آج جو پاکستان کی غیر مستحکم صورتحال ہے، اس کی ذمہ دار ریاستی اداروں کی نااہلی اور حکومت میں وزیراعظم صاحب کے رفقاء کار کا ریاست کو چلانے کے آرٹ سے ناواقف ہونا ہے، ان میں اکثریت ان لوگوں کی ہے جو ماضی میں ان کی حکومتوں کو گرانے کا سبب بنے تھے، ریاست چلانے کے حوالے سے ان کی سوچ نہیں بدلی۔ ان کے عمل اور سوچ میں زمینی حقائق کو دیکھتے ہوئے کوئی نیا پن، کوئی تبدیلی نظر نہیں آرہی۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ حکومت کو چلانے والی بیورو کریسی میں بڑی تبدیلی لانے کی ضرورت تھی، ایسا نہیں ہوا۔ انہیں اپنی کچن کیبنٹ میں بڑی تبدیلی لانے کی ضرورت تھی لیکن جس طرح وہ اپنے گزشتہ ادوار میں حکومت چلا رہے تھے، آج بھی وہی آثار و شواہد ہیں اور وہی لوگ آج بھی حکومت کے اندر بیٹھ کر میاں صاحب کے لئے مشکلات پیدا کر رہے ہیں۔ آئے دن ایسی خبریں آتی رہتی ہیں کہ (ن) لیگ میں اختلاف موجود ہے۔ اس سے آئندہ دنوں میں میاں صاحب! آپ کی حکومت کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔عوام کے لئے مشکلات پیدا نہ کریں، ان کے لئے آسانیاں پیدا کریں۔ یہ میں نہیں کہہ رہا ، یہ حکمرانوں کیلئے میرے آقا رسول عربی ﷺ کی ہدایت ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے جب حضرت معاذ بن جبلؓ کو یمن کا حاکم بنا کر بھیجا تو انہیں ہدایت کی ’’لوگوں کے لئے آسانیاں پیدا کرنا، مشکلات پیدا نہ کرنا، خوش رکھنے والی باتیں کرنا، نفرت پیدا کرنے والی باتیں نہ کرنا۔‘‘ اگر ہمارے حکمراں اسوۂ رسول ﷺ کو اپنا لیں، ان کی ہدایات پر عمل پیرا ہو جائیں تو سارے مسائل حل ہو جائیں، عدل قائم ہو جائے۔ یہ یاد رکھیں کہ نظام بدلے یا نہ بدلے لیکن حکمرانوں کو طرز حکمرانی بدلنا ہو گا، اس کے بغیر ملک کا عدم استحکام ختم نہیں ہو سکتا۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو بحران میں اضافہ ہو گا۔ بہت چھوٹی سی بات ہے کہ حکومت نے پیٹرول کی قیمتیں کم کر دی ہیں لیکن اس کے پیچھے چالاکی یہ کی ہے کہ سیلز ٹیکس اور دوسرے چارجز بڑھا دیئے ہیں۔ ایک طرف یہ کیا ہے اور دوسری طرف عوام کو اس صورت سے کوئی فائدہ نہیں پہنچا ہے۔ اب حکومت کو تنقید کا سامنا ہے۔ عمران خان پریشر بڑھا رہے ہیں، الیکشن میں دھاندلی کے حوالے سے بھی اور حکومت کی پیٹرولیم پالیسی پر بھی…حکومت ایک ہاتھ سے دیتی ہے تو دوسرے ہاتھ سے واپس لے لیتی ہے۔حکومت کو اپنے ان رفقاء کو فوری طور پر تبدیل کرنے کی ضرورت ہے، جنہوں نے طرز حکمرانی کو ’اسٹیٹس کو‘ کی تصویر بنا رکھا ہے۔ دھمکیوں اور تقاریر سے بجائے فائدے کے نقصان ہو رہا ہے، بعض وزراء کا یہی کام رہ گیا ہے کہ الزام تراشی کرتے رہیں، اس سے نفرت پھیل رہی ہے، سیاست میں منفی رجحانات بڑھ رہے ہیں، بری گورننس اور کرپشن حکومت کو غلط راستے پر لے جا رہی ہے، عوام کو خوش خبری دینے والا کوئی نہیں۔
