• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گزشتہ چند سالوں میں اسلام دنیا میں تیزی سے پھیلنے والا مذہب بن چکا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق 1990ء سے 2000ء کے دوران ایک کروڑ 25 لاکھ سے زائد افراد اپنا مذہب ترک کرکے اسلام قبول کرچکے ہیں جبکہ 2001ء میں نائن الیون واقعہ کے بعد امریکہ سمیت دنیا بھر میں مسلمانوں کی تعداد دگنی ہوچکی ہے اور قرآن پاک دنیا میں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب بن چکی ہے۔ حال میں سعودی عرب میں متعین برطانوی سفیر سائمن کولینز کے قبول اسلام نے مغرب میں تہلکہ مچادیا ہے۔ عراق اور شام سمیت کئی اسلامی ممالک میں سفارتی خدمات انجام دینے والے سائمن کولینز وہ پہلے برطانوی سفارتکار ہیں جنہوں نے گزشتہ دنوں اسلام قبول کرکے اپنی شامی نژاد اہلیہ ہدیٰ مجارکیش کے ساتھ حج ادا کیا اور اس طرح وہ اسلام قبول کرنے والی مقبول شخصیت بن گئے۔ اِن سے قبل سابق برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیر کی سالی لورین بوتھ نے اسلام قبول کرکے عالمی میڈیا کی توجہ حاصل کی تھی۔
دنیا میں جن سربراہان مملکت نے اپنا مذہب ترک کرکے اسلام قبول کیا، اُن میں قازقستان کے صدر نور سلطان نذر بائیوف اور گبون کے صدر عمر بونگو شامل ہیں۔ نذر بائیوف سوویت دور میں لادین رہے تاہم اسلام قبول کرنے کے بعد وہ راسخ العقیدہ مسلمان ثابت ہوئے اور انہوں نے حج بھی ادا کیا۔ تقریباً 42 سال (1967ء سے 2009ء) تک گبون کے صدر رہنے والے البرٹ برنارڈ بونگو نے 1973ء میں دورہ لیبیا کے موقع پر اسلام قبول کرکے اپنا نام عمر رکھا، اُن کے اسلام قبول کرنے سے گبون میں مسلمانوں کی آبادی میں تیزی سے اضافہ ہوا۔ اسی طرح یوگینڈا کے سابق صدر عیدی امین نے کیتھولک عیسائیت ترک کرکے اسلام قبول کیا۔ اس کے علاوہ اسلام قبول کرنے والی دیگر عالمی شخصیات میں 3 بار عالمی ہیوی ویٹ باکسنگ چمپئن رہنے والے محمد علی کلے بھی شامل ہیں جنہوں نے 1964ء میں اسلام قبول کیا۔ اس سے قبل اُن کے بھائی روڈی کلے نے 1961ء میں اسلام قبول کیا تھا جو محمد علی کے اسلام قبول کرنے کا سبب بنے۔ حال ہی میں محمد علی کی وفات کے بعد اُن کی اسلامی طریقے سے تدفین کی گئی جس میں دنیا کے کئی سربراہان مملکت اور نامور شخصیات نے شرکت کی۔ محمد علی کے علاوہ عالمی ہیوی ویٹ باکسنگ چمپئن مائیک ٹائی سن (ملک عبدالعزیز) بھی دوران قید اسلام قبول کرچکے ہیں جنہوں نے بعد ازاں فریضہ حج بھی ادا کیا۔ اسی طرح اگر ماضی میں دیکھا جائے تو بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کی دوسری اہلیہ رتن بائی نے پارسی مذہب چھوڑ کر اسلام قبول کیا تھا جبکہ معروف پاکستانی شاعر فیض احمد فیض کی اہلیہ ایلس نے 1930ء کی دہائی میں فیض احمد فیض سے شادی کے بعد اسلام قبول کیا۔ عالمی شہرت یافتہ پاکستانی کرکٹر محمد یوسف (یوسف یوحنا) نے عیسائیت ترک کرکے اسلام قبول کیا۔ جمائما خان نے 1995ء میں پاکستان کے سابق ٹیسٹ کرکٹر عمران
