• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
قصور میں بچوں کی معصومیت کا قتل کرنیوالے بے رحم اور سفاک قاتلوں کے خلاف ملک کے طول و ارض میں احتجاج،مذمت اور افسوس ایسے بانجھ الفاظ کا بیوپار جاری ہے۔خبر کے بھوکے گِدھ نشانہ بدل بدل کر لاشوں کو بھنبھوڑ رہے ہیں ،سیاستدانوں کی شعبدہ بازیاں عروج پر ہیں ، از خود نوٹس لئے جا رہے ہیں،کمیٹیاں اور کمیشن بن رہے ہیں، رپورٹیں طلب کی جا رہی ہیں۔حکمرانوں کی لایعنی دوڑ دھوپ کے درمیان ہی سماج کا اجتماعی شعور بھی دیدے پھاڑ کر دیکھنے کی کوشش کر رہا ہے کہ آخر ہوا کیا ہے؟بتایا جا رہا ہے کہ یہ گھنائونا فعل سالہا سال سے جاری تھا،بچوں کو ہوس کا نشانہ بنانے والوں کے خلاف کوئی آواز نہ اٹھی تو ان کے حوصلے مزید بلند ہوتے چلے گئے،انہوں نے جنسی تلذز بڑھانے اور حظ اٹھانے کے لئے ان مناظر کو فلمانا شروع کر دیا،ویڈیوز بیرون ملک پورن ویب سائٹس کو فروخت ہونے لگیں ،لگے ہاتھوں لوکل مارکیٹ میں بھی کاروبار جنس و عصیاں بڑھنے لگا تو اس جبر مسلسل کی سی ڈیز پچاس پچاس روپے میں فروخت ہونے لگیں ۔وہی جھوٹی عزت ،وہی کھوکھلی عصمت ،وہی بے معنی ننگ و ناموس جسے بچانے کے لئے معاشرے کے ’’شرفاء‘‘ ان رذیلوں کے ہاتھوں بلیک میل ہوتے رہے اور ظلم سہنے کے باوجود بغاوت کرنے کی جرات نہ کر سکے ،وہی عزت سر بازار رسواء ہوئی تو پولیس سے رجوع کیا گیا اور یوں اس واقعہ کو ملکی سطح پر توجہ حاصل ہوئی۔ میرا سوال یہ ہے کہ آخر متاثرین نے یہ بات ایک طویل عرصہ تک چھپائے کیوں رکھی؟ان کے بچوں کی معصومیت چھینی گئی تو وہ سراپاء احتجاج کیوں نہ ہوئے؟ جس دن قصور میں پہلے بچے کے ساتھ جنسی زیادتی ہوئی ،اگر اس دن پہلی ایف آئی آر کٹ جاتی تو کیا یہ نوبت آتی؟آخر ہمارے تصور حرمت میں ایسی کیا خرابی ہے کہ ظالم تو سینہ تان کر پھرتا ہے مگر مظلوم سر جھکائے خجالت و شرمندگی کی قبر میں دفن ہو جاتا ہے؟یہ کیسی نرالی اقدار و روایات ہیں کہ عزت لوٹنے والے ہوس کے پجاری کی نیک نامی پر تو کوئی حرف نہیں آتا ،الٹا اس کی مردانگی کا ڈنکا بجتا چلا جاتا ہے اور اپنی منشاء و مرضی کے خلاف جنسی تشددکا عذاب سہنے والی یا والے کے کریکٹر پر سوال اٹھائے جاتے ہیں؟آخر کیا وجہ ہے کہ دست درازی پر چپ ہوجانے والی کو تو شرافت کی سند جاری کر دی جاتی ہے مگرایسی حرکت کرنے والے مرد کو زناٹے دار تھپڑ رسید کرنیوالی بدچلن قرار پاتی ہے؟ان سب سوالات کا مختصر مگر جامع جواب دینا مقصود ہو تو بات کو محض ایک جملے میں سمیٹا جا سکتا ہے اور وہ ہے ’’لوگ کیا کہیں گے‘‘کسی بچی کی عصمت لٹ جائے تو بدنامی کے خوف سے چپ رہنے کا مشورہ دینے والوں کی کوئی کمی نہیں ہوتی۔خیرخواہوں کے روپ میں بزدلی کا درس دینے والے نہایت دردمندی سے سمجھاتے ہیں کہ مقدمہ درج کروایا تو ناک کٹ جائے گی،جنہیں معلوم نہیں انہیں بھی خبر ہو جائے گی ،تھانے کچہری کی نوبت آ گئی تو عزت کا جنازہ نکل جائے گا،گویا عزت لٹنا معیوب نہیں اس کی خبر عام ہونا باعث ننگ و عارہے۔ ہم دن رات مشرقی تہذیب کی اخلاقیات کے گن گاتے ہیں۔اپنے معاشرے کی پاکدامنی پر اِتراتے ہیں۔پوری دنیا کو بتاتے ہیں کہ ہم اخلاقی و سماجی اعتبار سے یورپی معاشرے سے برتر ہیں۔سانحہ قصور کے آئینے میں اپنا بدنما چہرہ دیکھ کر بتائیں کہ کیسی کیسی غلاظتوں سے اٹا ہوا ہے اس سماج کا میک اپ زدہ چہرہ۔یہ کیسا جنسی ہیجان ہے کہ ان معصوم بچوں کی ویڈیوز پچاس پچاس روپے میں فروخت ہوتی رہیں۔