بین الاقوامی مارکیٹ میں تیل کی قیمتیں تواتر سے گر رہی ہیں مگر پاکستانیوں کو اس تناسب سے فائدہ نہیں دیا جا رہا ۔تیل کی قیمتیں 2004سےبڑھنا شروع ہوئی تھیں۔جب تیل کی قیمت 55ڈالر فی بیرل سے کراس کر گئی تو ہر سو کہرام مچ گیا۔ امریکی فیڈرل بنک کے سابق چیئرمین مسٹرگرین سپین نے پریس کانفرنس میںجسے بلوم برگ ٹی وی نے براہِ راست نشر کیا صحافی کے سوال کے جواب میں کہا امریکی معیشت میں بہت سے شاک ابزاربر ہیں ۔ تیل کو قومی ملکیت میں لینے کے شاہ فیصل کے فیصلے سے تیل کی قیمت85ڈالر فی بیرل تک بڑھ گئی تھی مگر امریکی معیشت برداشت کر گئی تھی۔ اس سے قبل تجزیہ کاروں کاتجزیہ تھا آئل 65ڈالر سے اوپر نہیں جائیگا کیونکہ کوئلے سے تیل نکالنے کی کاسٹ 65ڈالر ہے ،بہت سے ممالک تیل خریدنے کی بجائے کوئلے سے تیل نکالناشروع کردیںگے اوپیک ممالک نہیں چاہیں گے کوئی بھی میٹریل تیل کی مسابقت میں آئے مگر ایسا نہ ہوا۔مسٹر گرین سپین کے بیان کے بعد تجزیہ کاروں کی رائے بدل گئی اور وہ تیل کی قیمتوں میں اضافہ دیکھنے لگے ۔2005/2006میں الیکٹرانک مارکیٹ میں آئل پرائسز62سے66ڈالر کے درمیان گھومتی رہیں۔جب پرائسز70ڈالر سے کراس کر گئیںتوپاکستان میں بجلی کےشارٹ فال کی خبریں آنے لگیں ۔وجہ تسمیہ ،پرائیویٹ پاور پراجیکٹس جو وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کے دورِ حکومت میں ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کاروںنے تنصیب کئے نقصان میں جانے لگے تھے۔ الزام ہے بھاری کمیشن او رکک بیکس حکومت نے لئے اور 5penceفی یو نٹ مہنگی ترین بجلی خریدی جبکہ بنگلہ دیشی حکومت نے انہی کمپنیوں سے 2.5 پنس فی یونٹ سودے کئے ۔کمیشن اور کک بیکس آلودہ معاہدہ جات کا تسلسل آنیوالی حکومتوں نے بھی برقرار رکھا بوجوہ بجلی مہنگی ہوتی گئی۔ 1982 تک بجلی کی قیمت پچاس پیسے فی یونٹ تھی جو اب پندرہ روپے سے تجاوز کر چکی ہے میٹرز بھی تیز رکھے گئے ہیں بوجوہ بلا استعمال صارف زائد بل ادا کر رہے ہیں ۔ مہنگی بجلی کی وجہ سے ہماری بر آمدگی صنعت کو شدید دھچکا لگا۔مغرب میں کاٹن سویٹرز خوشگوا رموسم میں محض فیشن کے طور پر پہنے جاتے ہیں ،پاکستان میں کاٹن سویٹرزکے دوچھوٹے یونٹس textillienاور forest کے نام سے ورکنگ تھے ۔بڑی نامور ملٹی نیشنلز کے آرڈرز ملتے ،مہنگی بجلی کی وجہ سے یہ دونوں کارخانے بند ہو چکے ہیں اور بائرز بنگلہ دیش چائنہ منتقل ہو چکے ہیں۔یہی حال دوسری ایکسپورٹ انڈسٹری کا ہوا،بیشتر کو تالا لگا ۔تیل کی قیمتیں 140ڈالرز فی بیرل تک پہنچی اور 2009میں 63تک بھی گریں مگر ان دونوں قیمتوںپر حقیقی خرید و فروخت نہ ہوئی صرف فیوچر سیٹلمنٹ ہوئیں۔زیادہ تر کروڈ آئل کی خرید و فروخت 70سے100ڈالرز کے درمیان ہوئی جس سے پاکستان کا کمزور صنعتی ڈھانچہ اور کمزور ہو گیا مگر انہی دس سالوں میں بھارت 27ارب ڈالرز ریزرو سے 270ارب کراس کر گیا ،بنگلہ دیش مضبوط ہوا اور ہماری شہ رگ پر قرض کا دبائو بڑھتا گیا ۔بدلتے سیاسی حالات کی وجہ سے کروڈآئل کی قیمتیں نیچے آ گئیں مگر اس کا حقیقی فائدہ عوام تک نہیں پہنچ رہا ہے ۔ حکومت تھوڑی سی کمی کا کریڈٹ لےرہی ہے تو تحریک انصاف دھرنوں اور احتجاجی سیاست کوکریڈٹ دے رہی ہے مگر کسی کو فرصت نہیں کہ کیا عوام تک حقیقی فائدہ پہنچ رہا ۔گزشتہ6سالوں میں بجلی گیس اور ضروریات زندگی کی قیمتیں راکٹ کی رفتار سے بڑھیں، پاکستان کی اکانومی کو ہائپر بنا دیا گیا اور جواز تیل کی متواتربڑھتی قیمتیں قرار دی گئیں۔اصول فطرت ہے اونچائی کی طرف سفر کی رفتار سلو ہوتی ہے مگر ڈھلان کی طرف بہت تیز ،آئل کی قیمتیں بھی اصول فطرت کے مطابق تیزی سے گر رہی ہیں مگر عوام کو جتنی تیزی سے نقصان میں حصہ دار بنا یا گیا تھانفع میں نہیں بنایا جا رہا ۔ الیکٹرانک مارکیٹ کے گراف بھی انٹرنیٹ پر میسّر ہیں اور حقیقی سودا کاری اور روپے میں فی لیٹر کا 2004سے2014تک کا ریکارڈ بھی موجود ہے ۔فی بیرل اور فی لیٹر کا جو توازن تھا اسے بحال کیا جائے۔
