پاکستان کے قیام کا مقصد محض ایک ریاست کا حصول نہیں تھا بلکہ بقول قائد اعظم ؒ’’ ہمارے پیش نظر ایک ایسی آزاد اور خود مختارمملکت کا قیام ہے جس میں مسلمان اپنے دین کے اصولوں کے مطابق زندگی گزار سکیں ‘‘۔ بانیٔ ؒ پاکستان نے اپنے قریبا ً114خطابات اور تقریروں میں دوٹوک انداز میںاس عزم کا اظہار کیا تھاکہ پاکستان کا آئین و دستور قرآن و سنت کے تابع ہوگا۔جب ان سے سوال کیا گیا کہ پاکستان کا دستورکیسا ہوگا توانہوں نے فرمایاکہ ہمیں کسی نئے دستور اور آئین کی ضرورت نہیں، ہمارا دستور وہی ہے جو قرآن کی شکل میں اللہ تعالیٰ نے چودہ سو سال قبل ہمیں عطا کردیا تھا۔دستور پاکستان میںعوام کو بنیادی حقوق کی ضمانت دی گئی ہے اور پسماندہ اور محروم طبقوں کو بنیادی ضروریات زندگی کی فراہمی کی یقین دہانی کروائی گئی ہے، عام آدمی کے جائز مفادات کا تحفظ ،ہر شہری کی فلاح و بہبود اور ہر قسم کے استحصال کی بیخ کنی کے ساتھ ساتھ ریاست سے وفاداری کو بڑی اہمیت دی گئی ہے مگر قیام پاکستان کے ساتھ ہی ملک پر انگریز کا پروردہ وہی جاگیر دار طبقہ اقتدار پر قابض ہوگیا جس سے آزادی کیلئے لاکھوں مسلمانوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا تھا اور اسلامیان برصغیر نے انسانی تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت کی تھی ۔ملکی اقتدار پر مسلط اشرافیہ عوام کو غلام اور اپنا خدمت گزار بنا کر رکھنا چاہتا ہے ،اسمبلیوں میں بیٹھے ہوئے سیاسی پنڈت قانون کی حکمرانی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ان کی سیاست کا مرکز و محورہی اپنی ذات کو ہر قسم کی قانونی پابندیوں سے آزاد رکھنا ہے ۔ملک میں قانون کی بالادستی کا خواب اس وقت تک شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا جب تک خود صاحب اقتدار طبقہ اس کی پابندی نہیں کرتا اور کوئی بھی ریاست اس وقت تک جمہوری کہلانے کی حق دار نہیں جب تک کہ جمہور کی فلاح وبہبودکو مقدم نہیں سمجھا جاتا۔ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان کو ایک فلاحی ریاست بنانے کیلئے ہمیں اس کے بنیادی مقاصد کو پیش نظر رکھنا ہوگا۔پاکستان کی بنیاد ’’لا الہ الا اللہ ‘‘ہے اور ملکی خوشحالی اور عوامی فلاح و بہبود اسی نظریہ سے وابستہ ہے ۔
ہمیں اپنی آئندہ نسلوں کو قیام پاکستان کے اعلیٰ و ارفع مقاصد سے ہم آہنگ کرنے اور مملکت خداداد کوایک اسلامی و فلاحی ریاست بنانے کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کیلئے ضروری ہے کہ ہم دامے درمے سخنے تحریک پاکستان میں، پاکستان کے حصول کیلئے دی گئی بے مثال قربانیوں کی یاد کو زندہ و جاوید رکھیں اسی طرز پر قوم نئے سرے سے’’ تحریک تکمیل پاکستان‘‘ کا آغازکرے اسی طریقے سے نظریہ پاکستان اور آئین پاکستان کو سبو تاژ کرنے کی سازشوں کو ناکام بنا یا جاسکتا ہے ۔