اسلام آباد:…جب جنرل (ر) پرویز مشرف نظام میں چیک اینڈ بیلنس کی بات کرتے ہیں تو یہ لطیفہ معلوم ہوتا ہے۔ دیکھیں بات کون کر رہا ہے۔ ایک ایسا شخص، جس نے اپنے دورِ حکومت میں ہر ایک ادارے کو تباہ کر کے رکھ دیا، قانون، آئین اور قواعد و ضوابط کی دھجیاں اڑا دیں، آئین کو دو مرتبہ معطل کیا اور پاک فوج کی مقبولیت میں کمی کی واحد وجہ بننے والا شخص آج نظام کی باتیں کررہا ہے۔ 9/11 کے بعد، پرویز مشرف نے پاکستان کی سالمیت کو داؤ پر لگا دیا اور کسی سے مشورہ تک نہیں کیا، امریکا کو ملک کے فوجی اڈے دے دیئے، حتیٰ پاکستان میں ڈرون حملوں کی اجازت دیدی، سی آئی اور ایف بی آئی کو پاکستان میں انٹیلی جنس نیٹ ورک لگانے کی اجازت دی، ڈالروں کے عوض ڈاکٹر عافیہ سمیت کئی پاکستانیوں کو امریکا کے حوالے کیا، افغانستان پر امریکی حملوں کی مکمل حمایت کی، اور وہ شخص آج کہتا ہے کہ امریکا نے پاکستان کو اپنی سہولت کیلئے استعمال کرکے چھوڑ دیا۔ پرویز مشرف کے دور کے کچھ ریٹائرڈ جرنیلوں نے ریکارڈ پر یہ کہنا شروع کر دیا ہے کہ فوجی حکمران نے فوج کے سینئر کمانڈرز سے مشورہ کرنے کی زحمت نہ کی حتیٰ کہ ملکی سلامتی کیلئے اہم سمجھے جانے والے فیصلوں کے معاملے میں بھی جی ایچ کیو کو بھی نظر انداز کر دیا۔ مشرف دور کے چیف آف جنرل اسٹاف نے ایک مرتبہ میڈیا کو بتایا تھا کہ انہیں مشرف نے واشنگٹن سے وعدہ کرنے کے بعد بتایا کہ کچھ پاکستانی فضائی اڈے امریکی فورسز کو دے دیئے ہیں۔ ایک آمر کی حیثیت سے، انہوں نے آئین سے کھلواڑ کیا، قانون و قواعد توڑے اور وہ کسی کے آگے خود کو جوابدہ نہیں سمجھتے تھے۔ سویلین یا ملٹری میں جو بھی ان سے عدم اتفاق کرتا تھا اسے فارغ کر دیا جاتا۔ انہوں نے دو مرتبہ آئین کو معطل کیا، غیر قانونی طور پر چیف جسٹس پاکستان کو ہٹایا، اعلیٰ عدلیہ کے کئی ججوں کو گرفتار کرایا اور انہیں اپنے دفاتر جانے سے روک دیا اور اس کے بعد بھی ان میں اتنی جرأت ہے کہ وہ چیک اینڈ بیلنس کے اس آئینی نظام پر بات کرتے ہیں جس کی انہوں نے خود کبھی پروا نہیں کی۔ پرویز مشرف نے قومی احتساب بیورو قائم کیا تاکہ کرپشن کو روکا جا سکے لیکن اس ادارے کو مخالفین کی آواز دبانے اور انہیں ہراساں کرنے اور سیاست دانوں کو ڈرا دھمکا کر اپنی بنائی ہوئی سیاسی جماعت میں شمولیت پر مجبور کرنے کیلئے استعمال کیا۔ انہوں نے بیوروکریسی کو آزادانہ انداز سے کام کرنے کی اجازت نہ دی، پولیس اور ایف آئی اے سیاست زدہ رہے، انہوں نے سول سروسز میں اصلاحات کیلئے سفارشات پر غور کرنے کی زحمت تک نہ کی اور آج وہ خراب طرز حکمرانی کا ذمہ دار جمہوری حکومتوں کو قرار دے رہے ہیں۔ خالصتاً اپنے سیاسی فوائد کیلئے مشرف نے این آر او جاری کیا، کرپشن اور سنگین جرائم میں ملوث سیکڑوں افراد کو معافی دی اور اب وہ پاکستان کی جمہوریت کی کمزوریوں کی باتیں کرتے ہیں۔ اسی آمر نے الطاف حسین اور اس کی ایم کیوا یم کو سوچ سے زیادہ طاقتور بنایا اور کراچی میں متحدہ کی جانب سے قتل، اغوا اور بھتہ وصولی کے واقعات کو صرف اپنی سیاست کی وجہ سے نظر انداز کیا۔ 12؍ مئی 2007ء کو کراچی کی گلیوں میں 50؍ معصوم افراد کی ہلاکت کے موقع پر انہوں نے بے شرمی کے ساتھ مکے لہرائے۔ جس شخص نے پاک فوج کے تاثر کو زبردست نقصان پہنچایا وہ اب ایک مرتبہ فوج کو سویلین معاملات میں ملوث کرنا چاہتا ہے۔ فوج کی یہ ساکھ جنرل اشفاق پرویز کیانی اور جنرل راحیل شریف کی وجہ سے بحال ہوئی ہے۔ افسوس کہ مشرف نے ان سب باتوں کیلئے ایسے وقت کا انتخاب کیا ہے جب پاک فوج بھارت سے درپیش سنگین چیلنجز سے نمٹنے میں مصروف ہے۔ جس وقت صورتحال اس بات کی متقاضی ہے کہ فوج تمام تر توجہ پاکستان کے اندر موجود پراکسی اور سرحد پر موجود دشمن پر مرکوز رکھے اس وقت پرویز مشرف کہتے ہیں کہ پاکستان میں جمہوریت حالات کے مطابق نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں ہیں کہ فوج سیاسی میدان میں داخل ہوجاتی ہے وہ بھی اس وقت جب خراب طرز حکمرانی کا سلسلہ جاری ہو اور پاکستان سماجی و اقتصادی شعبے میں زوال پذیر ہو۔ ملک میں فوجی تختہ پلٹ کا جواز پیش کرتے ہوئے مشرف کہتے ہیں کہ اسی لیے عام فوج اور آرمی چیف کی طرف دیکھتے ہیں اور اسی طرح فوج ملوث ہوجاتی ہے۔
.