جواز پیش کیا جارہا ہے 2007تک ڈالر60روپے کا تھا اب 100روپے کا تو جناب یہ آپ کی کمزوری ہے ۔import basedاکانومی میںروپے کی قیمت گرانے کا کیا جواز ہے ۔جاپان چین بھارت تو ایسا کریں بیشتر ملکوں سے انکا توازن تجارت ان کے حق میں ہے پاکستان کے وزیر خزانہ بتائیں کون سا ملک ہے جس کے مقابلے میں توازن تجارت پاکستان کے حق میں ہے اگر آپ افغانستان کا نام لیں تو معذرت کچھ کہیں گے تو گستاخی ہو گی ۔expatriateکو خوش کرنے کیلئے ہم 1975سے روپے کی قیمت گرانے کا یہ نسخہ استعمال کر رہے ہیں کہیے کچھ افاقہ ہوا۔شوکت عزیز کے دور میں ڈالر 60روپے تک مستحکم رہا سب سے زیادہ ریزرو بھی اسی دور میںرہے۔اب یہ خبر اڑائی جا رہی ہے تیل کی قیمتوں میں گراوٹ عارضی ہے جلد واپس اپنی پرانی سطح پر چلی جائیں گی ۔میرا کتھارسس مختلف ہے قیمتیں مزید گریں گی جس کی وجوہات اور میرے دلائل درج ذیل ہیں ۔اوپیک میں پھوٹ ڈال دی گئی ہے ،اوپیک کی یومیہ متعین پمپنگ حد تین کروڑ تک تھی جبکہ ممبران ممالک 6کروڑ بیرل روزانہ پمپ کر رہے ہیں ۔ پابندیوں پر نرمی کی وجہ سے ایرانی تیل مارکیٹ میں آ چکا ہے ۔ دو خلیجی ملکوں نے کسی کے ایما پر تیل کی سپلائی کم کرنے سے انکار کر دیا ہے ۔لیبیا کی بڑی ریفائنریز پر حقیقی قبضہ فرانس اور برطانیہ کا ہے جو زیادہ سے زیادہ تیل نکال کر مغرب کو سپلائی کر رہے ہیں۔روس اور وینزویلاسپلائی کم کرنا چاہتے ہیں مگر انکی کوئی سن نہیں رہا ۔ اوپیک کے علاوہ کردوںکے زیر تسلط شامی اور عراقی علاقوں میں تیل کی ریفائنریز ہیں ۔داعش ،سیریا فری آرمی اور القاعدہ کے النصرہ گروپ کے زیر قبضہ علاقوںمیں تیل کی ریفائنریز ہیں جو اقوام متحدہ کی پابندیوں کے باوجود ترکی کے راستے کھلے سمندر تک سستا تیل پہنچا رہے ہیںجسکا سب سے بڑا خریدار امریکہ خودہے ۔این ایل جی گیس کا طوفان امریکہ کینیڈا کویت،ایران قطر میں دریافت ہو چکا ہے جس کی قیمت مستقبل میں دس ڈالر فی کیوبک فٹ تک آنیکا امکان ہے جو سستا ترین تیل کا نعم البدل ہو گا ۔شمسی توانائی کا استعمال بھی بڑھتا جا رہا ہے ۔کاکیشیا کی ریاستوں میں آئل اور گیس کے وسیع ذخائر ہیں ،یہ وہ خدشات ہیں جو آئل پروڈیوسر ممالک کے سامنے ہیں اور وہ زیادہ سے زیادہ تیل بیچ کر اپنے خزانوںمیں اضافہ کرنا چاہتے ہیںمبادا یہ کنووں میںکہیں پڑا نہ رہ جائے ۔روس کے انگڑائی لینے سے سرد جنگ شروع ہو چکی ہے ۔روس چین میںمعاملات طے پا رہے ہیں سر دست دونوں ممالک بارٹر تجارت پر متفق ہو چکے ہیں جب ان کے کنسورشیم میں اور ممالک شامل ہو جائیں گے تو یورپی یونین کی طرز پر ایک یونین اور ایک کرنسی بنانے کاارادہ ظاہر کر رہے ہیں جو ڈالر کیلئے ایک بڑا دھچکا ہو گا ۔امریکہ اور بعض خلیجی ملک ایک بار پھر روس کی اکانومی کو دھچکا لگانے کیلئے متحد ہو چکے ہیں ۔
روسی معیشت کا بڑا سورس آئل اور گیس کی یورپ کو فروخت ہے ۔یورپ کو آہستہ آہستہ سستی گیس کے سورس مہیا کئے جائیں گے اور تیل کی قیمت فروخت روس کی کاسٹ کے برابر گرا دی جائیگی تا کہ روس سوویت یونین بن جائے ۔یاد رکھیں سوویت یونین میں لوگوں کی قوت خرید اس قدر گر گئی تھی عام آدمی اپنے بچوں کیلئے دودھ تک خریدنا مشکل محسوس کر رہا تھا ۔ مانا انکل سام آپ بہت بڑے پلانر ہو مگر یہ تو آپکو بھی یاد ہو گابہت سا پانی پلوں کے نیچے سے گذر چکا ہے ۔یقینا آپ کہیں گے ہم پانی کو روک کر واپس لوٹانے کا گُر جان چکے ہیں۔