پاکستان کی خارجہ پالیسی میں عالمی طاقتیں امریکہ، چین، روس، برطانیہ اہم کردار کرتی ہیں، اس کے بعد انڈیا، افغانستان، ایران، سعودی عرب، ترکی پڑوسی ممالک ہونے کی وجہ سے اس پر اثر انداز ہوتے ہیں، تقسیم ہند کے بعد سےے انڈیا پاکستان کے تعلقات کشیدہ چلے آرہے ہیں جس کے نتیجے میں دونوں ممالک کے درمیان چار جنگیں ہوئیں۔ 1948ء کی جنگ میں پاکستان نے آدھا کشمیر حاصل کیا، 1965ء اور کارگل کی جنگیں نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوئیں۔ 1971ء کی جنگ میں مشرقی پاکستان علیحدہ ہوگیا، اس کے علاوہ چھوٹی چھوٹی جھڑپیں، سیاچین گلیشیئر، کھوکھراپار لاحاصل رہیں، پاکستان کی 20کروڑ کی آبادی، ہندوستان کی ایک ارب 20کروڑ، بنگلہ دیش کی 18کروڑ آبادی کی کثیر تعداد خط افلاس کے نیچے زندگی بسر کررہی ہے، اگر یہ ملک یورپی یونین کے انداز میں صلح صفائی سے ترقی کی راہیں تلاش کریں تو آئندہ چند سالوں میں چین سے بڑی معاشی طاقت بن سکتے ہیں، ایک بات اظہر من الشمس ہے کہ مسئلہ کشمیر اور دہشت گردی انڈیا اور پاکستان کے بڑے مسئلے ہیں، پاکستان میں ہزاروں دینی مدارس کے لاکھوں طلباء جدید سائنسی علوم اور اکیسویں صدی کے تقاضوں کے ہم آہنگ نظر نہیں آتے، اسامہ بن لادن ایبٹ آباد میں رہتے رہے، ملا عمر کوئٹہ کے اسپتال میں زیر علاج رہے، ملا منصور اختر پاکستان کی سرحدوں کے اندر مصروف عمل رہے، اسی طرح تیس لاکھ افغان پناہ گزینوں کی آڑ میں تخریب کاروں کو چھپنے اور کارروائیاں کرنے میں سہولت میسر ہوتی ہے، تخریب کاری کا یہ عمل تقریباً چالیس سال سے جاری و ساری ہے، ضرب عضب اور بڑے پیمانے پر پاکستان کی فوج کی کاوش سے تخریب کاری کا یہ نیٹ ورک کنٹرول میں تو ہے لیکن ختم نہیں ہوسکا، داعش، طالبان، القاعدہ کے حملوں میں کمی کے آثار نظر نہیں آتے ظاہر ہوتا ہے کہ بقول امریکی صدر اوباما کے پاکستان، افغانستان، عراق، شام، لیبیا اور مصر کافی عرصے تک تخریب کاری سے نجات حاصل نہیں کرپائیں گے۔
ایک جانب پاکستان، افغانستان کے مسئلے میں پھنس کر ان تمام مصیبتوں کا شکار ہوگیا ہے، دوسری طرف ملکی بدامنی اور مخدوش حالات کے باعث ہندوستان اپنی معاشی، اقتصادی اور خارجہ پالیسی کو وسعت دینے میں مصروف ہے، حال ہی میں پاک، چین اقتصادی راہداری منصوبے کے تحت پاکستان کی اقتصادی ترقی کی راہیں ہموار ہوتی نظر آرہی ہیں اور چین کے 46؍ارب ڈالر کی سرمایہ کاری ایک روشن مستقبل کا عندیہ دے رہی ہے، اس کو مکمل ہونے کیلئے 2030ء تک کا عرصہ درکار ہے، گوادر پورٹ کے مقابلے میں بھارت نے ایران کے ساحل پر چاہ بہار بندرگاہ پر 500ارب ڈالر خرچ کرنے کا منصوبہ بنایا ہے، چاہ بہار کی بندرگاہ کے منصوبے کو انڈیا، ایران اور افغانستان کی سرپرستی حاصل ہے، یہاں سے افغانستان اور وسطی ایشیاء کی ریاستوں سے زمینی راستے ریلوے، سڑکیں اور ذرائع نقل وحمل کے منصوبے شامل ہیں، چاہ بہار کے بعد افغانستان کے صوبے ہرات میں 300ملین ڈالر کا فرینڈ شپ ڈیم انڈیا کی مدد سے زیر تکمیل ہے، اس کے علاوہ بھی بیس تیس مقامات پر انڈیا، افغانستان میں مختلف منصوبوں پر کام کر رہا ہے، انڈیا کے وزیراعظم نے کچھ مہینے قبل خلیج اور سعودی عرب کا دورہ کیا اور انہیں یہ باور کرایا کہ انڈیا ایک کثیر مسلمان آبادی کا ملک ہے اور سیکولر ملک ہونے کی حیثیت سے مسلمانوں کی مکمل مذہبی اور اقتصادی آزادی پر عمل درآمد کرتا ہے، اس سے چند سال قبل انڈیا نے امریکہ کے ساتھ نیوکلیئر معاہدہ کیا تھا جس کے تحت انڈیا کے نیوکلیئر پروگرام میں امریکی امداد شامل کی گئی، ایک سال قبل انڈیا نے امریکہ کے ساتھ دفاعی معاہدہ کیا جس کے تحت امریکہ اور دیگر مغربی طاقتیں چین کی بڑھتی ہوئی معاشی یلغار کو روکنے میں کوشاں نظر آتی ہیں۔
