آج کل پاکستان کی پوری ریاستی مشینری دہشت گردی پر قابو پانے کیلئے صلاح مشورے کر رہی ہے کیونکہ دہشت گردی کے ہاتھوں پاکستان کا کوئی ادارہ چاہے سرکاری ہو یا غیر سرکاری محفوظ نہیں رہا۔ اس میں شک نہیں کہ ماضی میں ہماری غلط اندرونی اور بیرونی پالیسیوں نے دہشت گردی کو فروغ دیا۔ لیکن اب ماضی میں دیکھنے کے بجائے مستقبل کی بہتر منصوبہ بندی کرنے کی ضرورت ہے۔کسی عقلمند کا قول ہے کہ ماضی کی تلخیوں کو بھلا دینے لیکن غلطیوں کو یاد رکھنے سے ہی مستقبل کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ اس کیلئے تمام متعلقہ حلقوں کو اپنے اپنے پیشرئوں کی غلطیوں کو کھلے دل سے تسلیم کرتے ہوئے آئندہ کی منصوبہ بندی کرنی چاہئے کیونکہ اگر اس موقع پر بھی ہم نے اپنی سمت درست نہ کی تو شائد پھر بہت دیر ہوجائے۔ بیرونی دشمن کے مقابلے میں اندرونی دشمنوں سے لڑنا زیادہ مشکل کام ہے ۔کیونکہ ایسے دشمنوں کی نشاندہی کرنا اور ان کے وار سے بچنا آسان نہیں ہوتا۔لیکن دنیا کی تاریخ میں بے شمار ممالک نے بہتر منصوبہ بندی کے ذریعے برسوں جاری رہنے والی خانہ جنگیوں اور دہشت گردی پر قابوپالیا اور اب وہ پُر امن اور مہذب ترقی یافتہ معاشرے بن چکے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ خلوصِ دل سے اس مسئلے کے ہر پہلو پر غورکیا جائے اورایک ایسا مضبوط لائحہ عمل ترتیب دیاجائے جو مسئلے کے تمام پہلوئوں کا احاطہ کرے۔گویا ایک حقیقی اور قابل عمل پیکج کی ضرورت ہے جو نہ صرف ہماری سابقہ غلطیوں کا ازالہ کر سکے بلکہ مستقبل میں ان واقعات کا اعادہ ہونے سے روک سکے۔ دہشت گردی کے خلاف اس پیکج میں مندرجہ ذیل نکات پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اّول۔ تمام قومی اداروں میں اتحاد و یک جہتی۔ہمارے مسائل کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارے سیکورٹی ، انتظامی اور سیاسی اداروں میںنظر یاتی اور عملی یکجہتی کا ہمیشہ سے فقدان رہا ہے۔ فوجی اور سیاسی اداروں کے ٹکرائو نے ہمیں ایک مضبوط قومی نقطہ نظر سے محروم رکھا ہے۔ دہشت گردی کی جنگ پوری قوم کی جنگ ہے لہٰذا جو بھی پالیسیاں بنائی جائیں ان میں تمام اداروں کی رائے اور عملی شمولیت کی یقینی بنایا جائے اور اس ضمن میں ذاتی، ادارہ جاتی یا سیاسی مفادات کے بجائے قومی مفاد کو پیش ِ نظر رکھّا جائے۔ دوم۔ اس امر کو یقینی بنایا جائے کہ اس جنگ میں فوجی کارروائیوں کیساتھ ساتھ اندرونِ ملک ایسی پالیسیاں بنائی جائیں جو مذہبی شدّت پسندی کو روکنے میںمعاون ثابت ہو سکیں۔ تمام دینی اور مذہبی سیاسی جماعتوں کیساتھ ملکر جہاد کی گمراہ کن تشریحات کو روکا جائے اور متعلقہ اداروں کے تعاون سے جہاد کی حقیقی تشریح کی جائے۔ نیز مسلح جہاد کے حوالے سے انفرادی مہم جوئی کو خلافِ قانون قرار دیکر اس کا اختیار ریاست کے اعلیٰ اداروںکو تفویض کیا جائے۔مذہبی قیادت کی مشاورت سے مدارس کیلئے یکساں اور متفقہ نصاب بنایا جائے جس میں دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ دنیاوی سائنسی تعلیم کو بھی لازمی قرار دیا جائے۔اور ان اداروں کے فارغ التحصیل طلباء کے لئے روزگار کے مواقع کو یقینی بنایا جائے۔ یہ کام صرف اسی صورت میں مثبت نتائج کا حامل ہوسکتا ہے جب حکومت خود مالی طور پر ان اداروں کی امداد کرے اورانہیں ’’ بیرونی فنڈنگ ‘‘ کے سہارے پر نہ چھوڑے۔ اور جو لوگ براہِ راست ان اداروں کی مالی امداد کرتے ہیں۔ انہیں یہ امداد حکومتی اداروں کے ذریعے دینے پر راغب کر ے لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ کرپشن سے پاک ایسا نظام وضع کیا جائے جس سے امداد کرنے والے ادارے اورافراد مطمئن ہو سکیں۔ سوئم ۔ جہاں اندرونِ ملک بیروزگاری ختم کرنے اور معاشی ترقی کے لئے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے وہاں ہمیں اپنی خارجہ پالیسی میں بھی بنیادی تبدیلیاں لانی ہوں گی۔ ماضی میں اسٹرٹیجک گہرائی کے نام پرہم اپنے ہمسایہ ممالک میں دخل اندازی کی جس نقصان دہ پالیسی پر عمل پیرا رہے ہیں اس پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ ہمیں اپنی تمام تر توجہ اپنے اندرونی حالات کو سدھارنے پر مرکوز کرنا پڑے گی اور اپنی سرزمین کو کسی بھی ملک کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دینی چاہئے کیونکہ وقت نے ہمیں یہ تلخ سبق سکھا دیا ہے کہ اپنے پچھواڑے میں کسی کیلئے ناگ پالنے کی صورت میں ہم خود کوبھی ڈسے جانے سے محفوظ نہیں رکھ سکتے۔جب تک ہماری سرحدوں پر امن نہیںہوگا اور ہمسائے ہمارے دوست نہیں ہوں گے ہم اپنے ملک کے اندر امن ، ترقی اور خوشحالی کا تصّور نہیں کرسکتے ۔ بھارت کے ساتھ تعلقات میں بہتری گو ایک انتہائی مشکل مرحلہ ہے لیکن عافیت اندیشی کا یہی تقاضا ہے کہ اس وقت جبکہ ہم اپنے اندرونی دشمن سے نبردآزما ہیں، ہم کسی بھی بیرونی دشمن کو اس صورتِحال سے فائدہ اٹھانے کا موقع نہ دیں۔ ہمیں امریکہ اور روس جیسے طاقتور ممالک کے ذریعے اپنی مشرقی سرحدوں کو پرامن بنانے کی پوری کوشش کرنی چاہئے۔ اور بھارت کے ساتھ اپنے اختلافات کو وقتی طور پر ایک طرف رکھ کر اپنی تمام تر توجہ دہشت گردوں کی سرکوبی پر مرکوز کرنی چاہئے اورانکی ان کوششوں کو بھی روکنا چاہئے جو بھارت میں کسی ممکنہ دہشت گردی کے ذریعے ہمارے لئے مسائل پیداکرسکتی ہیں۔ چہارم۔ شمالی وزیرستان میں بے گھر افراد کی صرف واپسی ہی اس علاقے میں دہشت گردی پر قابو پانے کا واحد حل نہیں بلکہ اس سے بہت زیادہ کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ اب ہمیں ان علاقوں کو علاقہ غیر سمجھنے کی بجائے ملک کے دوسرے علاقوں کی طرح اپنا علاقہ سمجھنا ہوگا ہمیں ان قبائلی علاقوں پر مشتمل نیا صوبہ بنانے یا انہیں با ضابطہ طور پرخیبر پختونخوا میں شامل کرنے کے بارے میں مقامی لیڈروں کے ساتھ سنجیدہ مذاکرات کرنا ہوں گے اوراس علاقے میں ذرائع آمدورفت کے ساتھ تعلیم اور روزگار کے انتظامات کا آغاز کرنا ہوگا۔ آخر یہ علاقے کب تک باقی دنیا سے کٹ کر اور دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہوں کے طور پر استعمال ہوتے رہیں گے۔ ان علاقوں میں بسنے والے بھی محّب ِ وطن پاکستانی ہیں اور جدید طرزِ زندگی کی سہولتیں ان کا بھی حق ہیں۔ جو انہیں مہّیا کرنا ہوںگی تاکہ وہ بھی قومی دھارے میں شامل ہو سکیںاور انہیں شرپسند عناصر اپنے مذموم مقاصد کیلئے استعمال نہ کر سکیں۔ اگر خلوصِ نیّت اور باہمی اتحاد کے ذریعے ہم دہشت گردی کے خلاف ایک جامع عملی پیکج بنانے اور اس پر عمل کرنے کے قابل ہو گئے تو یقیناہم اپنی آنے والی نسلوں کو ایک پر امن ، اعتدال پسند اور ترقی یافتہ پاکستان دینے میں کامیاب ہو جائیں گے۔