SMS: #NRC (space) message & send to 8001
کشمیر کا مسئلہ مغربی استعمار نے اپنے ظالمانہ فیصلوں اور مسلم دشمن پالیسیوں کی وجہ سے پیدا کیا تھا ۔ یہ مسئلہ ہنوز حل طلب ہے ۔ ہر سال پاکستان کے یوم آزادی (14 اگست) پر کشمیری پاکستان کا پرچم لہراتے ہیں ۔’’ کشمیر بنے گا پاکستان‘‘ کے نعرے لگاتے ہیں اور اس جرم کی پاداش میں بھارتی فوج کا ظلم سہتے ہیں۔ ہر سال بھارت کا یوم آزادی 15) اگست( کشمیری یوم سیاہ کے طور پر مناتے ہیں ۔ اسی طرح ہر سال 26 جنوری ،جو بھارت کا یوم جمہوریہ ہے اس کو بھی یوم احتجاج کے طور پر مناتے ہیں۔ پاکستان اخلاقی و سیاسی ہر لحاظ سے مظلوم کشمیریوں کی حمایت کا پابند ہے اور بھارت کے ساتھ اصل مسئلہ (کورایشو) کشمیر کا تنازعہ ہی ہے ۔ اس کے حل کا ایک ہی راستہ ہے اور وہ ہے آزادانہ و منصفانہ استصواب رائے ۔ اس حق کے دینے سے بھارت انکاری ہے اور پاکستان کے حکمران اپنے فرض کی ادائیگی سے دستبردار ہو کر امریکہ اور بھارت کی خوشنودی کے لیے نام نہاد اعتماد سازی کے نامعقول اور لایعنی جال میں پھنس چکے ہیں ۔
جس اصول سے بھی دیکھا جائے ، کشمیر بھارت سے وابستہ نہیں ہو سکتا ۔ 3 جون 1947 ء کے تقسیم ہند کے اصول کے مطابق مسلم اکثریتی علاقے پاکستان میں شامل ہوئے تھے لیکن 27 اکتوبر 1947 ء کو قیام پاکستان کے فوراً بعد ہی کشمیر کی واضح مسلم اکثریت کی ریاست میں بھارتی حکومت نے جارحانہ طور پر اپنی فوجیں اتار دیں اور ریاست کے حکمران ڈوگرہ مہاراجہ کوبھارت کے ساتھ الحاق کرنے پر مجبور کیا لیکن کشمیر کی مسلمان اکثریت نے اسے مسترد کر دیا اور دشمن ملک کو اپنے ملک سے نکالنے کے لیے جدوجہد شروع کر دی ۔ پھر بھارت 1948 ء میں خود کشمیر کے مسئلہ کو لے کر اقوام متحدہ میں پہنچا اور وہاں اس شرط پر کشمیر میں جنگ بندی منظور کر لی کہ کشمیریوں کو اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق آزادانہ رائے سے اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا حق دیا جائے گا ۔بھارت اور پاکستان دونوں نے اس قرار داد کو تسلیم کیا جس کے بعد ریاست میں جنگ بندی عمل میں آئی لیکن 1951 ء میں بھارتی وزیراعظم جواہر لعل نہرو نے مقبوضہ کشمیر میں نام نہاد قانون ساز اسمبلی قائم کر کے اپنا موقف تبدیل کر لیا ۔ 1955 ء میں اقوام متحدہ نے بھارت کے اس موقف کو ماننے سے انکار کر دیا اور انتخابات کو رائے شماری کا بدل تسلیم نہیں کیا ۔ اس کے بعد 1962 ء میں بھارت چین جنگ کے موقع پر بھارتی وزیراعظم نے امریکہ اور برطانیہ کے نمائندوں کے ذریعے پاکستان کے صدر جنرل محمد ایوب خان کو خط بھیجا جس میں انہوں نے صدر پاکستان سے درخواست کی کہ پاکستانی فوج اس موقع پر کوئی مداخلت نہ کرے ۔ جب چین کے ساتھ ہمار ا سرحدی تنازعہ حل ہو جائے گا تو میں ضمانت دیتاہوں کہ بھارت کشمیر کے اندر رائے شماری کرا دے گا لیکن وقت آنے پر بھارت اس وعدے سے پھر منحرف ہو گیا ۔ 1972 ء کے شملہ معاہدے کے تحت بھارت کشمیر کے مسئلے کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے کا پابند تھا لیکن سابق وزیراعظم راجیو گاندھی نے 1989 ء میں پاکستان کی سرزمین پر یہ کہہ کر شملہ معاہدہ کی دھجیاں اڑا دیں کہ’’ مقبوضہ کشمیر میں چار انتخابات ہو چکے ہیں اور کشمیریوں نے اپنا حق رائے دہی استعمال کرلیاہے اس لیے اب وہاں رائے شماری کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔‘‘ اس کا جواب پاکستان کی وزیراعظم تو نہ دے سکیں لیکن کشمیری عوام نے نومبر 1989 ء کے انتخابات کا مکمل بائیکاٹ کر کے بھارت پر واضح کر دیا کہ کشمیری عوام اپنے آپ کو بھارت کے ساتھ وابستہ نہیں کر سکتے اور نہ ہی وہ بھارت کی بالادستی کو تسلیم کرنے پر کسی صورت میں تیار ہوں گے ۔ اس کے ساتھ ہی اہل کشمیر نے اپنی آزادی کی تحریک کا باقاعدہ آغاز کر کے یہ واضح کر دیا کہ اگر کمزور مظلوم و محکوم اقوام اپنی آزادی و خود مختاری کے حصول کا عزم کر لیں تو انہیں بڑی سے بڑی مادی طاقت بھی غلام نہیں رکھ سکتی ۔ پاکستان کی سابقہ حکومتوں نے کشمیر کی اس جدوجہد آزادی کی بھر پور حمایت کی اور سیاسی ، اخلاقی اور سفارتی سطح پر ان کی بھر پور مدد کی ۔ پاکستانی عوام نے 5 فروری 1990 ء کو ملک گیر پہیہ جام ہڑتال کر کے کشمیری عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا اور آج تک یہ دن ہر سال شان و شوکت کے ساتھ منایا جاتاہے ۔ 9 ستمبر 2001 ء میں حالات نے یکدم پلٹا کھایا ۔ امریکہ میں ٹوئن ٹاورز سے جہاز ٹکرا کر انہیں ملیا میٹ کر دیا گیا ۔ یہ ایک یہودی سازش تھی جس کا رخ اسامہ بن لادن اور اس کی تنظیم ’’القاعدہ ‘‘کی طرف موڑ دیا گیا ۔ امریکہ اسامہ کے ساتھ طالبان کو بھی دہشت گرد قرار دے کر افغانستان پر حملہ آور ہو گیا ۔ پرویز مشرف نے امریکہ کا ساتھ دیا اور اسے لاجسٹک سہولیات کے ساتھ پاکستانی سرزمین اور فضا بھی پیش کر دی ۔ امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے حملہ کر کے افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی ۔ پرویز مشرف نے افغانستان پر حملے کے وقت امریکہ کا ساتھ دیتے ہوئے اعلان کیا تھاکہ ’’ کشمیر کی جنگ آزادی جہاد ہے اور جہاد اور دہشت گردی میں فرق ہے ۔ وہ اس پر اپنا موقف نہیں بدلیں گے ۔‘‘ الکفر ملت واحدہ کے مطابق بھارت نے امریکہ کو اس بات پر قائل کر لیا کہ کشمیر میں دہشت گردی ہو رہی ہے اور پاکستان اس کے ملک میں در اندازی کر رہاہے ۔ صدر بش نے پرویز مشرف پر دبائو ڈالنا شروع کر دیا کہ وہ در اندازی بند کرے ۔ پرویز مشرف امریکی صدر کا دبائو برداشت نہ کر سکے اور یکے بعد دیگر ے ایسے اقدامات کرتے چلے گئے جس سے نہ صرف تحریک آزادی کشمیر کو سخت نقصان پہنچا بلکہ کشمیری یکہ و تنہا کردیئے گئے ۔ جنرل مشرف نے جب سے اقوام متحدہ کی قرار دادوں پر مشتمل موقف کو ترک کر کے کشمیر پر تواتر سے لچک دار بیانات دیئے ، مسلسل پسپائی اختیار کی اور کئی آپشنز پیش کیے ہیں ان سے بھارتی قیادت کے دل جیتنے میں ذرا بھی کامیابی حاصل نہیں ہوئی کہ وہ’’ اٹوٹ انگ ‘‘کی رٹ چھوڑ کر کشمیر کو’’ متنازعہ‘‘ ماننے پر ہی تیار ہو گیاہو ۔کشمیری مجاہدین کے ہاتھ پائوں باندھنے کے بعد بھارتی فوج کشمیرسے اپنی تعداد کم کرنے کے بجائے مقبوضہ کشمیر میں فوجی کاروائیوں میں اضافہ کر چکی ہے بلکہ اس کے ساتھ کابل اور قندھار کے راستے پاکستان کے خلاف سازشیں کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔
حال ہی میں پیش کئے گئے ’’ سیلف گورنس ‘‘اور ’’ ریاست ہائے متحدہ کشمیر ‘‘ کے فارمولوں ’’ کنٹرول لائن ‘‘ کو مستقل سرحد بنانے اور دونوں حصوں میں ’’ اندرونی خود مختاری ‘‘ پر اکتفاکرلینے کی سازش اور ’’Selfdetermination‘‘کا مطالبہ ترک کرکے ’’Self Rule‘‘کی بات کرنا حکمرانوں کی شکست خوردہ ذہنیت کا ثبوت فراہم کرتی ہے ۔
’’سیلف گورنس ‘‘ جیسے فارمولے پر خفیہ بات چیت اور ’’پیش رفت‘‘ پارلیمنٹ اور عوام کو نظر انداز کرکے کی گئی ہے۔اس کی حیثیت فرد واحد کے فیصلوں اور پالیسیوں کی ہے انہیں پاکستانی عوام کی تائید حاصل نہیں ہے نہ کشمیری عوام انہیں تسلیم کریں گے ۔ ’’فوجوں کے انخلاء‘‘کی تجویز بھی اسی صورت میں قابل قبول ہو سکتی ہے جب یہ اقوام متحدہ کی قرار دادوں کی روح کے مطابق اور ان پر عمل درآمد کے حوالے سے ہو اور پوری ریاست سے فوجوں کے انخلاء کے بعد کشمیری عوام کو اقوام متحدہ کی قرا ر دادوں کے مطابق اور نگرانی میں اپنے مستقبل کے تعین لئے آزادانہ رائے دہی کا حق استعمال کرنے کا موقع دیا جائے اور وہ اپنی آزاد مرضی سے یہ طے کریں کہ بھارت کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں یا پاکستان کے ساتھ شامل ہونا چاہتے ہیں۔