے نقصانات و مضمرات سے بھی اچھی طرح آگاہ ہو چکا ہے۔ جدید ٹیکنالوجی او ر سائنسی ترقی نے جہاں انسانی زندگی کو سہل اور آسان بنانے میں کوئی پہلو تہی نہیں برتی، وہی اسی ٹیکنالوجی کے سہارے انسان نے دوسرے انسانوں کو تباہ کرنے کے جو نئے نئے طریقے سوچے اور ہتھیار ایجاد کیے ہیں ان کی وجہ سے امن عالم کو قدیم دور کے مقابلہ میں دہ چند خطرات لاحق ہو چکے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ آج جمعیت اقوام دنیا میں امن قائم کرنے کیلئے زیادہ تندہی سے سوچنے میں مصروف ہے۔ کچھ ماہرین کے خیال میں مختلف اقوام عالم کے مابین جنگ و جدل کی اصل وجہ معاشی و سائل پر جائز و ناجائز طریقے سے قبضہ ہے۔ طاقتور قومیں پسماندہ قوموں کے وسائل پر بھی قبضہ جمانے کی فکر میں ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ جب تک دنیا میں معاشی مساوات کا تصور فروغ نہیں پائے گا۔ اس وقت تک دنیا میں امن کا قائم ہونا ناممکن ہے۔ مگر اس بات کا کیا کیجئے کہ دنیا کی چند اقوام مضبوط معاشی حیثیت کی حامل ہوتے ہوئے بھی پسماندہ اقوام کے وسائل پر قابض ہونے کے درپے ہیں۔ جنگ اصلاً تشددو جبر کا دوسر ا نام ہے۔ جہاں تک میرا خیال ہے امن و سلامتی ہر انسان کا بنیادی حق ہے اور ساری دنیا کا اجتماعی فریضہ ہے کہ وہ ہر انسان کو امن کی شانتی سے آشنا کرنے کے لئے اپنی ازحدکوشش کو وقف کر دے۔انفرادی طور پر تو ہم میں سے ہر کوئی امن و شانتی کا متمنی ہے مگر انسانیت کی اجتماعی سطح پر مختلف اقوام آپس میں برسرپیکار ہیں۔
اقوام متحدہ کے چارٹر کی رُ و سے ہر سال اکیس ستمبر کو امن کا عالمی دن منایا جاتا ہے جس کا بنیادی مقصد نسل انسانی کے ذہن میں امن کی برکتوں اور فیوض کو جاگزین کرتے ہوئے انہیں جنگ وجدل سے باز رکھنا اور پوری دنیا کو امن کا گہوارہ بنانا ہوتا ہے۔اس کا مقصد لوگوں میں امن کی اہمیت اور ضرورت کا احساس اُجاگر کرنا ہے۔ اقوام متحدہ ہر سال اس دن کی کوئی تھیم مقرر کرتی ہے۔2016ء میں امن کے عالمی دن کی تھیمThe Sustainable Develoment Goals: Building Blocks for Peaceمقرر کی گئی ہے۔ اس تھیم کے پس منظر میں عالمی راہنمائوں کی جانب سے متفقہ ایجنڈا2030ء کا ر فرما ہے۔ اس ایجنڈا کے تحت اگلے پندرہ برسوں میں غربت کا خاتمہ، زمین کی حفاظت اور تمام لوگوں کے لئے خوشحالی کے مقاصد پر کام کرتے ہوئے ہماری آج کی دنیا کو ایک مثالی اور خوشحال دنیا کار نگ دینا ہے۔ ایسا اسی صورت میں وقو ع پذیر ہو سکتا ہے جب دنیا کے تمام انسان امن قائم کرنے کی راہوں پر گامزن ہو جائیں۔
اگر بنظر غائر دیکھا جائے تو انسانیت کو درپیش مسائل کو کم کرنے کے لئے جامعات علمی و تعلیمی کوششوں کے ذریعے اپنا واضح کردار ادا کر سکتی ہیں۔ جامعات دنیا کے قدیم ترین سماجی اداروں میں سے ایک ہیں۔ بنظر ظاہر جامعات اپنی سماجی و معاشرتی ذمہ داریوں سے پہلو تہی برتتی رہی ہیں۔ مگر پاکستان میں حالیہ ایجوکیشنل ایکٹوزم نے جامعات کو ایک نئی سماجی و معاشرتی زندگی سے روشناس کروانے کی کوشش کی ہے اور مجھے امید ہے کہ جامعات صحیح معنوں میں ایک سماجی ادارہ کا ثبوت دیتے ہوئے ملکی مسائل کو حل کرنے کے لئے اپنا کردار ادا کریں گی۔ بد قسمتی سے ہمارے ملک میں سیاسی حالات میں بے یقین قسم کا اتار چڑھائو آتا رہا ہے جس کی بنا پر جامعات کئی مرتبہ بہترین قیادت ہونے کے باوجود سماجی و معاشرتی ترقی میں اپنا وہ کردار نبھانے کے قابل نہ رہیں جس کی کہ ان سے توقع کی جاتی رہی ہے مگر اب صورت حالات کافی حد تک بدل چکی ہے اور جامعات صحیح معنوں میں ایک سماجی ادارہ بننے کی راہ پر گامزن ہیں۔
ہم ابھی تک یہ سمجھنے کے قابل نہیں ہو سکے کہ انسانی آزادی ہمار ا سب سے قیمتی سرمایہ ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس بات کا احساس دلانا اور اس طرزفکر کو عام کرنا جامعات کی اوّلین ذمہ داری ہے۔ اس بدلی ہوئی فضا میں جامعات جب تک اپنے اردگرد پھیلے ہوئے سماجی اور معاشرتی و صنعتی اداروں کے ساتھ اپنے روابط کو مضبوط تر نہ بنائیں گی، اس وقت تک ملکی ترقی کے اہداف کو ممکنہ حد تک حاصل کرنا ناممکن ہے۔ جامعات میں علم حاصل کرنے والے طالب علموں کو جب تک علمی دنیا کے حقائق سے روشناس نہیں کروایا جاتا، اس وقت تک تعلیم کی اصل معراج تک پہنچنا بے معنی ہے۔ امن عالم کے خواب کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے جامعات کی سب سے بڑی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اپنے طلبہ کو انسانی آزادی کے صحیح مفہوم و تصور سے روشناس کروانے کی کوشش کریں۔ طلبہ کو پاکستان کی عوامی تاریخ و تمدن سے روشناس کروا کر ہی ہم انہیں انسانی آزادی کی منزل تک لے جا سکتے ہیں۔ ایک مرتبہ جب انسانی آزادی کا مفہوم طلبہ کے اذہان میں راسخ ہو جائے گا تو پھر معاشرہ امن کی نئی راہوں پر گامزن ہو گا۔ یہ ذمہ داری ہم سب پر اجتماعی لحاظ سے یہ فرض عائد کرتی ہے کہ ہم طلبہ کو اعلیٰ تعلیم کی مختلف راہوں پر راہنمائی کرتے ہوئے انہیں ایک حساّس اور فرض شناس فرد بننے میں ہر ممکن مدد فراہم کریں۔
(صاحبِ تحریر وائس چانسلر، یونیورسٹی آف گجرات ہیں)
.