کسی بھی مملکت کے نظام کو چلانے کیلئے آئین کی بالادستی اور حکمرانی انتہائی اہمیت رکھتی ہے ۔ایک بین الاقوامی رپورٹ کے مطابق پاکستان قانون کی عملداری کے معاملہ میں 102ملکوں کی فہرست میں سے 98ویں نمبر پر ہے ۔قانون کی بالادستی نہ ہونے کی وجہ سے کرپشن ،غربت ،جہالت ،عدم توازن اور انتہا پسندی جنم لیتی ہے اور احتساب کے بغیر قانون کی حکمرانی بے معنی ہوکر رہ جاتی ہے۔ ہمارے عوام کی اکثریت صرف اس لئے اپنے حقوق سے محروم ہے کہ انہیں اپنی ذمہ داریوں اور حقوق کا علم نہیں اور اقتدار پر مسلط جاگیر دار ،وڈیر ے اور سرمایہ دار سوچے سمجھے منصوبہ کے تحت عوام کو جہالت کی تاریکیوں کا اسیررکھنا چاہتا ہے۔ پاکستان کا قیام کسی وقتی جوش یا جذباتی سوچ کا نتیجہ نہیں تھا بلکہ اس کے پیچھے مدینہ منور ہ کی اس اسلامی و فلاحی ریاست کا نمونہ اور سوچ کارفرما تھی جس میں ایک عام شہری کو بھی حاکم وقت کے برابر حقوق حاصل تھے۔جہاںفرمانروائے مملکت عوام کی خبر گیری کیلئے راتوں کوگشت کرتے تھے اور حاجت مندوںکی حاجت روائی کیلئے خدمت کے جذبہ سے سرشار ، عوام کے خادم اللہ کے سامنے جواب دہی کے خوف سے تھر تھر کانپنے والی ریاستی مشینری ہمہ وقت مصروف عمل نظر آتی تھی۔بلا شبہ اسلامی ریاست کا یہی نمونہ ان عظیم ہستیوں کے سامنے تھا جنہوں نے قیام پاکستان کی جدوجہد کو ایک مقدس ترین فریضہ جان کر پورا کیا ۔اللہ تعالیٰ نے ان قربانیوں کو قبول کیا اور انہیں پاکستان کی صورت میں ایک عظیم نعمت سے نوازاجو حضور ﷺ کی قیادت میں قائم ہونے والی مدینہ منورہ کی ریاست کے بعد کلمہ کی بنیاد پر خطہ ارضی پر معرض وجود میں آنے والی دوسری ریاست تھی۔قوم نے خالق ارض و سما ء سے ایک عہد باندھا تھا کہ اے ہمارے مالک !ہمیں ایک خطہ زمین عطا فرماجس میں ہم تیرے احکامات کے مطابق زندگی گزارسکیں اور تیری رضا و خوشنودی حاصل کرسکیں ۔اس عہد کے بعد انہوں نے بلاشبہ قربانیوں کی ایک تاریخ بھی رقم کی اور اللہ تعالیٰ نے ان کے جذبہء صادق کا پھل انہیں عطافرمایا لیکن اس کے بعد آج تک یہ مملکت خداداداس قوم کو ڈھونڈ رہاہے جس نے اللہ کے ساتھ عہد و پیمان باندھا تھا۔اب ریاست اور ملک تو ہے مگروہ قوم کہیں نظر نہیں آتی جس نے اپنی بے مثال قربانیوں،تاریخی جدوجہد اور مقصد سے وفاداری سے دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا تھا۔