سانحہ قصور نے ہمیں یہ تعین کرنے کا موقع فراہم کیا ہے کہ ان رویوں کے پیچھے قصور کس کا ہے؟کیا ان کے تانے بانے ہمارے جھوٹے اور منافقانہ تصور حرمت سے تو نہیں ملتے؟مجھے تو ان پر بھی تعجب ہو رہا ہے جو قصور میں بچوں سے زیادتی کے واقعات پر یوں حیرت زدہ ہیں جیسے یہ سب ان کے لئے نیا ہو۔ہر شہر،ہر کوچے ،ہر بازار کی یہی داستان ہے۔صرف گزشتہ برس بچوں سے جنسی زیادتی کے 3891واقعات رپورٹ ہوئے ۔یہ تو آپ جانتے ہی ہونگے کہ رپورٹ ہونے والے ہر ایک واقعے کے مقابلے میں پانچ واقعات ایسے ہوتے ہیں جو ہمارے ہاں رائج جھوٹے اور منافقانہ تصور حرمت کے بوجھ تلے دب جاتے ہیں۔جنسی زیادتی کے 42.5فیصد واقعات دیہات میں پیش آئے جبکہ 57.5فیصد واقعات شہروں میں رپورٹ ہوئے جہاں ’’لوگ کیا کہیں گے ‘‘ کا ظالمانہ تصور کسی حد تک کم ہے ۔وہ ثناء خوان تقدیس مشرق کہاں ہیں جنہیں جنسی تعلیم دینے پر اپنی اقدار و روایات سے بغاوت کی بو آتی ہے؟اس سے پہلے کہ آپ کا معصوم بچہ لاپروائی سے چلتا ہوا کسی تعفن زدہ مین ہول میں جا گرے اور ڈر کے مارے آپ سے کچھ کہہ بھی نہ پائے،اسے بتانا ہو گا کہ بڑوں کے پیار کی حد کہاں ختم ہوتی ہے اور کہاں سے نو گو ایریاز کا آغاز ہوتا ہے تاکہ کوئی شکاری جال بچھانے لگے تو من کے سچے بچے کے دل و دماغ میں خطرے کی گھنٹی بج اٹھے۔اس سے پہلے کہ زمانہ اپنے انداز میں اس کی تعلیم وتربیت کا اہتمام کرے ،آپ خود دوستانہ ماحول اور شفقت بھرے انداز میں اس کا تجسس دور کریں اور جسمانی ارتقاء کے مراحل سے آگاہ کریں ۔اپنے لخت جگر سے اپنائیت کا رشتہ استوار کریں تاکہ کسی بھی مشکوک حرکت کی صورت میں وہ آپ کو آگاہ کرنے سے نہ ہچکچائے ۔اگر اسے آپ کے تھپڑ کا ڈر ہو گا تو وہ ان ہوس کے پجاریوں کے پیار سے خوف نہیں کھائے گا۔اگر آپ اپنے بچوں سے پولیس جیسا برتائو کریں گے تو وہ اس معاشرے کے عام افراد کی طرح ایف آئی آر درج کروانے کیلئے تھانے کا رُخ نہیں کرے گا۔آپ اپنے بچوں کیلئے دن رات سخت محنت کرتے ہیں ،انہیں دنیا کی ہر نعمت ،ہر دولت ،ہر سہولت اور ہر آسائش مہیا کرتے ہیں۔موبائل فون سے لیپ ٹاپ تک سب کھلونے لا کر قدموں میں ڈھیر کر دیتے ہیں لیکن آپ کی اولاد کو ان سب چیزوں سے بڑھ کر خود آپ کی رفاقت ،توجہ اور قربت کی احتیاج ہے۔اپنے بچوں کیلئے وقت نکالیں ۔
اگر آپ ان کے بہترین دوست نہیں بن پائیں گے تو یہ خلاء کوئی اور اپنا پورا کرے گا ، اپنے کے روپ میں یہ شکاری کوئی بھی ہو سکتا ہے۔بچے کا استاد،کوئی قریبی رشتہ دار،ہمسایہ یا کلاس فیلو ۔ایک دن انہیں میں سے کوئی اپنائیت اور قربت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے آپ کے بچے سے اس کی معصومیت چھین لے گا اور آپ یہ سوچتے ہوئے کچھ نہیں کر پائیں گے کہ لوگ کیا کہیں گے۔اگر حفظ ماتقدم کے تحت اختیار کی گئی ان احتیاطی تدابیر کے باوجود کسی دن یہ قیامت خیز خبر ملتی ہے؎کہ آپ کے لخت جگر کو مُردار کھانے والے انسان نما گِدھوں نے نوچ ڈالا ہے تو بزدلوں کی طرح نام نہاد عزت بچانے کے بجائے ایسے درندوں کو نشان عبرت بنانے کے راستے کا انتخاب کریں ۔خاموش رہ کر گھات لگائے ان بھیڑیوں کو مزید شکار کرنے کا موقع فراہم کرنا ہے یا پھر شور و غوغا کے ہتھیار سے ان پر وار کرنا ہے ،فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے۔باقی رہا کمیشن بنانے کا معاملہ ،تو ہر شخص اپنے دل ودماغ میں جوڈیشل کمیشن بٹھائے اور ایک ہی سوال دہرائے کہ قصور کس کا ہے؟ کہیں ہمارے اس منافقانہ تصور حرمت کا تو نہیں۔
تازہ ترین