جیساکہ میں نے گزشتہ کالم میں ذکر کیا کہ سیاسی ہواؤں کا رخ تبدیل ہورہا ہے جنرل راحیل شریف اور پاک افواج کے جانباز سپاہیوں کی بدولت فضا میں وہی تازہ مہک سرایت کر رہی ہے جس کا خواب ہمارے آباؤاجداد نے دیکھا تھا جس کے لئے لاکھوں جانوں کا نذرانہ پیش کیا گیا تھا کہ ایک پرامن وبدعنوانوں سے پاک ملک میں سانس لے سکیں گے ۔ پاکستان بالآخر پر امن ماحول کی جانب رواں دواں ہے لیکن کیا یہ امن و امان کی صورتحال بر قرار رہ سکے گی یا بڑی سیاسی تنظیموں سے تعلق رکھنے والے بدعنوان سیاستدان اس مرتبہ بھی فتحیاب ہوجائیں گے؟ بدقسمتی سے ماضی میں ہمارے عدالتی نظام میں موجودخامیوں نے ان بدعنوانوں کو پروان چڑھانے میں اہم کردار اداکیا ہے ۔ عدالتی نظام کی کمزوری کی وجہ سے اکثر مجرم بآسانی بچ نکلتے ہیں،کیونکہ یا تو بعض جج خود بدعنوان ہوتے ہیں یا پھر انہیں بدعنوان اشرافیہ کی مافیا کے ذریعے ڈرا یا دھمکایا جاتا ہے۔ اسکے علاوہ پولیس کی مجرموں کے خلاف شواہد جمع کرنے میں لاپروائی نے امن و امان کی صورتحال کوبگاڑنے میں سونے پہ سہاگے کاکام کیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ لیاقت علی خان ، مرتضیٰ بھٹّو، حکیم سعید، جسٹس نظام احمد اور دیگر ہزاروں افراد کے قاتل سیاسی سر پرستی کے باعث آج تک نہیں پکڑے گئے بلکہ بڑی بے باکی سے آزاد گھوم رہے ہیں ۔ تاہم فوجی عدالتوں کے حوالے سے سپریم کورٹ کا حالیہ فیصلہ ملک سے دہشت گردی و جرائم کے خاتمے میں اہم کردار ادا کرے گا۔ اب جبکہ سیاسی و معاشرتی فضا میں تبدیلی رونما ہو رہی ہے، ضروری ہے کہ فوجی عدالتوں کو قائم کریں اور فیصلے کی آزادی بھی دیں تاکہ دہشت گردوں بالخصوص ــ’اقتصادی دہشت گردوں ‘ (financial terrorists) کو کیفر کردار تک پہنچایا جا سکے کیونکہ سب سے زیادہ بدعنوانی انہیں دہشت گردوں کی وجہ سے ہے۔ جب تک ان بدعنوانوں کو سزائیں نہیں ملیں گی پاکستان ترقی کے نئے دور میں داخل نہیں ہو سکتا نہ ہی ایک مضبوط علمی معیشت قائم کر سکتا ہے۔
آج کی دنیا علم کی دنیاہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ ہمارے وزیرخزانہ اس حقیقت سے قطعی لا علم ہیں۔ یہ ایک احمقانہ بات ہے کہ ملکی خزانے میں 18 ارب امریکی ڈالروں کے ذخائرکی موجودگی کو اقتصادی ترقی کا ثبوت سمجھا جا رہا ہے۔ کسی بھی ملک کی اقتصادی ترقی کی نشاندہی اس ملک کی صنعتی پیداواری صلاحیت میں اضافہ، زیادہ سے زیادہ روزگار کے مواقع، برآمدات میں اضافہ اور غربت و افلاس کی سطح میں کمی سے لگایا جاتا ہے جبکہ کسی بھی ملک کی معاشرتی ترقی تعلیم اور صحت میں بر تری کے بغیر کچھ نہیں اور پاکستان ان تمام عوامل کو بروئے کار لانے میں بُری طرح ناکام ہے جبکہ ہمارے وزیر اعظم میٹرو بس اسٹیشن قائم کرنے کے منصوبے میں مصروف نظر آتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمیں اپنے وسائل استعمال کرتے ہوئے بندوں کی تعمیر کروانی چاہئے تاکہ زرعی پیداوار میں اضافہ ہواور اگلی دو دہائیوں میں متوقع کرہ ارض میں بڑھتی ہوئی تپش (Global Warming) سے رونماہونے والی قحط سالی سے نمٹنے کے لئے خود کو تیار کر سکیں۔ ہمیں اپنی جامعات میں وسیع پیمانے پر سرمایہ کاری کرنی چاہئے تاکہ ہماری ہر جامعہ کا بجٹ کم از کم نیشنل جامعہ سنگاپور کے بجٹ کا 1/3تو ہو۔ موجودہ بجٹ تقریباً200 ً گنا کم ہے ۔ میں نے بحیثیت چیئر مین، اعلیٰ تعلیمی کمیشن کے دور میں جامعاتی فنڈز میں اضافہ کیا تھا لیکن پچھلی حکومت نے پوری کوشش کی کہ اعلیٰ تعلیم کو تباہ کیا جائے۔ ہمیں پولیس اور عدالتی اصلاحات پربھی سرمایہ کاری کرنی چاہئے تاکہ امن و امان کی صورتحال کو بھی بہتر بنایا جا سکے۔ لیکن ہمارے وزیراعظم صاحب کو لگتا ہے کہ ان سب مسائل کا حل صرف سڑکیں اوربس اسٹیشنز تعمیر کرنا ہے۔ بے شک تعمیراتی منصوبے بھی اہم ہوتے ہیں لیکن صنعت، تعلیم، صحت ، اور زراعت سے زیادہ اہم اور توجہ طلب نہیں۔
