ہم سب لوگ سیاست پر گھنٹوں بحث کرتے رہتے ہیں۔ کوئی گھر لے لیں یا دفتر یا دکان ہر جگہ سیاست ہی پسندیدہ موضوع ہوتا ہے جس پر ہم بات کرتے نہیں اکتاتے۔ بہت کم ہوتا ہے کہ ہم معیشت پر بھی غورکریں اور اسے زیر بحث لائیں شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم میں سے بہت سوں کو اس کے بارے میں کچھ زیادہ سمجھ بوجھ نہیں ہے۔ ہم روزانہ اس بات میں بڑی دلچسپی کا اظہار کرتے ہیں کہ سابق صدر اور پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) کے سربراہ آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو نے کس کی اینٹ سے اینٹ بجانے کی بات کی ہے، ہم یہ دیکھتے ہیں کہ چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان نے کون سے نئے دھرنے کی کال دی ہے، ہم اس پر بھی غور کرتے ہیں کہ جمعیت علماء اسلام (ف) مولانا فضل الرحمن اب کس کس کی مفاہمت کرا رہے ہیں اور کب یہ پالیسی ترک کر رہے ہیں ، ساتھ ساتھ ہمارے لئے اس میں بھی دلچسپی ہوتی ہے کہ متحدہ قومی موومنٹ اب نئے کیا گل کھلا رہی ہے اور ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ حکمراں جماعت کے ترجمانوں نے اپنے مخالفین پر کیا تیر برسائے ہیں۔ ہمارا سارا وقت انہی معاملات کو زیر بحث لانے میں گزر جاتا ہے اور حاصل کچھ بھی نہیں ہوتا۔ چاہے عمران خان ہو یا آصف زرداری یا فضل الرحمن یا الطاف حسین کوئی بھی معاشی معاملات پر بات نہیں کرتا۔ اگرچہ انہیں معیشت کا زیادہ ادراک نہیں ہے مگر ان کے پاس ماہرین تو موجود ہیں جو انہیں اس کے بارے میں بریف کرسکتے ہیں مگر اکثر یہ ہوتا ہے کہ ہمارے سرکردہ سیاست دان ملک کے معاشی معاملات میں زیادہ دلچسپی نہیں لیتے۔اس انتہائی سیاست زدہ ماحول میں وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار نے ایک بہت ہی احسن تجویز دی ہے کہ اپوزیشن حکومت کے ساتھ مل کر چارٹر آف اکانومی بنائے۔ ہمارے خیال میں کوئی بھی سیاست دان ان کی اس بات پر شاید ہی توجہ دے کیونکہ معیشت ان کی ترجیح نہیں ہے حالانکہ پاکستان میں جس مسئلے پر مکمل اتفاق رائے کی اشد ضرورت ہے وہ ہے معاشی پالیسیاں اور ان کا تسلسل جس کو حکومتوں کے بدلنے سے تبدیل نہیں ہونا چاہئے۔ دنیا کے باقی ممالک کو لیں تو ان کی ترقی کا راز ہی اس میں ہے کہ حکومت کے بدلنے کے ساتھ پالیسیوں میں کوئی بہت بڑی انقلابی تبدیلی نہیں آتی۔ وہاں سیاست بھی ہوتی ہے مگر ساری توجہ اس پر نہیں بلکہ معیشت پر ہوتی ہے۔ وزیر خزانہ کا کہنا ہے کہ معیشت کے استحکام کیلئے بڑی محنت کی ضرورت ہے سب کو مل کر پاکستان کا کھویا ہوا مقام حاصل کرنا ہوگا امید ہے کہ پاکستان کی معیشت کا 2050ء کا ہدف وقت سے پہلے حاصل کر لیں گے۔ جہاں تک محنت کی بات ہے تو نہ صرف وزیراعظم بلکہ عسکری قیادت بھی اسحاق ڈار کی دن رات کوششوں کی معترف ہے جو معیشت کو بہتر کرنے کیلئےوہ کر رہے ہیں۔ 1999ء کے پرویزمشرف کے مارشل لاء کے بعد جب اسحاق ڈار کو قید کیا گیا تو اس وقت بھی فوجی جنرلز ان سے ملاقاتوں کے دوران انہیں اپنی خدمات حکومت کو دینے کا کہتے رہے۔ انہوں نے یہ اس وقت کہا جب اسحاق ڈار کے خلاف ہر قسم کی تفتیش کر لی اور اس نتیجے پر پہنچے کہ انہوں نے بطور وزیر خزانہ کوئی معمولی سا بھی غلط کام نہیں کیا تاہم اسحاق ڈار نے حکومت کا حصہ بننے سے صاف انکار کر دیا تھا۔ یہ اسحاق ڈار کی پروفیشنل اسٹینڈنگ اور ایمانداری کی بدولت ہی ہوا کہ جب 2008ء میں کچھ عرصہ کیلئے نون لیگ کے کچھ لیڈروں کو آصف زرداری کی حکومت کی کابینہ میں شامل کیا گیا تو انہیں وزارت خزانہ کا قلم دان ہی سونپا گیا۔ اپنی انتھک محنت کی وجہ سے ہی اسحاق ڈار کو موجودہ حکومت کا ’’چیف لیبرر‘‘ کہا جاتا ہے۔ ان کا کوئی ’’ڈے آف‘‘ نہیں ہے یہاں تک کہ ہفتہ اور اتوار جب کہ وفاقی حکومت میں چھٹی ہوتی ہیں کو بھی وزیر خزانہ کے دفتر میں اسی طرح ہی کام ہوتا ہے جس طرح کے ورکنگ ڈیز میں۔