میرا گزشتہ دنوں ایک شناختی کارڈ کے مرکز کی طرف جانا ہوا، وہاں بوڑھے بوڑھے لوگ یعنی سینئر سٹیزن شناختی کارڈ کی معیاد بڑھوانے کے لئے پریشان کھڑے تھے۔ میں میاں صاحب سے سوال کرتا ہوں کہ خدا کے لئے کم از کم سینئر سٹیزنز کو تو استثنٰی دلا دیجئے کہ جن کی عمر 70؍سال یا اس سے تھوڑی اور کم ہیں، ان کے پرانے شناختی کارڈ ہی کارآمد رہیں اور وہ بڑھاپے میں دھکے کھانے سے بچ جائیں۔ لوگ کس طرح سوچ رہے ہیں کہ حکومت عوام کی جیبوں سے پیسے نکلوانے کے لئے یہ سب کچھ کر رہی ہے، یہ میں نے ایک معمولی سی مثال دی ہے۔ اس کے لئے ایک حکم کی ضرورت ہے کہ سینئر سٹیزنز کو نئے شناختی کارڈ بنوانے کی ضرورت نہیں ہے، ان کے پرانے کارڈ ہی کارآمد رہیں گے۔ ایک ستّر، بہتّر سال کا آدمی اور کتنے دن زندہ رہے گا جو اس کی عمر بڑھوانے کے لئے اسے جان جوکھم میں ڈالا جائے۔آپ پاکستان سے باہر نکلیں تو آپ کو پتہ چلے گا کہ سینئر سٹیزنز کو وہاں کی حکومتوں نے کتنی مراعات دے رکھی ہیں۔ ہمارے نبی ﷺ ہدایت دے رہے ہیں کہ عوام کے لئے آسانیاں پیدا کرو، ان کے لئے دشواریاں پیدا نہ کرو، انہیں خوش حالی دو، انہیں خوش رکھو اور نفرت پھیلانے والی باتیں نہ کرو، ہم اس کا بالکل الٹ کر رہے ہیں۔ تو ہم جو بوئیں گے وہی کاٹیں گے اور ہم نے جو نفرتوں کی فصل بوئی ہے، وہ ہم کاٹ رہے ہیں۔
مجھے یاد ہے جب بھارت اور پاکستان کو انگریزوں نے آزاد کرنے کا فیصلہ کیا تھا تو وزیراعظم لارڈ اٹیلی تھے۔ میرے والد حضرت شاہ محمد اسمٰعیل میاں فریدی ڈسٹرکٹ مسلم لیگ بدایوں کے سرگرم کارکن اور قائداعظمؒ کے بڑے حامی تھے۔ ہمارا گھر سیاست کا گڑھ بنا رہتا تھا۔ وہاں ایک دن اس موضوع پر گفتگو ہوئی کہ وزیراعظم برطانیہ نے کہا ہے کہ بھارت اور پاکستان کو آزادی دے دیں گے اس لئے کہ حکومت برطانیہ پست حوصلہ آرمی اور نااہل بیوروکریسی کے ہوتے ہوئے تاج برطانیہ کا برصغیر پر قبضہ قائم نہیں رکھا جا سکتا۔ اتنا بڑا سچ اس وقت کا برطانیہ کا وزیراعظم ہی بول سکتا تھا۔پاکستان میں بیوروکریسی کرپٹ بھی ہے، نااہل بھی، سیاستدانوں میں سچ بولنے کی ہمت نہیں ہے۔ پنجاب کے مستعفی ہونے والے گورنر چوہدری محمد سرور نے سچ کہا ہے کہ پاکستان میں سچ کا قحط ہے اور پنجاب میں مافیا حکومت سے زیادہ طاقتور ہے۔ یہ معاملہ صرف پنجاب کا نہیں ہے، یہ مافیا پورے پاکستان میں سرگرم ہے، کہیں کم کہیں زیادہ۔
آج یہ حال ہے کہ عدلیہ کو بھی نشانہ بنایا جارہا ہے۔ عمران خان کے الزامات نے سابق ججوں کو متنازعہ بنا دیا ہے۔سول و منتخب حکومت اپنے رویّوں کی وجہ سے عوام کا اعتماد کھو رہی ہے۔ اب تو لوگ یہ کہتے ہیں، حکومت کہیں نہیں ہے۔ پشاور میں بچّوں کے قتل عام نے ملک کی بنیادیں ہلا دیں، خیرپور میں بڑے پیمانے پر نمازیوں کا قتل عام ہوا، بلوچستان میں روز گیس کی پائپ لائن اڑائی جاتی ہے، فرنٹیئر کور کے نوجوانوں کو ہلاک کیا جاتا ہے، کراچی میں ٹارگٹ کلنگ تواتر سے جاری ہے، حکومت کو کب ہوش آئے گا؟