جناب وزیراعظم اِس اعتبار سے مبارک باد کے مستحق ہیں کہ وہ ’سانحۂ پشاور‘ کے بعد فقط بیس دنوں میں پارلیمنٹ سے اکیسویں آئینی ترمیم منظور کرانے میں کامیاب رہے جس کی رُو سے دو سال تک فوجی عدالتیں خطرناک دہشت گردوں کے مقدمات کی تیزرفتار سماعت کر سکیں گی۔ سیاست دانوں کے لئے یہ ایک بہت مشکل اور بے حد ناخوشگوار فیصلہ تھا کہ اُن کے ووٹوں سے عدلیہ کے اختیارات اور سویلین حکومت کی بالادستی محدود کی جا رہی تھی۔ سینیٹر رضا ربانی کے ووٹ ڈالتے وقت آنسو چھلک پڑے اور حاصل بزنجو نے کہا کہ ہم زہر کے گھونٹ پی کر فوجی عدالتوں کے قیام کے لئے ووٹ دے رہے ہیں۔ اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ نے کہا کہ ہم بوجھل دل سے آئین میں ترمیم کر رہے ہیں۔ ایک صاحب نے بڑے دکھ سے کہا کہ ہماری پارلیمنٹ کی موت واقع ہو گئی ہے۔ دراصل جمعے کے روز منعقد ہونے والی آل پارٹیز کانفرنس میں فوجی عدالتوں کے قیام پر تو مکمل اتفاق ہو گیا تھا، مگر جب اِس اتفاقِ رائے کو قانونی زبان دی گئی ، تو مولانا فضل الرحمٰن اور جناب سراج الحق نے اِس سے اختلاف کیا اور اُن کی جماعتوں نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا۔ اُن کے استدلال میں ایک وزن تھا کہ دہشت گردی کو مذہب یا مسلک تک محدود نہ کیا جائے۔ آرمی ایکٹ میں ترامیم سے یہ تاثر قائم ہوا ہے کہ صرف اُن دہشت گردوں کے مقدمات فوجی عدالتوں میں بھیجے جائیں گے جو مذہب یا مسلک کے حوالے سے ریاست کے خلاف ہتھیار اُٹھائیں گے، فوج ، رینجرز اور پولیس پر حملہ آور ہوں گے اور بچوں اور عورتوں کو قتل کریں گے۔ اِس طرح نسلی، لسانی ، علاقائی عصبیتوں، مافیاؤں اور علیحدگی پسندوں پر قائم دہشت گردوں کی تنظیمیں فوجی عدالتوں کی گرفت میں نہیں آئیں گی۔
مجھے بہت خوشی ہوتی ، اگر مولانا فضل الرحمٰن اور جناب سراج الحق بھی کارواں میں شامل ہوتے، مگر ترامیم ہو جانے کے بعد بھی معاملات کو بگڑنے سے بچانا ازحد ضروری ہے۔ حکومت اپنے عمل سے یہ ثابت کر سکتی ہے کہ وہ مدارس کی اہمیت اور افادیت سے خوب واقف ہے اور دینی اور مذہبی جماعتوں کے تعاون سے دہشت گردی کے قلع قمع میں نہایت سنجیدہ ہے۔ اِس کے لئے اِسے فوری طور پر وفاق المدارس کی تنظیمات سے رابطہ کر کے ایک ایسا لائحہ عمل طے کرنا چاہئے جو شکوک و شبہات کے ازالے میں نہایت کارآمد ثابت ہو اور اِس کے ذریعے تعاون کا دائرہ وسیع تر ہوتا جائے۔ یہ امر بے حد حوصلہ افزا ہے کہ ہر مکتبِ فکر کے علماء ہر قسم کی دہشت گردی کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہیں اور اسلام کی عظیم تعلیمات کے مطابق ایک فرد کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل سمجھتے ہیں۔ امیر جماعت اسلامی جناب سراج الحق متعدد بار اسلام کا یہ نقطۂ نظر بیان کر چکے ہیں کہ قتال کا حکم صرف حکومت دے سکتی ہے اور کسی گروہ اور جتھے کو قتال کا حق نہیں پہنچتا، جبکہ برائی ، جہالت اور غربت کے خلاف جدوجہد کا نام جہاد ہے جو آجکل غلط معنوں میں استعمال ہو رہا ہے۔ مائنڈ سیٹ کو تبدیل کرنے میں علمائے کرام ہی حکومت کے دست و بازو ثابت ہو سکتے ہیں۔سفاک دہشت گردوں کا ایک بیانیہ ہے جو کالجوں اور یونیورسٹیوں میں بھی پھیل رہا ہے اور اِس سے انجینئر، ڈاکٹر ، پروفیسر اور مختلف حساس اداروں میں کام کرنے والے اہل کار بھی متاثر ہو رہے ہیں۔ یہ پیچیدہ فکری اور سماجی صورتِ حال اِس امر کا تقاضا کرتی ہے کہ عام شہری کو تحفظ کا یقین دلانے کے لئے ایک مثبت اور ایقان افروز بیانیہ تیار کیا جائے جو حقیقت شناس اور اسلام کی عالمگیر تعلیمات کا آئینہ دار ہو۔
بلاشبہ قوم جلد سے جلد انتہاپسندوں اور دہشت گردوں کا خاتمہ چاہتی ہے اور اِس لئے فوجی عدالتوں کے قیام کی حمایت میں بے مثال اتحاد اور یک جہتی کا مظاہرہ کیا ہے۔ اُسے پورا اعتماد ہے کہ فوجی عدالتیں کامل احتیاط کے ساتھ خطرناک دہشت گردوں کے مقدمات کی فوری سماعت کریں گی۔ اِس وقت ہمیں اپنی مسلح افواج کی ذمے داریوں میں اضافہ کرنے سے پرہیز کرنا چاہئے، کیونکہ بھارت کے مہاسبھائی وزیراعظم نریندرمودی نے ہمارے خلاف محاذِ جنگ کھول دیا ہے جس کا فوری مقصد ہماری افواج کی توجہ آپریشن ضربِ عضب سے ہٹا لینا ہے۔ ہمیں اِس کے منصوبے کو ناکام بنانا اور جارحانہ سفارت کاری سے پوری دنیا میں اِس کے مذموم عزائم کو بے نقاب کرنا ہو گا ۔ بدقسمتی سے ہمارے داخلی معاملات اِس نہج تک آ پہنچے ہیں کہ خطرناک دہشت گردوں کے مقدمات سننے کے لئے پارلیمنٹ کو فوجی عدالتیں قائم کرنا پڑی ہیں۔ اِس تجربے کو اطمینان بخش کامیابی سے ہمکنار کرنا حکومت ، فوج اور میڈیا کی مشترکہ ذمے داری ہے۔ صاحبانِ نظر جانتے ہیں کہ فوجی عدالتوں کی حیثیت ایک سرجیکل آپریشن کی ہے جسے مستقل علاج قرار نہیں دیا جا سکتا ، مگر اِس آپریشن کے ذریعے فوری مقاصد حاصل کئے جا سکتے ہیں۔ فوج نے اپنی جیگ برانچ کو پہلے کے مقابلے میں قانون کے علم اور تجربے سے آراستہ کر لیا ہے اور اِس کے انچارج بریگیڈئیر کے بجائے ایک میجر جنرل ہیں۔ فوجی حکام قانون کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور اُنہیں ذمے داریوں کا بھرپور احساس بھی ہے کہ قوم جس عذاب کے اندر مبتلا ہے ، اِس سے چھٹکارا دلانے کے لئے اُنہیں ایک اہم کردار ادا کرنا ہے۔ اِس کے علاوہ ہمارے قانون ساز ادارے اور وکلاء کی تنظیمیں فوجی عدالتوں کی کارکردگی پر کڑی نگاہ رکھیں گی اور غالب امکان ہے کہ پُرامن شہریوں کے بنیادی حقوق کسی طور متاثر نہیں ہوں گے۔ یہاں یہ امر بھی قابلِ ذکر ہے کہ 1973ء میں ریاست بنام ضیاء الرحمٰن مقدمے میں عدالتِ عظمیٰ نے یہ قرار دیا ہے کہ آئین مارشل لاء کے تحت قائم شدہ مقدمات کو جو تحفظ فراہم کرتا ہے ، اُن پر ہائی کورٹ دو پہلوؤں سے جائزہ لے سکتی ہے۔ ایک یہ کہ عدالت نے اپنی حدود سے تجاوز تو نہیں کیا۔ دوسرا یہ کہ عدالتی اختیارات کے استعمال میں کوئی بدنیتی تو شامل نہیں تھی۔ اِس عدالتی فیصلے کی روشنی میں فوجی عدالتوں کے فیصلوں کا عدالتِ عالیہ جائزہ لے سکے گی۔
