پچھلے ہفتے جناب پرویز مشرف نے اپنے ایک انٹرویو میں فرمایاکہ جمہوریت اس خطے کیلئے مناسب نہیں ہے۔ یہاں چیک اینڈ بیلنس کا کوئی تصور ہی نہیں ہے۔ان کے یہ فرمودات نہ نئے ہیں نہ انوکھےاور نہ ہی ان کے ذاتی فکرو تدبر کا نتیجہ۔یہ دنیا کے ہر اس ڈکٹیٹر کے نظریات ہیں جس نے جمہوریت کی بساط لپیٹی۔ہٹلر سے مسولینی تک جنرل ارشاد سے عیدی آمین تک،حسنی مبارک سے لے کر جنرل سیسی تک،جنرل ایوب سے لے کر خود موصوف تک۔سب کے سب آج کل کی ایک صحافیانہ اصطلاح کے مطابق ایک ہی صفحے پر دکھائی دیتے ہیں۔ جنرل ایوب نے کہا تھا کہ جمہوریت ہماری گرم آب وہوا سے مطابقت نہیں رکھتی۔یہ سرد علاقوں کی سوغات ہے اور وہاں ہی بھلی لگتی ہے۔معلوم نہیں اس وقت ان سے کسی نے یہ سوال کیا تھا یا نہیں۔ ہندوستان کون سے منطقے میں واقع ہے؟۔اپنی اس’’ سوچی سمجھی رائے‘‘ کے حق میں دلیل یہ لائے کہ یہاں کوئی چیک اینڈ بیلنس کا نظام ہے ہی نہیں۔خدا لگتی کہیں تو ان کی اس بات سے انکار ممکن نہیں۔ان کی یہ بات سولہ آنے درست ہے کہ یہاں چیک اینڈ بیلنس کا کوئی وجود نہیں۔یہ صورت حال مگر آج کا افسانہ نہیں روزِ اول کا شاخسانہ ہے ۔سوال مگر یہ ہے کہ اس کا ذمہ دار کون ہے؟۔سیدھی سی بات ہے ذمہ دار وہی ہو گا جس نے مطلق اختیارات سے اور زیادہ عرصے تک حکومت کیاور وہ بدبخت جمہوریت نہیں آمریت ہے حضور جسے بلا شرکت غیرے حکومت کرنے کے 36سال میسر آئے جس کا چوتھائی حصہ آنجناب ہیں۔جمہوریت اور آمریت دو الگ الگ اور متضاد خصوصیات کے حامل نظام ہیں۔ان میں سے جو بھی طاقتور ہوتا ہے دوسرے کو کھا جاتا ہے۔جہاں جہاں جمہوریت مضبوط تھی اس نے آمریت کے عفریت کو کھا لیااور جہاں جہاں آمریت مضبوط تھی اس نے جمہوریت جیسی نعمت کو کھا لیا۔ہم بدقسمتی سے وہ سوختہ مقدر ہیں جن کے خوابوں، امنگوں، ارمانوں اور امیدوں کو مسلسل آمریت کھا گئی۔ہم تو قبر کا اُگلا ہوا وہ مردہ ہیں جس کی پچھلی اگلی کئی نسلوں کے حقوق چٹ کر گئی ہے یہ بلااس ملک کے بانی کی جلد وفات اور پہلے وزیراعظم کی شہادت نے جمہوریت کو پنپنے کا موقع ہی نہ دیا۔جنرل ایوب خان اپنی کتاب کے بابِ انقلاب میں لکھتے ہیں۔نقارے پر چوٹ پڑ چُکی تھی۔ وہ لمحہ جس کا مدت سے انتظار تھا،آخر کار آ پہنچا۔میں 4اکتوبر 1958کوکراچی جانے کیلئے ریلوے سیلون میں سوار ہوا تو جانتا تھا کہ اب یہ دور ختم ہونے کو ہے۔ جہاں ایک سیاسی سوانگ عرصے سے کھیلا جا رہا تھا۔وہ دور اور وہ سوانگ کیا تھا؟اس کا بانی کون تھا؟۔خوش قسمت تھا بانی جلد اپنی گور میں جا سویاورنہ اس کے ساتھ بھی وہی ہو تا جو اس کی بہن کے ساتھ ہوا۔موصوف ایک سوچی سمجھی سازش کے ساتھ اصلاحات کرنے نہیں حکومت کرنے آئے تھے۔ جیسے یحییٰ خان جنرل ضیا اور آنجناب آئے تھے۔نہ ایوب خان کے وقت ملک مشکل صورت حال کا شکار تھا نہ آپ جناب کے وقت۔ایوب نے بنیادی جمہوریتوں کے تصور سے جمہوریت کا گلا گھونٹا۔منجھے ہوئے تجربہ کار سیاست دانوں کو کالے قوانیں بنا کر راستے سے ہٹایا۔ایک ناخواندہ اور نیم خواندہ جمہوری شعور سے نابلد کلاس کو ’’بنیادی جمہوری ‘‘ڈھانچے تلے پروان چڑھایا۔ جمہوری اداروں کو تباہ و برباد کیا۔ابھی عشرہ ترقی منانے کا قالین بچھا ہی تھا کہ بنیادی انسانی حقوق سے محروم عوام اُٹھ کھڑے ہوئے۔لیکن موصوف جاتے جاتے اپنے سے بھی بدتر ایک اور ڈکٹیٹر کے ہاتھ عنانِ حکومت سونپ گئے جس نے ہوس اقتدار کے ہاتھوں ملک دو لخت کر دیا۔کچھ حاشیہ نشینوں نے لکھا ہے اس نے شفاف الیکشن کروائے۔الیکشن کے نتائج کے مطابق اس نے اکثریتی پارٹی کو حکومت نہ سونپ کر ملک کی کون سی خدمت کی؟۔یہ وہ حربہ تھا جو ملک ٹوٹنے کا سبب بنا۔ باقی کے بچے ہوئے ملک میں وہاں کی سیاسی جماعت نے جب اپنا عرصہ پورا کیااور الیکشن کا وقت آیا تو سیاسی بحران تقریباً حل ہو چکنے کے باوجود تیسرا آدھمکا۔اس کی عجلت کا سبب یہ تھا کہ سیاسی بحران سیاسی طریقے سے حل ہو گیا تو جمہوریت کے پائوں جم جائیں گے اور اس کی ہوس اقتدار کا خواب ادھورا رہ جائے گا۔ اس نے پے درپے غیر جماعتی انتخابات کے ذریعے جمہوریت کی جڑوں کو اکھیڑا۔اس کے سیاہ ترین گیارہ سالہ دور حکومت میں ملکی سلامتی کی بنیادوں میں بارود بھر دیا گیا جن زخموں سے ملک آج تک جانبر نہیں ہو سکا۔ جب بستی لال کمال کے آسمان نے قوم پر رحم کی نگاہ ڈالی، اور پھر سے وہ جماعت بر سر اقتدار آگئی جسے اس نے مسلسل گیارہ سال شدت سے کچلا تھا دیکھتے ہی دیکھتے ملک میں پھر سے دو پارٹی سسٹم چل نکلا۔مگر یہ سسٹم آپ کو ایک آنکھ نہیں بھایا۔ آپ نے سیاسی حکومت سے بالا ہی بالا کارگل کا ایڈونچر رچایا جس کے سبب پوری دنیا میں پاکستان کی جگ ہنسائی ہوئی اور آپ نے ایک کمزور ترین بہانے کی بنیاد پر ہمارا جمہوری سسٹم روند ڈالا۔ ضیا نے قوم کے منتخب وزیراعظم کو ایک جھوٹے مقدمے میں پھنسا کر پھانسی دے ڈالی اور آپ نے دوسرے منتخب وزیر اعظم کے ہاتھ میںعام مجرموں کی طرح ہتھکڑی ڈال کر پوری قوم کے منہ پر تمانچہ مارا۔ عوام اگر آپ کے ان خود ساختہ غیر عقلی و غیرمنطقی نظریات سے متفق ہوتے تو آج آپ قانون سے بھاگ نہ رہے ہوتے بلکہ اقتدار میں ہوتےاور یہ جو جمہوریت کا درخت پھل پھول نہیں رہاتو اس کا سبب بھی مسلسل آمریت ہے اس مسلسل آمریت نے جمہوری سیاست کی وہ کھیتی ہی ہموار نہیں ہونے دی جہاں اچھے سیاست دانوں کی فصل اُگ سکتی۔آج ہم جن سیاست دانوں کو بھگت رہے ہیں۔ ان کی اکثریت عوام کی مرضی و منشا اور جمہوریت کی پیداوار نہیں بلکہ آمریت کی پیداوار ہے۔عوام نے جنہیں مسترد کیا تھا انہیں آپنے اپنی ہوس اقتدار میں این آر او کے کالے قانون کے ذریعے پھر سے ہمارے سر تھوپ دیا اوپر سے آپ کو شکوہ ہے کہ یہاں کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں ہے۔چیک اینڈ بیلنس پیدا ہوتا ہے آئین و قانون کی حکمرانی سے وہ آئین جسے جنرل ایوب نے منسوخ کیا تھا۔ جسے یحییٰ خان نے بے توقیر کیا تھا۔جسے جنرل ضیا نے چند صفحات کا حقیر پلندہ قرار دیا تھا جسے آپ نے بار بار قدموں تلے روندا تھا۔۔اگر اس ملک میں کوئی چیک اینڈ بیلنس کا نظام ہوتا کوئی قانون کی حکمرانی کا تصور ہوتا، تو ایک قانونی طریقے سے ریٹائرڈ جنرل نو سال تک بلا شرکت غیرے حکومت کر سکتا؟
.