ہجرت کرنے والے قافلے جب لٹے پٹے اور زخموں سے چور پاکستانی سرحد پر پہنچتے تو والہانہ انداز میں زمین پر گر جاتے ،زمین کو چومتے اور بے ساختہ نعرہ تکبیر بلند کرتے اور سرحد کے اس طرف بیٹھے مہاجر ین کے قافلے لا الہ الا اللہ کے فلک شگاف نعروں سے جواب دیتے ،آنے والے اپنے پیاروں کو ملنے سے پہلے پاک سرزمین سے ملتے اور پاک مٹی کو چومتے ہوئے ہچکیوں اور سسکیوں میں کہتے ،ہم کامیاب ہوگئے ہیں ! قوموں کی شناخت ان کے عقائد ونظریات سے ہوتی ہے یہ نظریات ان کی پہچان بنتے ہیں اورجب کوئی قوم اپنے نظریے سے بے وفائی کرتی ہے تو صفحہ ہستی سے اس کا نام و نشان مٹا دیا جاتاہے ۔آج قوم کو ابہام میں مبتلا کرتے ہوئے کہا جا رہا ہے کہ پاکستان کا قیام صرف معاشی بنیادوں پر عمل میں آیا تھا ہندوستان میں مسلمان معاشی تنگ دستی کا شکار تھے اور انہیں سرکاری ملازمتیں نہیں ملتی تھیں اور ان کے ساتھ تعصبانہ رویہ رکھا جاتا تھابلاشبہ یہ سب کچھ اپنی جگہ بجا اور مسلمانوں کو معاشی تنگ دستی کا بھی سامنا تھا مگر خود قائداعظم ؒ نے برطانوی لارڈ سے گفتگو کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ ہندوئوں اور مسلمانوں کا نہ صرف تشخص الگ ہے بلکہ دونوں کا رہن سہن ،رسم و رواج ،کھانا پینا اور پہننابھی ایک دوسرے سے جدا ہے ۔علامہ محمد اقبال ؒ نے اپنے خطبہ الہ آباد میں ہندوئوں کے متحدہ قومیت کے نظریے کو پاش پاش کردیا اور فرمایا کہ مسلمان اور ہندو قومیت کی کسی بھی تعریف کے آئینے میں ایک نہیں ہوسکتے کہ خاص ہے ترکیب میں قوم رسولﷺہاشمی۔ جو لوگ اس طرح کی سوچ رکھتے ہیں انہیں اس حقیقت کو سامنے رکھنا چاہئے کہ ہندو ہر حال میں مسلمانوں پر اپنی حکمرانی چاہتا تھا ،آج بھارت میں مسلمانوں کی تعداد پاکستان سے زیادہ ہے مگر بھارتی لوک سبھا میں مسلمانوں کی نمائندگی اڑھائی فیصد سے زیادہ نہیں ،ہندوستان میں گائوماتا کے ذبح پر پابندی لگائی جارہی ہے اور مسلمانوں کے قتل عام، مساجد کے نذر آتش کرنے اور مسلمانوں کے گائوں اوردیہات جلانے کے سینکڑوں واقعات عالمی میڈیا کی زینت بنتے رہتے ہیں ۔
اس لئے ہمیں دوبارہ اپنی اسی بنیاد اور اساس کی طرف لوٹنا ہوگا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان کو ایک ترقی یافتہ اور خوشحال پاکستان بنانے کیلئے ضروری ہے کہ قوم اس کو حقیقی اسلامی و فلاحی ریاست بنا نے کی جدوجہد کرے اور ایک بار پھر تحریک پاکستان کے جذبہ سے ’’تحریک تکمیل پاکستان ‘‘کیلئے اٹھ کھڑی ہو۔اسلام ہی اس ملک کی بنیاد و بقا ہے !پاکستان اللہ تعالیٰ کا ایک انعام ہے ہم نے اگر اس کی قدر نہ کی اورپورے اخلاص اور نیک نیتی سے اللہ تعالیٰ کے ساتھ باندھے گئے اپنے عہد کو پورا نہ کیا تو خدا نخواستہ اس کے بہت بھیانک نتائج سامنے آئیں گے اور آج ہمیں جن گھمبیر بحرانوں اور مسائل کا سامنا ہے ان میں مزید اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