خان سے شادی کے بعد اسلام قبول کیا۔ عالمی شہرت یافتہ برطانوی خاتون صحافی یوون ریڈلے نے افغانستان میں طالبان کی قید سے رہائی کے بعد 2003ء میں اسلام قبول کیا۔ بھارتی اداکارہ دیویا بھارتی (ثناء) نے معروف بھارتی پروڈیوسر ساجد ناڈیاڈ والا سے شادی کے بعد اسلام قبول کیا تاہم ہندو انتہا پسندوں کی دھمکیوں کے باعث انہوں نے 1993ء میں صرف 19 سال کی عمر میں خود کشی کرلی۔ مشہور بھارتی اداکارہ شرمیلا ٹیگور (عائشہ سلطانہ) نے سابق بھارتی کرکٹر نواب منصور علی خان سے شادی کے بعد اسلام قبول کیا۔ گلوکار کشور کمار نے 1960ء میں مدھوبالا سے شادی کے بعد اسلام قبول کرکے اپنا اسلامی نام عبدالکریم رکھا۔ آسکر ایوارڈ یافتہ بھارتی موسیقار اے آر رحمن (اللہ رکھا رحمن) نے ہندو مذہب ترک کرکے اسلام قبول کیا جنہیں ’’ٹائم میگزین‘‘ 2009ء میں دنیا کی 100 اثر و رسوخ رکھنے والی بااثر ترین شخصیات میں شامل کرچکا ہے۔ اس کے علاوہ سابق معروف امریکی باسکٹ بال کھلاڑی لیو الیسٹڈر( کریم عبدالجبار)، مشہور پاپ گلوکار مائیکل جیکسن کے بھائی جرمین جیکسن (محمد عبدالعزیز) اور بہن جینٹ جیکسن، معروف بھارتی اداکار اے ایس دلیپ کمار (یوسف خان)، اردن کی ملکہ نور بھی اسلام قبول کرنے والی دنیا کی معروف شخصیات میں شامل ہیں۔
برطانیہ اور فرانس میں گزشتہ دس سالوں کے دوران ایک لاکھ سے زائد افراد اپنا مذہب ترک کرکے اسلام قبول کرچکے ہیں۔ اسلام قبول کرنے والوں میں زیادہ تر لوگ نسلی امتیاز اور اخلاقی اقدار کے فقدان کی وجہ سے اسلام کی طرف راغب ہورہے ہیں۔ برطانیہ میں تقریباً 7.5 ملین، فرانس میں 5 ملین اور جرمنی میں 4 ملین سے زائد مسلمان مقیم ہیں۔ ان بڑے ممالک کے علاوہ اسپین، اٹلی، ڈنمارک، ناروے، ہالینڈ، یونان وغیرہ میں بھی مسلمانوں کی بڑی تعداد آباد ہے جن میں اکثریت پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش سے تعلق رکھتی ہے۔ اس کے علاوہ فرانس سے آزادی حاصل کرنے والے ممالک مراکش، الجیریا اور تیونس نژاد باشندوں کی بڑی تعداد فرانس میں مقیم ہے جن کی آبادی میں 6 فیصد شرح سے اضافہ ہورہا ہے، ان میں اکثریت 20 سے 25 سال کے نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ فرانس میں مسلمان آبادی کی تیز گروتھ کے پیش نظر ایک اندازے کے مطابق 2027ء تک فرانس کا ہر پانچواں شخص مسلمان ہوگا۔ اسی طرح برطانیہ میں گزشتہ 30 سالوں میں مسلمانوں کی آبادی میں 30 گنا اضافہ ہوا ہے جو بڑھ کر 25 لاکھ تک پہنچ چکی ہے اور اگر برطانیہ کی آبادی میں مسلمانوں کی تعداد میں اسی طرح اضافہ ہوتا رہا تو 2020ء تک اسلام برطانیہ کا دوسرا بڑا مذہب بن جائے گا جس کا واضح ثبوت پاکستانی نژاد مسلمان صادق خان کا لندن کا میئر منتخب ہونا ہے۔ یورپی یونین کے ملک بلجیم کی آبادی کا 25 فیصد مسلمانوں پر مشتمل ہے جبکہ جرمنی میں گزشتہ ایک سال میں 4 ہزار سے زائد افراد اسلام قبول کرچکے ہیں اور جرمن حکومت نے پہلی بار اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے کہ اگر مسلمانوں کی تعداد میں اسی رفتار سے اضافہ ہوتا رہا تو 2050ء تک جرمنی مسلم اکثریتی ملک بن جائے گا۔ان اعداد و شمار سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ یورپی یونین کے 27 ممبر ممالک کی اوسط شرح پیدائش صرف 1.38 فیصد ہے مگر مختلف ممالک سے یورپی ممالک میں رہائش اختیار کرنے والے مسلمانوں نے یورپ کی گرتی ہوئی شرح پیدائش کو سہارا دے رکھا ہے۔
برطانوی جریدے ’’اکنامسٹ‘‘ کی رپورٹ کے مطابق یورپی ممالک اور امریکہ میں اپنا مذہب ترک کرکے اسلام قبول کرنے والوں میں اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جو کئی سالوں سے مسلمانوں کے ساتھ رابطے میں ہیں اور ان کے اسلام کی طرف مائل ہونے کی بڑی وجہ مغربی معاشرے میں مسلسل پھیلتی ہوئی بے راہ روی اور فحاشی ہے جس سے وہ تنگ آچکے ہیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ یورپی ممالک میں اسلام قبول کرنے والی غیر مسلم خواتین کی اکثریت نے صرف اس لئے اسلام قبول کیا کہ وہ کسی مسلمان بالخصوص پاکستانی مسلمان سے شادی کرنا چاہتی تھیں۔ دنیا میں مختلف مذاہب کی آبادی کا جائزہ لینے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ دنیا کی 7 ارب 16 کروڑ سے زائد کی مجموعی آبادی تقریباً 31.4% (2 ارب 20 کروڑ) عیسائیوں اور 23.2% (ایک ارب 60 کروڑ) مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ پیو ریسرچ سینٹر کی رپورٹ کے مطابق 2050ء تک اسلام دنیا کا سب سے بڑا مذہب بن جائے گا اور مسلمانوں کی آبادی بڑھ کر 2 ارب 76 کروڑ تک جاپہنچے گی جس میں شمالی افریقن اسلامی ممالک کی آبادی کی شرح گروتھ سب سے زیادہ ہوگی۔ دنیا میں مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی آبادی کے پیش نظر یورپ اور امریکہ سمیت دیگر مغربی ممالک کو یہ خوف لاحق ہے کہ اگر اسلام کے سونامی کو روکا نہ گیا تو وہ ایک دن پورے مغرب کو اپنے ساتھ بہالے جائے گا، اس لئے یہ مغربی ممالک مسلمانوں کے خلاف ہر وہ اقدامات کررہے ہیں جو اسلام اور مسلمانوں کی پیشرفت روکنے میں مددگار و معاون ثابت ہوں۔ ان مغربی ممالک کی کوشش ہے کہ مسلمانوں کو تفرقے کی بنیاد پر باہمی طور پر لڑواکر کمزور کردیا جائے جس کی ایک کڑی شدت پسند تنظیم داعش ہے جو اپنے ہی مسلمان بھائیوں کے خون کے پیاسے بنے ہوئے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلم امہ دشمن طاقتوں کی آلہ کار بننے کے بجائے باہمی اختلافات بھول کر اتحاد و یکجہتی کا مظاہرہ کرے۔


.
تازہ ترین