• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اگر آپ گدھے کا قورمہ، کتّے کے تکّے اور چوہے کے اسپرنگ رول کھانے سے بچنا چاہتے ہیں تو اس کا طریقہ آسان ہے۔ گوشت کھانا چھوڑ دیجئے۔ اس میں کوئی خسارہ نہیں، کچھ نقصان نہیں، کوئی کمی نہیں رہ جاتی، کسی کی جان پر نہیں بن جاتی،کسی کی عمر نہیں گھٹ جاتی اور موت سرپر نہیں منڈلانے لگتی۔ گوشت خوری کی تاریخ پر نگاہ ڈالئے۔ جب ہمارے بزرگوں کے بھی بزرگ غاروں میں رہتے تھے، آگ جلا لیتے تھے اور پتھر کے اوزار بناتے تھے، گھر کے مردصبح سویرے شکار کی تلاش میں نکل جاتے تھے،مگر شکار ہی کیوں، مکئی کے چمکتے دمکتے سنہری دانے کیوں نہیں۔ اُس وقت تک انہیں کھیتی باڑی کا خیال تک نہیں آیا تھا۔ ہمارے ننگ دھڑنگ لکّڑ دادا دن بھر مختلف جانوروں کا پیچھا کرکے انہیں پچھاڑتے تھے اور کھینچتے ہوئے اپنے غار تک لاتے تھے جہاں مادر زاد برہنہ خاتونِ غار آگ کا الاؤ تیار کرتی تھیں، ان شعلوں پر مردہ جانور بھونے جاتے تھے اور دانتوں سے نوچ نوچ کے کھائے جاتے تھے۔ اس کے بعد یہ کہنا کہ گوشت تو مسلمان کی شان ہے ،مناسب نہیں لگتا۔ مسلمانوں کے ایک سچّے شخص نے تو کہا تھا کہ اپنے پیٹوں کو جانوروں کا قبرستان نہ بناؤ، مگر کون سنتاہے۔
گوشت کی اتنی زیادہ مانگ ہے، گوشت کے گاہک اتنے زیادہ ہیں، خریداروں کا مجمع اتنا بڑا ہے کہ بیچنے والے ہر طرح کا الّم غلّم بیچ کر جانور کی کم اور گاہک کی کھال زیادہ اتاررہے ہیں،وہی قصائی جو اپنی ایک خوبی کی وجہ سے بدنام ہیں۔ آپ ان سے کتنا ہی نفیس گوشت مانگئے، وہ اس میں آنکھ بچا کر کچھ ناقص بوٹیاں اس خوبی سے ملائیں گے کہ آپ کے فرشتے تک بے خبر ی کے عالم میں سر کھجاتے رہ جائیں گے۔اسی کثرت گوشت خوری کا نتیجہ ہے کہ گوشت کے گاہکوں کی آنکھوں میں دھول جھونکی جارہی ہے۔ انہیں اگر گائے یا بکری ہی کا گوشت مل رہا ہے تو لازمی نہیں کہ صحت مند جانور ہی ذبح کیا گیا ہے۔ وہ بیمار بھی ہو سکتا ہے، مرنے کے قریب ہو ، دم توڑ رہا ہو، سسک رہا ہو، اس کی سانسیں اکھڑ رہی ہوں یا پہلے ہی مر چکا ہو۔ مشتاق احمد یوسفی کی یہ بات یاد آتی ہے کہ ہم نے پاکستان میں آج تک کسی بکری کو طبعی موت مرتے نہیں دیکھا۔
اب تو ایک عرصے سے ٹی وی پر دکھایا جارہا ہے کہ کھیتوں میں چوری چھپے گدھے کا گوشت بنایا جارہا ہے، کراچی کے فیشن ایبل علاقے کی ایک زیر تعمیر عمارت میں کتّے کی بوٹیاں بن رہی ہیں اور ایک نواحی بستی میں چوہوں کی کھال اتار کر ان کا گوشت اسپرنگ رول میں بھرا جارہا ہے جسے ہمارے بچّے شوق سے کھاتے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ جب چھاپہ مارا گیا تو اسپرنگ رول بنانے والوں کو یہ رول کھلانے کی کوشش کی گئی۔ وہ مچل گئے اور زبان پر رکھنے کے لئے بھی تیار نہیں ہوئے۔ مجھے اپنے بچپن کے دن یاد ہیں جب میرے بڑے بھائیوں نے بندر کا ایک بچہ پکڑا اور اسے گوشت کھلانے کی کوشش کی گئی۔ وہ تڑپ گیا، مچل گیا لیکن گوشت کاایک ریزہ بھی اپنے منہ میں نہیں جانے دیا۔ اس سے تو ڈارون کا نظریہ غلط ثابت ہوتا ہے۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ قدرت نے جتنے جان داروں کے منہ میں دو نوکیلے دانت بنائے ہیں وہ سب کے سب گوشت خور ہوتے ہیں۔ ایسے دانت تو کتّے کے منہ میں بھی ہوتے ہیں۔ پتہ نہیں اس سے کیا ثابت ہوتا ہے۔ انگریزوں کی ایک کہاوت ہے کہ آپ جو کچھ کھاتے ہیں، خود بھی وہی ہوجاتے ہیں۔ صاحبو، گدھے، کتے اور چوہے کا گوشت کھانے سے بچیں ورنہ اپنے حشر کا خیال رکھیں۔ (یاد رہے کہ انگریز آلو بہت کھاتے ہیں)۔اس معاملے میں دنیا والے بھی خوب ہیں، خاص طور پر چین والے۔ مجھے یاد ہے جن دنوں میں دریائے سندھ پر تحقیق کرنے کے لئے لدّاخ سے ٹھٹھہ کے ساحل تک کوئی ایک ہزار میل کا سفر کر رہا تھا، گوشت خوری کی کہانیاں میرے ساتھ ساتھ چلیں۔ پہلے لدّاخ جہاں زیادہ آبادی بدھوں کی ہے جو گوشت نہیں کھاتے، ایک صبح مسلمانوں میں خبر پھیل گئی کہ بڑی سڑک کے کنارے بکرا ذبح ہوا ہے۔ لوگ تھیلے اٹھا کر اس طرف لپکے۔ اپنے میزبانوں کے ساتھ میں بھی منظر دیکھنے گیا۔ لب سڑک بکرا ذبح ہوچکا تھا اور بوٹی بوٹی ہوا جارہا تھا۔ دیکھتے دیکھتے بکرا اُڑن چھو ہو گیا۔ اس کے بعد گلگت میں ایک شاندار ہوٹل کے کھانے میں خشک گوشت پیش کیا جارہا تھا۔مجھ سے نہیں کھایا گیا۔ میں نے تازہ شہتوت اور خوبانی سے پیٹ بھرا۔ اور آگے چلے تو گوشت آسانی سے مل رہا تھا لیکن علاقے کے گوالوں اور چرواہوں کو مالدار تصور کیا جارہا تھا۔ وہاں مشہور تھا کہ جس کے پاس جتنے چوپائے ہیں وہ اتنا ہی دولت مند ہے۔ شمالی علاقہ جات کے بعد وہ علاقہ آیا جو اُن دنوں صوبہ سرحد کہلاتا تھا۔ وہاں تو صورت حال یوں تھی کہ کھاؤ تو گوشت سے، نہ کھاؤ توگوشت سے۔ پھر راہ میں آیا میانوالی، ڈیرہ اسماعیل خان اورڈیرہ غازی خان کا علاقہ جہاں اُن دنوں دریائے سندھ کے کنارے کنارے ایک عظیم شاہراہ تعمیر کی جارہی تھی اور سوچئے کون تعمیر کر رہا تھا، پڑوسی دوست ملک چین کے انجینئر۔وہ اس سڑک کو مرحلہ وار بنا رہے تھے۔ وہ جس علاقے میں پہنچتے، وہاں کے پولی ٹیکنک اداروں میں تعلیم پانے والے لڑکے بھرتی کر کے اپنے کام میں شامل کر لیتے تھے۔
ان لڑکوں نے چینیوں کے بارے میں مزے مزے کی باتیں بتائیں۔ایک تو یہ کہ عجیب لوگ ہیں۔ جب سڑک کے لئے سطح ہموار کر کے اس کے اوپر مٹی بچھاتے تھے تو اس مٹی کو آٹے کی طرح چھانتے تھے اور مٹّی بچھانے کے بعد آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر کنکر پتھر چن چن کر نکالا کرتے تھے۔ پھر ذکر ہوا چینیو ں کے کھانے پینے کا۔لڑکوں نے بتایا کہ پہلے تو چینی انجینئروں نے چوہوں کا صفایا کیا، پھر بلیوں پر ہاتھ صاف کیا۔ اس کے بعد علاقے کے کتوں کی شامت آئی ۔ لڑکوں نے بتایا۔’’آج کل وہ جنگلی گدھوں کے پیچھے دوڑرہے ہیں‘‘۔