ہندوستان کی آبادی میں آئندہ چند سالوں میں اضافہ ہونے کے بعد وہ چین کا ہم پلہ ہوجائے گا کیوں کہ چین میں ایک یادو بچوں سے زیادہ کی پابندی ہے اور ہندوستان و پاکستان میں خاندانی منصوبہ بندی پر عمل نہیں ہوتا، دوسری طرف پاکستان میں ایک تو کوئی وزیر خارجہ نہیں ہے، ہمارے یہاں ایڈوائزرز عمر رسیدہ اور ریٹائرڈ لوگ ہیں جو ورلڈ لیڈرز کے مقابلے میں کوئی نمایاں اہمیت نہیں رکھتے، ہر فورم پر ایک لکھی ہوئی تقریر کے چند اوراق اس طرح سے پڑھتے ہیں جیسے ایک اسکول کا طالب علم پڑھ رہا ہو۔ وزیر اعظم بھی روانی سے چند جملے نہیں بول سکتے اور جیبوں میں پرچیاں تلاش کرنے لگتے ہیں۔ جب کہ وہ خرابی صحت کی وجہ سے تسلسل کے ساتھ بات نہیں کرسکتے۔ پاکستان میں قابل افراد کی کمی نہیں مگر حکومت کسی قابل وزیر خارجہ کی ضرورت محسوس نہیں کرتی۔ اب رہ گیا مسئلہ کشمیر تو ایک بات زمینی حقائق پر مبنی ہے کہ انڈیا کا کوئی لیڈر یا سیاسی جماعت کشمیر کی سرزمین سے ایک انچ بھی پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔ اسی طرح پاکستان کا کوئی بھی لیڈر یا سیاسی جماعت، کشمیر پر اپنے دعوے سے دست بردار ہونے کو تیار نہیں ہے۔ کشمیر کا مسئلہ برطانیہ کے آئرلینڈ اور اسکاٹ لینڈ کی طرح ایک طویل عرصہ لے سکتا ہے مگر برطانیہ کی مثال دیتے ہوئے ہندوستان پاکستان کو یہ سوچنا چاہئے کہ اپنے اندرونی اختلافات کے باوجود برطانیہ دنیا کی نمبرون عالمی طاقت بن گیا تھا۔ انڈیا پاکستان کے مابین غربت ،جہالت، پسماندگی، پانی، دہشت گردی، سرحدی تنازع، کشمیر کا مسئلہ، فوجی طاقت بڑھانے کی دوڑ صدیوں کی باہمی منافرت ، مذہبی اختلافات بڑے مسائل ہیں جنہیں افہام وتفہیم کے ذریعے حل کئے بغیر دونوں ممالک انتشار، بدامنی اور زوال کا شکار رہیں گے۔ انڈیا پاکستان کے مابین ایک اور سب سے بڑا مسئلہ پانی اور دوسرا باہمی تجارت کا ہے۔ اس کو فروغ دینے میں دونوں ممالک کا فائدہ ہے۔قومیتوں کے میل جول سے لوگوں میں ہم آہنگی، اتفاق اور بھائی چارے کوفروغ ملے گا۔ جیسے پنجابی اور اردو بولنے والے دونوں ممالک میں کثیر تعداد میں آباد ہیں، اسی طرح دیگر زبانیں بولنے والے باہمی اتفاق سے ملکی کی ترقی میں مددگار ثابت ہوسکتے ہیں۔ ہمارے ملک کے جفاکش مزدور اور کسان پاکستان اور ہندوستان میں زرعی اور صنعتی انقلاب لاسکتے ہیں۔ صلح صفائی ہونے سے دفاعی بجٹ کم کرکے صحت ، سماجی بہبود، تعلیم اور ترقیاتی بجٹ میں اضافہ کیا جاسکتا ہے۔ باہمی لڑائی سے متعلق سوچنا ہی نہیں چاہئے۔ اس لئے کہ لڑائی میں جیتنے یا ہارنے والے دونوں تباہی سے دوچار ہوتے ہیں۔152 سلامی ممالک اتحاد اور یگانگت کی پالیسی مرتب نہیں کرسکتے۔
یورپی ممالک جن میں برطانیہ ،فرانس، اسپین، آسٹریا، اٹلی، ترکی اور دیگر یورپی ممالک سینکڑوں سال تک جنگ و جدل اور تباہی وبربادی کا شکار رہے۔ اب 26ملکوں نے یورپی یونین بنا کر امن و آشتی، صنعت وتجارتی اور ترقی کے راستے پر گامزن ہیں۔ یورپی ممالک کی سرحدیں کھلی ہوئی ہیں۔ ایک کرنسی یورو ہے، مشترکہ دفاعی معاہدہ نیٹو NATO یورپ کی سلامتی کا ضامن ہے۔ کیا پاکستان اور انڈیا میں محب وطن افراد جن میں سیاستدان، بزنس مین، صحافی، محنت کش اور تعلیم یافتہ افراد عوام میں امن وآشتی کے جذبات پیدا کریں اور عوام کو انتہا پسندانہ اور جنگ پسند عناصر کی حوصلہ شکنی اور بیخ کنی پر مائل کریں تاکہ برصغیر کے غریب عوام ترقی اور خوش حالی کے راستے پر گامزن ہوسکیں۔
.