کچھ عرصے سے آصف زرداری ، بلاول اور پی پی پی کے کچھ دوسرے سینئر رہنما وزیراعظم نوازشریف پر سخت تنقید کے تیر برسا رہے ہیں اور بار بار کہہ رہے ہیں کہ انہوں نے مفاہمت کی پالیسی کو خیر باد کہہ دیا ہے۔ وہ سندھ میں کچھ سرکردہ لوگوں کی کرپشن کے الزامات میںگرفتاریوں پر غصہ جھاڑ رہے ہیں حکومت پر۔ ان کی کوشش ہے کہ ایسا احتساب بند کیا جائے اور ملک پرانی ڈگر پر ہی چلتا رہے۔ نون لیگ کے وزراء اور لیڈر نے پی پی پی کے تندو تیز بیانات کا جواب دیتے رہے ہیں مگر وزیراعظم نے اپنے آپ کو اس سے دور ہی رکھا۔ آخر کار انہوں نے اپنے روایتی نرم لہجے میں صرف اتنا کہا کہ آصف زرداری کے بیان پر دکھ ہوا ہے اور وہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ انہوں نے ایسا کیوںکہا، ہم تو سب کو عزت دیتے ہیں اور ساتھ لے کر چلتے ہیں ،کراچی آپریشن کسی سیاسی جماعت کے خلاف نہیں اس کا ٹارگٹ تو صرف دہشت گرد ہیں اسے سیاسی رنگ نہ دیا جائے ،قومی دولت لوٹنے والوں کا بلاامتیاز احتساب جاری رہے گا، ہماری پنجاب میں حکومت تھی تو گورنر راج لگایاگیاتھا لیکن ہم نے کسی صوبے کے معاملات میں مداخلت نہیں کی اور آصف زرداری کی بحیثیت صدر ریٹائرمنٹ پر ان کے اعزاز میں تقریب منعقد کی تھی۔
یہ بات آصف زرداری کو بھی معلوم ہے کہ سندھ میں جو آپریشن چل رہا ہے اس کی سختی میں کسی طریقے سے بھی کمی نہیں آئے گی چاہے سابق صدر اور الطاف حسین جتنا مرضی شور مچا لیں کیونکہ سول اور عسکری قیادت میں مکمل اتفاق ہے کہ ہر صورت اس آپریشن کو منطقی انجام تک پہنچانا ہے۔ تاہم یہ بات انتہائی اطمینان بخش ہے کہ باوجود اس کے کہ آصف زرداری اپنے قریبی ساتھیوں کے خلاف ہونے والی کارروائیوں سے بہت ناراض ہیں اور پی پی پی کے دوسرے لیڈر بھی ان کی ہاں میں ہاں ملاتے ہیں مگر ان میں سے کوئی بھی ٹارگٹ کلرز، بھتہ خوروں، اغواء برائے تاوان اور دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کا مخالف نہیں ہے بلکہ سب اس کی پرزور حمایت کرتے ہیں لیکن وہ چاہتے ہیں کہ رینجرز ایک دائرے میں رہیں اور ان کے مالی معاملات اور مفادات کو نقصان نہ پہنچے۔ وزیراعظم کی طرف سے بار بار اس بات کی وضاحت کی گئی ہے کہ وہ آپریشن کے کسی بھی پہلو کو روکنے کیلئے کوئی کردار ادا نہیں کریں گے اور رینجرز، ایف آئی اے اور نیب کو کھلی چھٹی ہے کہ وہ قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنی کارروائیاں جاری رکھیں۔ سندھ حکومت کا مطالبہ ہے کہ ایف آئی اے اور نیب کو روکا جائے اور یہ کہ صرف سندھ کو ہی کیوں نشانہ بنایا جارہا ہے اس طرح کی کارروائیاں پنجاب میں کیوں نہیں کی جا رہیں۔ یہ بھی اطمینان بخش بات ہے کہ پی پی پی نے کچھ دوسری پارٹیوں کی طرح اپنے مطالبات منوانے کیلئے اپنے ارکان کے اسمبلیوں سے مستعفی ہو جا نے کی دھمکی نہیں دی بلکہ اس کا کہنا ہے کہ وہ اسمبلیوں میں رہ کر اپنی آواز بھرپور انداز میں بلند کریں گے اور وزیراعلیٰ سید قائم علی شاہ ہر سرکاری فورم پر یہ کہیں گے کہ سندھ کے ساتھ ناروا سلوک رکھا جارہا ہے۔ یقیناً یہ ایک جمہوری طریقہ ہے نہ کہ ہر بات پر یہ دھمکی دے دینا کہ ہم اسمبلیوں سے مستعفی ہو جائیں گے۔