مدارس کے قومی کردار کا مسئلہ سادہ نہیں ۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان نے ایک فلاحی مملکت بننے کا دعویٰ کیا تھا لیکن اس کے بے حد خوشحال حکمران آج تک غریب بچوں کے لئے مفت تو کیا ، سستی تعلیم تک کا اہتمام نہیں کر سکے - پھر این جی او کلچر میدان میں اترا - کئی دہائیوں سے ترقی یافتہ ملکوں سے ٹنوں ڈالر سالانہ آ رہے ہیں - لیکن گرانٹ وصول کرنے والے ذہین دانشوروں کے سوا کسی کی فلاح نہیں ہو سکی ۔’’ سب کے لئے تعلیم‘‘ کے نعرے اور ترانے خوب گونجے لیکن بات اس سے آگے نہیں بڑھی ۔ یہ ا سکول کہاں ہیں اور یہ جدید سائنسی تعلیم کہاں ہے ، خبر نہیں۔ لیکن مدارس ہزاروں سے بڑھ کر شاید لاکھوں ہو گئے - ان گنت غریب خاندان جو اپنے بچوں کی تعلیم تو کیا روٹی کا انتظام نہیں کر سکتے تھے اپنے بچوں کو مدرسوں کے حوالے کرتے چلے گئے - جدید انسانیت پرستی کا ہاتھ ان بچوں کا ہاتھ تھا منے نہیں آیا ۔
کہا جاتا ہے کہ باہرکا پیسہ آ رہا ہے جس کا مقصد انتہا پسندی کو فروغ دینا ہے۔ اور یہ کہ غریب والدین کی مجبوریوں اور ہمارے دینی جذبات سے فائدہ اٹھا کر ہمارے عوام کو دوسروں کی عالمی سیاست کا ایندھن بنا یاجارہاہے ۔ یہ الزام اگر درست بھی ہے تب بھی بے معنی ہے کیونکہ فتح عمل کی ہے ، حسن کارکردگی کی ہے - یہ معاشرہ روز اول سے اسلام کے ساتھ وابستہ اور وفادار ہے - یہاں دینی طبقوں اور جماعتوں نے دل لگا کر اسلام کی حفاظت اور اپنی قیادت قائم کرنے کے لئے کام کیا ہے ۔
ملک کے سیاسی رئوسا اور مقتدر حلقوں نے اپنے مفادات کے عوام کے دینی جذبات کو استعمال کیا - اس کے نتائج اگر اچھے نہیں تو سوال یہ ہے کہ اچھے نتائج کے لئے کسی اور نے کیا کچھ کیا ہے؟
قومی تعلیم کا مشن علمائے کرام اور مدارس کے سپرد کرنے کے متعدد مثبت پہلو ہیں- ایک تو یہ کہ مساجد جو فجر کی نماز سے ظہر تک فارغ ہوتی ہیں ، ابتدائی تعلیم کے لئے استعمال ہو سکیں گی - یوں لاکھوں تیار عمارتیں اسکول بن جائیں گی - امام اور مؤذن کو انکی علمی استعداد کے مطابق معلم کی ذمہ داریاں دے دی جائیں تو قوم کو لاکھوں ٹیچر مفت میں مل جائیں گے - یہ حضرات جس مقامی انتظام کے تحت کام کر رہے ہیں اس میں کچھ مالی اضافہ کے ساتھ یہ بخوشی اضافی ذمہ داری سنبھال لیں گے - جو ان کی عزت نفس اور کارکردگی میں اضافہ کرے گا - اس کے علاوہ وہ لاکھوں حضرات جو مدارس سے فارغ التحصیل ہو کر نکلے ہیں روزگار پا کر احتجاجی رویوں سے ہٹ کر مثبت رویوں کی طرف آ سکیں گے - مدارس کے نصاب میں قومی ضرورتوں کے پیش نظر اگر کچھ علوم کے اضافہ کی ضرورت ہے تو وفاق المدارس کی قیادت کو اس پر قائل کیا جا سکتا ہے ۔