میں سمجھتا ہوں کہ اکیسویں آئینی ترمیم کے بعد سیاسی اور عسکری قیادت کی ذمے داریوں میں بے پناہ اضافہ ہو گیا ہے۔ دہشت گردوں کے خلاف جنگ جیتنے کے لئے منصوبہ بندی ، ہوش مندی اور سیاسی فراست سے کام لینا ہو گا۔ آئینی ترمیم کی منظوری پر بلند بانگ دعوے کرنے کے بجائے نتیجہ خیز اقدامات کو جنگی بنیادوں پر عملی جامہ پہنانا ہو گا۔ ہم جب حالتِ جنگ میں ہیں ، تو اپنی صفوں میں اتحاد وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ تشویش ناک بات یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر سیکولر عناصر نے جمعیت علمائے اسلام اور جماعت اسلامی کے خلاف پابندی لگانے کی مہم شروع کر دی ہے۔ دوسری طرف مولانا فضل الرحمٰن نے اعلان کر دیا ہے کہ اکیسویں آئینی ترمیم کے ذریعے پاکستان کو ایک سیکولر ملک بنانے اور مدرسوں پر دھاوا بولنے کی تیاریاں ہو رہی ہیں جس کی ہم پوری قوت سے مخالفت کریںگے اور بستی بستی دھرنے دیں گے۔ یہ خطرہ پیدا ہو چلا ہے کہ دینی جماعتوں اور وکلاء تنظیموں کے اضطراب سے شدید خلفشار جنم لے سکتا ہے۔ اِس وقت حکومت کو فوری طور پر دینی قائدین سے مذاکرات میں لیت و لعل کرنے کے بجائے اُنہیں اپنی سنجیدگی اور خلوص کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔ مولانا فضل الرحمٰن کا ایک مطالبہ پہلے ہی تسلیم کر لیا گیا ہے کہ فوجی عدالتوں کی مقرر شدہ دو سال کی معیاد میں کوئی اضافہ نہیں ہو گا۔ اُن کا دوسرا مطالبہ یہ تھا کہ دہشت گردی کو صرف مذہب اور مسلک تک محدود نہیں کرنا چاہئے۔ ہمارے وزیرِدفاع خواجہ محمد آصف نے اِس مطالبے کی تائید کی ہے، اِس لئے دہشت گردوں کے خلاف بلاامتیاز کارروائی ہونی چاہئے۔ تیسرا مطالبہ یہ تھا کہ فوجی عدالتوں کے فیصلوں کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کی جا سکے گی۔ اِس مطالبے کا عدالتِ عظمیٰ کا وہ فیصلہ احاطہ کرتا ہے جس کا ہم نے اوپر ذکر کیا ہے۔ اِن حالات میں سنجیدہ مذاکرات کامیاب ہو سکتے ہیں اور دینی اور لادینی قوتوں کے درمیان ہونے والی جنگ روکی جا سکتی ہے جو بڑی تباہ کن ثابت ہو گی۔
میرا یقین ہے کہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے خلوص کی خوشبو اور وزیراعظم نوازشریف کی قائدانہ صلاحیت کی مہک وطن میں امن کی آبیاری کرے گی اور دو سال کے اندر اندر ہمارے انتظامی ، عدالتی اور قانون نافذ کرنے والے ادارے اِس قدر مستحکم ہو جائیں گے کہ وہ اپنی ذمے داریاں خود اُٹھا سکیں گے اور ہمارے حکمران اچھی حکمرانی کے ذریعے عوام کو زندگی کی بنیادی سہولتیں ، انصاف اور نوجوانوں کو مستقبل کی نوید دے سکیں گے اور عام سطح پر زندگی بسر کرنے کی مثالیں قائم کریں گے۔