میں آپ کو چند مثالوں کے ذریعے بتاتا ہوں کہ جدت طرازی(innovation) کس طرح کرہ ارض پر اثر انداز ہو رہی ہے۔ ابھی حال ہی میں میں بوسٹن، امریکہ میں تھا جہاں ہر سال میری اور نوبل لا ریٹ پروفیسر فرید مراد (Prof. Ferid Murad) کی سربراہی میں دو بین الاقوامی کانفرنسیں Drug Discovery اور iotechnology bکے حوالے سے منعقد ہوتی ہیں ۔
بوسٹن ایک علم کا گہوارہ ہے اور اس کی جامعات اور تحقیقی مراکز امریکہ کی اقتصادی ترقی کی گواہی دیتے ہیں۔ انہیں وجوہات کی بنا پر امریکہ کا سائنس کی دنیا میں الگ اونچا مقام ہے ۔جامعہ MIT کا بجٹ 0 80 ارب ڈالر ہے جو کہ پاکستان کی کل جامعات اور تحقیقی اداروں کے تحقیقی بجٹ سے 150 گنا زیادہ ہے ۔ MIT کے بجٹ کا ایک کثیر حصّہ دفاعی ایجنسیوں کی جانب سے آتا ہے ۔ یہ ایک سبق ہے ہماری دفاعی ایجنسیوں کیلئے کہ وہ بھی اس بارے میں غور کریں اور دفاع کے میدان میں تحقیق کو فروغ دیں۔ جامعات میں دفاعی منصوبوں میں مضبوطی ملک کے لئے ہزا ر گنا فائد ہ مند ہو سکتی ہے۔ MIT سے فارغ التحصیل طلبا نے تقریباً 4000 کمپنیاں قائم کی ہیں جس کے ذریعے تقریباً گیارہ لاکھ افراد کو روزگار فراہم ہوا ہے اور ان کمپنیوں کی سالانہ آمدنی 300 ارب امریکی ڈالر سے بھی زیادہ ہے۔یہ صرف ایک امریکی ادارے کے امریکی معیشت پر اثرات ہیں ۔ پاکستان کو بھی وہی لائحہ عمل اختیار کرنا چاہئے جو کوریا اور سنگاپور نے اختیار کیاہے اور اب چین بھی اپنا رہا ہے۔ وہ یہ کہ اپنے تمام تر وسائل کو علم پر مبنی معیشت (Knowledge based Economy)کے قیام کے لئے صرف کیا جائے ۔ہمیں اپنے قومی خزانے میں جمع 18 ارب امریکی ڈالر پر مطمئن ہونے کی بجائے (جو صرف ہماری قرض واپس کرنے کی صلاحیت کی نشاندہی کرتا ہے اقتصادی ترقی سے اس کا کوئی تعلق نہیں) اس ملکی خزانے کے ایک بڑے حصّے کو بڑی سمجھداری کے ساتھ اعلیٰ تکنیکی منصوبوں ،صنعتی پیداواراعلیٰ زرعی پیداوار، ادویات سازی، برقیات اور دیگر اشیاء کی تیاری کے لئے صرف کرنا چاہئے تاکہ ہماری برآمدات 25ارب ڈالر سے بڑھ کر کم از کم سنگاپور (جس کی آبادی کراچی کی آبادی کی ایک چوتھائی ہے اور کوئی قدرتی وسائل بھی نہیں) کی برآمدات تک پہنچ سکیں جو کہ458 ارب امریکی ڈالرہے ۔
تحقیقی اداروں پر سرمایہ کاری کرنے سے جو جدت طرازی اور دریافتیں رونما ہورہی ہیں ان سے لاکھوں اربوں ڈالروں کا منافع ہو رہا ہے۔ سوئس سائنسدانوں نے ایک دلچسپ مادہ تیار کیا ہے جسے"molybdenite" کہتے ہیں اس کی کارکر دگی اس سلیکون کی کارکردگی سے بہتر ہے جو کہ عموماً برقیات میں استعمال ہوتا ہے۔ یہ ایک بہت عمدہ نیم موصل (semiconductor) ہے اور اسے بآسانی تیار کیا جاسکتا ہے اور بہتر کارکردگی والے ٹرانسسٹرز، LEDs، کمپیوٹر چپس، اور شمسی خلئے (solar cells) تیار کئے جاسکتے ہیں۔ اس کے استعمال سے کل آپ کے گھروں کی دیواریں مختلف رنگوں سے روشن نظر آسکتی ہیں۔ ایسے کمپیوٹرائزڈ ملبوسات تیار کئے جاچکے ہیں جن سے ایک لمحے میں رنگ اور ڈیزائن تبدیل کیا جا سکتا ہے حتیٰ کہ آپ کا لباس آپ کو انٹرنیٹ استعمال کرنے کی سہولت بھی فراہم کر سکتا ہے۔
آج کی دنیا علم کی نیا ہے۔ آج تحقیق پر سرمایہ کاری کل اربوں کھربوں ڈالر کے کاروبار کا ذریعہ بن سکتی ہے۔ لہٰذا ہماری حکومت کو سڑکیں اور بس اسٹیشن بنانے کے بجائے سائنس، ٹیکنالوجی اور جدت طرازی پر سرمایہ کاری کرنی چاہئے۔