اسلام آباد (اے پی پی، جنگ نیوز)قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید احمد شاہ نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ کشمیرکے معاملے پر ہم سب حکومت کے ساتھ کھڑے ہیں،اقوام متحدہ اگر مشرقی تیمور کا مسئلہ حل کرا سکتی ہے تو اپنی قراردادوں کی عزت و توقیر کی خاطر مسئلہ کشمیر حل کیوں نہیں کرا سکتی، بھارتی وزیر خارجہ کی جانب سے اقوام متحدہ کی قراردادوں کی خلاف ورزی پر پاکستان کو فائدہ اٹھانا چاہیے، بھارت نے اس فورم کی توہین کی ہے،حکومت نہرو کا خط اقوام متحدہ میں تقسیم کرے، سفارتی سطح پر ملک کو مضبوط کیا جائے، اسحق ڈار کامیاب وزیر خارجہ ہونگے، کرپشن کے خاتمہ پر قوم متحد ہے،سارک کانفرنس کے التوا کے بعد انپی کوتاہیوں پر غور کرنا ہوگا،۔ جبکہ جمعیت علمائے اسلام کے امیر مولانا فضل الرحمن نے کا کہنا تھا کہ مسئلہ کشمیر پر دو ایٹمی ملکوں میں جنگ سے پہلے عالمی برادری کردار ادا کرے، بھارت نے جارحیت کی تو قوم مل کر وطن کا دفاع کریگی۔ انہوں نے کہا کہ کشمیر کے مسئلہ پر بلائے گئے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں عمران خان کی عدم شرکت سمجھ سے بالاتر ہے، مسئلہ کشمیر سمیت عالم اسلام کے خلاف مظالم روکنے کےلئے او آئی سی کا اجلاس بلانے کی ضرورت ہے۔ ایم کیو ایم (پاکستان) کے پارلیمانی لیڈر ڈاکٹر فاروق ستار نے اپنے خطاب میں کہا کہ بھارت کشمیر میں ریاستی دہشت گردی کر رہا ہے، بھارت بے نقاب ہونے کے بعد آبی دہشت گردی پر اتر آیا، داخلی اور خارجی سلامتی کو یقینی بنانے کیلئے پارلیمنٹ کی قومی سلامتی کمیٹی قائم کی جائے۔سراج الحق نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر کا مسئلہ حل ہو سکتا لیکن اس کیلئے حکومت پاکستان ایک ریاستی پالیسی بنا دے جس کو آئین کا تحفظ حاصل ہو۔ اجلاس سے اے این پی کے غلام احمد بلور، قومی وطن پارٹی کے آفتاب شیر پائو، سینیٹر سعید غنی نے بھی خطاب کیا۔ بدھ کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ نے کہا کہ کشمیر ایشو پاکستان کی سلامتی، دہشت گردی، کرپشن کے ایشو پر کوئی دو رائے نہیں ہوتیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر ہم ماضی کو سامنے رکھتے ہوئے قراردادوں پر عمل کرتے تو آج جن حالات سے گزر رہے ہیں مقبوضہ کشمیر میں بھارتی بربریت جیسے حالات نہ ہوتے۔ نو دہائیوں سے یہ مسئلہ چل رہا ہے۔ پاکستان کشمیریوں کے حق کی جنگ ہمیشہ لڑتا رہا۔ دنیا پر سفارتی دباؤ تسلسل کے ساتھ برقرار رہتا تو حالات کافی مختلف ہوتے۔ 71,65,61,1948 اور پھر کارگل کی جنگ لڑی گئی۔ یہ جنگیں کسی زمین کے ٹکڑے پر قبضہ کیلئے نہیں تھیں بلکہ کشمیر کیلئے تھیں۔ انہوں نے کہا کہ بھارتی حکومت نے لائن آف کنٹرول پر حملے‘ سفارتی سطح پر پاکستان کو اکیلا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سارک کانفرنس کو پانچ ممالک نے مل کر ناکام کیا۔ انہوں نے کہا کہ کشمیر حکومت یا اپوزیشن کا مسئلہ نہیں۔ پوری قوم کا مسئلہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے اور بھارتی مظالم کو دنیا کے سامنے رکھنے کیلئے وفود کی تشکیل پورے ایوان سے عمل میں لائی جاتی تو بہتر ہوتا۔ انہوں نے کہا کہ 1965ءمیں پاکستان کی مسلح افواج اور عوام نے بھارت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا۔ اس وقت مسئلہ کشمیر حل ہو سکتا تھا لیکن ہماری سفارتی کمزوریوں کی وجہ سے ایسا نہ ہو سکا۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم کی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں تقریر بہت اچھی تھی۔ بلوچستان میں بھارتی ہاتھ ملوث ہونے کے بارے میں اور بالخصوص کلبھوشن یادیو کے بارے میں بھی بات کی جانی چاہیے تھی۔ اقوام متحدہ نے مشرقی تیمور کا مسئلہ حل کیا تو مسئلہ کشمیر کیوں نہیں حل کرتا۔ انہوں نے کہا کہ نہرو نے تو کشمیر کے حوالے سے 27 اکتوبر 1947ءکو خط لکھا تھا جس میں کہا کہ کشمیر کا مسئلہ عوام کی امنگوں کے مطابق حل ہونا چاہیے۔ دو نومبر 1947ءآل انڈیا ریڈیو سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میں اعلان کرتا ہوں جہاں عوام مرضی کا فیصلہ چاہتی ہے وہاں پر ویسا ہی ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ سشما سوراج نے اقوام متحدہ میں اس بات کی خلاف ورزی کی۔ اس کا فائدہ پاکستان کو اٹھانا چاہیے۔ سپرپاور دنیا کے پاس اپنے وفود بھیجے جانے چاہئیں اور سفارتی جدوجہد تیز کرنے کی سخت ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ کرپشن کے نظام کا خاتمہ چاہتی ہے یہی پاکستان کی عوام چاہتی ہے۔ جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایٹم بم صندوق میں رکھنے کیلئے نہیں، پاکستان کو بقاء کا مسئلہ ہوا تو ایٹم بم چل سکتا ہے لیکن اس حد تک جانے کی ضرورت نہیں، دوایٹمی ملکوں میں جنگ سے پہلے عالمی برادری کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا، کشمیر پر او آئی سی کا سربراہی اجلاس طلب کیا جائے، بھارت اور امریکا دونوں سی پیک کے در پے ہیں امریکا چین کے خوف سے سی پیک کو ناکام بنانا چاہتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کشمیری عوام اور ان کی قیادت نوازشریف کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے، پوری قوم پاک فوج اور کشمیریوں کے ساتھ کھڑی ہے، کشمیریوں کو متفقہ پیغام دیتے ہیں کہ آپ تنہا نہیں۔ مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ مسئلہ کشمیر پر دنیا کے ضمیر کو جگانا چاہتے ہیں، مقبوضہ کشمیرمیں90روز سے کرفیو نافذ ہے، وزیر اعظم کے پیغام کو دنیا بھرمیں پھیلانا چاہئے۔ انہوں نے کہاکہ مسئلہ کشمیر پر مسلم ممالک کے سربراہان کا اجلاس بلایا جانا چاہئے، او آئی سی کا اجلاس بلا کر امت مسلمہ کو اس مسئلے پر ایک کیا جانا چاہئے۔ ہمیں عالمی فورم پرکشمیریوں کی وکالت کرنا ہوگی۔ مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ بھارت نے خطے کو بنجر بنانے کی دھمکی دی ہے اور دریاؤں پر ڈیم بنائے جارہے ہیں، ہماری ایک جامع پالیسی ہونی چاہئے۔ایم کیو ایم پاکستان کے پارلیمانی لیڈر فاروق ستار نے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں ریاستی دہشت گردی ہو رہی ہے‘ بھارت ظلم و بربریت سے توجہ ہٹانے کے لئے سرحد پر فائرنگ کرکے دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنا چاہتا ہے‘ ملک کی داخلی اور خارجی سلامتی کو یقینی بنانے کے لئے پارلیمنٹ کی قومی سلامتی کمیٹی قائم کی جائے‘ نصاب تعلیم‘ پولیس اور سیکیورٹی اداروں کے نظام میں اصلاحات لائی جائیں۔ انہوں نے کہا کہ سرحد کے اس پار ایک مضبوط پیغام بھیجنا ہوگا۔ تین ماہ سے ظلم و بربریت کی نئی داستان کشمیر کی خوبصورت وادی کی نذر کی جارہی ہے‘ ریاستی دہشت گردی کشمیریوں پر برپا کی جارہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت ظلم و بربریت ‘ دہشتگردی پر توجہ ہٹانے کے لئے سرحد پر فائرنگ کرکے دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی ناکام کوشش کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ 12 ہزار سے زائد کشمیری زخمی‘ 150 شہید ہوئے ہیں۔ اس کو چھپانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایل او سی کی خلاف ورزی کرنے اور ناکامی پر بھارت نے پانی کے معاملے پر بات کرنی شروع کی اور دھمکی دی کہ سندھ طاس معاہدہ منسوخ کردیں گے۔ انہوں نے کہا کہ اب ہمیں مذمت سے آگے بڑھنا ہوگا۔ اہم مسائل اور چیلنجز سے نمٹنے کے لئے پالیسیوں کا تسلسل بھی ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ملک کی داخلی اور خارجی سلامتی کو یقینی بنانے کے لئے پارلیمنٹ کی قومی سلامتی کمیٹی قائم کی جائے جو ان تمام معاملات پر نظر رکھے۔ سینیٹر سراج الحق نے کہاکہ پاکستان کی موجودہ قیادت کے مشترکہ اجلاس میں تمام نمائندے ایک ہی ایجنڈے کشمیر کے مسئلے پر اکٹھے ہوئے ہیں جو کہ مبارک باد کے مستحق ہیں یہ پیغام مقبوضہ کشمیر کے مظلوم عوام کے ساتھ یکجہتی کا ہے۔ پارلیمنٹ سے مطالبہ کرتا ہوں کہ 20 کروڑ عوام کو ایک قیادت دے اور منزل بتائے مودی کے پاگل پن سے ہندوستان کے ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں گے، ممبئی میں لاکھوں لوگوں نے الگ ہونے کے لئے مطالبہ کیا۔ سراج الحق نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر کا مسئلہ حل ہو سکتا لیکن اس کیلئے حکومت پاکستان ایک ریاستی پالیسی بنا دے جس کو آئین کا تحفظ حاصل ہو۔ عوامی نیشنل پارٹی کے رکن قومی اسمبلی غلام بلور نے کہاکہ مقبوضہ کشمیر پر جنگ نہیں ہو گی بلکہ دونوں ممالک کو طریقہ کار اپنانا ہو گا جس سے یہ مسئلہ حل ہو جائے۔ باقی دنیا میں مسلم ممالک کشمیر کی بات نہیں کرتے ہیں میری رائے ہے کہ تین آپشن پاکستان دیں اور تین آپشن بھارت دیں اور اس میں سے کشمیر کے مسئلے کا حل نکالیں۔ رکن قومی اسمبلی آفتاب احمد خان شیرپائو نے کہا کہ مشترکہ اجلاس میں تمام پارٹیوں نے اپنے خطابات میں قومی یکجہتی کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستان پاکستان کو ایک ناکام ریاست بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔ بھارت دنیا کو یہ تاثر دینا چاہتا ہے کہ ایک خوفناک جنگ دونوں ممالک کے درمیان ہونے جارہا ہے جبکہ ایسا کوئی خدشہ نہیں کیونکہ پاکستان کے پاس نیوکلیئر میزائل کی جو ٹیکنالوجی موجود وہ بھارت سے کئی درجے بہتر ہے۔ بھارت کی ڈپلومیسی یہ ہے کہ وہ بڑا ملک ہے اور ان کی بات دنیا میں سنی جاتی ہے اس کے لئے پاکستان کو اپنی پالیسی بنانی ہو گی کہ بھارت کے غلط پروپیگنڈے کو ختم کیا جا سکے جس کے لئے فارن پالیسی بنانا ہو گی جس کے لئے پڑوسی ممالک کے ساتھ بہتر تعلقات مرتب کرنے ہوں گے افغانستان ، ایران کے ساتھ تعلقات خراب ہیں جن کو بہتر کرنا ہو گا۔ سینیٹر سعید غنی نے کہا کہ کشمیر کا مسئلہ جنگ کے ذریعہ حل نہیں ہو سکتا بلکہ گفت و شنید سے حل ہو سکتا ہے اور بدقسمتی سے ہم بھارت پر پریشر ڈالنے میں ناکام رہے ہیں بھارت کی پاکستان کے خلاف سفارتکاری سے ہمیں نقصان پہنچ رہا ہے اس کا مقابلہ کرنے کے لئے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ حکومت کی خارجہ پالیسی میں ناکامی کی وجہ سے ہمارے دوست بھارت کے ساتھ کھڑے ہو گئے ہیں۔ حکومت کو ایک سرگرم وزیر خارجہ مقرر کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان نے مشترکہ اجلاس کا بائیکاٹ کر کے دنیا کو غلط پیغام دیا ہے جبکہ حکومت کو بھی طے کرنا ہوگا کہ قومی یکجہتی کو ترجیح دینی ہے یا پاناما لیکس کے معاملے کو۔