آخر میں ذکر ہے ڈیرہ غازی خاں کے باشندوں کا جن کے ماضی کا احوال سن کر میں دنگ رہ گیا۔ مجھے بتایا گیا کہ ایک زمانہ تھا جب اس علاقے کے غریب لوگ گوشت نہیں کھا سکتے تھے۔ سال بھر مشقت کرکے لوگ جو اناج اگاتے تھے، جاگیردار وہ اناج چھین کر لے جاتے تھے۔گوشت اتنا مہنگا تھا کہ اس کے یہ لوگ متحمل نہیں ہو سکتے تھے چنانچہ ان کی عمریں ساگ کھاتے کھاتے گزرتی تھیں اور ساگ بھی شاید برساتی نالوں کے کنارے خود ہی اُگ آتا ہوگا۔ ڈسٹرکٹ اسپتال، ڈیرہ غازی خان کے ڈینٹل سرجن نظام فرید صاحب نے اس پوری صورت حال کا نقشہ کھینچ دیا۔میں نے ان سے پوچھا کہ اس علاقے میں گوشت کی جگہ ساگ کی مقبولیت کا کیا قصہ ہے؟ ہنس کر بولے’’ یہ لوگ ساگ کُنّے کے اندر پکاتے ہیں اور خواتین اس کو ڈوئی کے ساتھ گھوٹتی رہتی ہیں اور کیونکہ یہاں سب سے سستی سبزی ساگ ہی ہے تو لوگ بعض اوقات گندم کی بجائے ساگ ہی سے پیٹ بھرنے کے متحمل ہو سکتے ہیں۔ اس وجہ سے ساگ بڑی محبت اور اہتمام سے کھایا جاتا ہے ۔ ساگ اور دال یہاں کی بہت مقبول غذا ہے۔‘‘میں حیران تھا کہ اس شہر کے باشندے گوشت نہیں کھاتے تھے۔ باتوں باتوں میں پتہ چلا کہ شہر والے سب کے سب کاریگر ہوتے تھے۔ ان کی عورتیں بھی کام کرتی تھیں، اتنا کام کہ کھانا پکانے کی فرصت نہیں ہوتی تھی اور کھانا بازار سے آتا تھا۔ اس میں گوشت یقینا ہوتا تھا مگر جانور کے بدن کے صرف اُن حصوں کا گوشت جو عموماًبے کار سمجھ کر پھینک دئیے جاتے ہیں۔ (حوالہ شیر دریا، سنہ اشاعت 1996ء)
اس پر یاد آیا کہ جس نہاری کو اہل ایماں نہایت ذوق و شوق سے کھاتے ہیں اور جو صبح تڑکے کام پر جانے والے کرخندار جامع مسجد کی سیڑھیوں پر کھاتے تھے اس کا بھی یہی نسخہ تھا کہ گائے کے گوشت کے جو حصے گلتے نہیں تھے اورپھینک دئیے جاتے تھے وہ سارے کے سارے دیگ میں بند کرکے اور اس میں تمام مسالے جھونک کردیگ کا منہ بند کردیا جاتا تھا اور نیچے آگ دی جاتی تھی ۔ یہ دیگ رات بھر پکتی تھی اور نہار منہ کھولی جاتی تھی تو سارا علاقہ مہکنے لگتا تھا۔ اس وقت کام پر جانے والے غریب محنت کش یہ نہاری شوق سے کھاتے تھے۔اس کی خوبی یہ تھی کہ پھر دن بھر بھوک نہیں لگتی تھی۔ جامع مسجد کے بعض باورچیوں کی اتنی شہرت تھی کہ دلی کے رئیس نہاری خریدنے کے لئے اپنے برتن بھیجتے تھے تو انہیں انکار کر دیا جاتا تھا کہ یہ کھانا صرف غریبوں کے لئے ہے۔گوشت کا تو یہ حال ہے کہ جسے ہم حلیم کہتے ہیں ، اصل میں یہ لحیم کہلاتی تھی اور تمام خوش خوراک لوگ جانتے ہوں گے کہ لحم گوشت کو کہتے ہیں۔ یہ لوگ دن میں دو وقت گوشت ضرور کھاتے ہیں اور اگر گوشت میں دال یا سبزی ملا دی جائے تو کہتے ہیں کہ گوشت بھی ضائع ہوا اور دال سبزی بھی۔ ایسے لوگوں سے خدا ہی سمجھے۔ تب ہی تو دل کی شریانیں بند ہو جاتی ہیں اور انجیو گرافی یوں ہونے لگی ہے جیسے کسی زمانے میں منہ میں تھرما میٹر لگایا جاتا تھا۔ علاج آسان ہے۔ مچھلی کھایئے۔
تازہ ترین