جدید نظام تعلیم کے حامیوں کے لئے مدارس کا یہ رول قبول کرنا مشکل ہوگا - شاید مدارس کی اس بالا دستی کو لبرل سوشل میڈیا اور افسر شاہی کی مزاحمت کا سامنا بھی ہوگا - لیکن یہ ایک لاغر ، سہمی ہوئی اور قوم سےکٹی ہوئی مزاحمت ہوگی جسے میڈیا اور اقتدار میں موجود اپنے ہی ہم خیال لوگوں تک کی حمایت حاصل نہیں ہو گی - اچھا ہے کہ مدارس اور دینی طبقوں کی ناراضگی کا خوف ہمارے بہت سے لبرل دانشوروں کو مزاحیہ قسم کی معذرت میں مبتلا کئے رکھتا ہے - ہم آئے دن ایسے خوشحال دانشوروں سے ملتے ہیں جو نجی محفلوں میں جدیدیت کے رزمیہ گیت گاتے ہیں لیکن جونہی ان سے معمولی جرأت کا تقاضہ کیا جائے تو یہ حضرات معاشرے کی برداشت کے پیمانے دکھا کر احتیاط و عافیت کے اصول بیان کرنے لگتے ہیں - سچ یہ ہے کہ جدید انسانی حقوق ، اختلاف و اظہار کی آزادی اور تقلید کے بجائےتخلیقی افکار کی بات کرنے والے عناصر قربانیاں دینے کو تیار نہیں ۔
اس میں دو رائےنہیں کہ آج کی دنیا سائنس اور ایجاد کی دنیا ہے جہاں پرامن رستے سے ترقی اور ارتقا کی منزل تک جانے کے لئے مذہبی عقائد اور جذبات زیادہ کام نہیں دیتے - لیکن ہم ترقی اور ارتقا کے ان کافرانہ تصورات کو نہیں مانتے - اور یہ بھی تاریخی صداقت ہے کہ ترقی کے لئے پرامن رستہ واحد رستہ نہیں - گرچہ ساری دنیا میں (چین اور پڑوسی ملک بھارت سمیت ) قوموں نے اپنے سیاسی اور معاشی معاملات کو مذہبی عقائد سے الگ کیا ہے ، لیکن ہمارے لئے ان لوگوں کا رستہ اختیار کرنا ضروری نہیں…ان ملکوں میں سیاست و مملکت کو مذہب سے الگ کرنے کی تحریکیں چلی ہیں ، جبکہ ہم زندگی کے ہر شعبہ میں اسلام دیکھنا چا ہتے ہیں - بہت عرصہ پہلے مولانا محترم ابو الاعلیٰ مودودی نے اپنے رسالہ’’ارتداد کی سزا اسلامی قانون میں‘‘ کے اندر دین سے انحراف کرنے والوں کو خبردار کیا تھا کہ اگر تم میں دم ہے تو اپنے نظریات کے لئے موت قبول کرو ورنہ اسلام کی اطاعت کرو -تیسرا رستہ یہ ہے کہ ہمارے ملک سے نکل جاؤ - مسلم معاشروں پر اللہ کا خاص کرم ہے کہ ہمارے ہاں نہ تو انحراف کی کوئی تحریک موجود ہے نہ ہی ایسے لوگ جو جدیدیت یا انحراف کے لئے جان سے گزر جائیں - نہ ہی عوام و خواص کو ایسی کسی تبدیلی کی خواہش ہے - لہذا قومی تعلیم کو مدارس کے حوالے کرنے میں کوئی عوامی مزاحمت نہیں نہ ہی کوئی قباحت ۔
جناب بھٹو شہید نے بھارت مخالف جذبات کی طاقت سے جس اسلامی تشخص کی طرف قدم اٹھائے تھے ، اور جس کی طرف ہمارا سفرجنرل ضیاء الحق شہید نے مکمل کر دکھایا تھا ، وہ تشخص عوامی حمایت لینے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے - جب بھی ہمارے قومی تشخص کے خد وخال واضح کرنے کا سوال سامنے آتا ہے ، تو قوم کے خوشحال طبقے اور پیپلز پارٹی سمیت اکثر سیاسی جماعتیں اور ہماری عسکری قیادت سبھی ہمارے مدارس اور دینی طبقوں ہی طرف دیکھتے ہیں - لہذادانش مندی اس میں ہے کہ ڈھلوان سے لڑھکتی ہوئی بھاری بھرکم چٹان کو پکڑنے کی بجائے اس کے حجم اور اسکی رفتار سے کوئی کام لیا جائے ۔