خود نمائی کا کچھ ایسا شوق تو نہیں ہے مگر میرے ٹیلی ویژن ڈرامے’’دشت‘‘ کی آخری قسط اور گوادر کی بندرگاہ پر لنگرانداز ہونے والے پہلے چینی سمندری جہاز کے درمیان فاصلے کو ذہن میں رکھیں تو یہ جہاز آخری قسط میں لنگرانداز ہوا تھا اور یہ گزشتہ صدی کے آخری سالوں کی بات ہے۔ ’’فنکشن‘‘ اور’’فیکٹ‘‘ کے درمیان فاصلے کو ذہن میں رکھیں تو اس وقت کا خیال اب عملی روپ اختیار کرنے میں کامیاب ہوا ہے۔دشت کی کہانی میں نے تب سے سوچنا شروع کردی تھی جب پہلی بار ٹیلی ویژن کی پروڈیوسر شریں پاشا اور ان کے شوہر کمال پاشا کے ساتھ گوادر گیا تھا اور میرے سامنے ایک نئی اور خوبصورت سچائی نے اپنے چہرے سے پردہ ہٹایا تھا اور سراسمیگی کی حد تک حیران ہوا تھا اور پروفیسر دھانی بھی یاد کرتے تھے جنہوں نے بتایا تھا کہ گوادر کا علاقہ اور ساحل سمندر کے اندر تیرنے والے دو براعظموں کے صدیوں پہلے آپس میں ٹکرانے یا ملاقات کرنے کی وجہ سے سمندر سے باہر آیا تھا، چنانچہ یہاں وہ مناظر بھی دیکھنے کو ملتے ہیں جو صدیوں پہلے سمندر کی گہرائی میں گم ہوگئے تھے۔ گوادر کے پاس سمندر کی گہرائی اتنی ہے کہ بڑے سے بڑا سمندری جہاز بھی لنگر انداز ہوسکتا ہے ا ور پیچھے اتنی زیادہ وسعت ہے کہ کراچی جتنا بڑا شہر تعمیر ہوسکتا ہے جو بلوچستان صوبے اور بلوچ قوم کی تقدیر بدلنے کا کام کرسکتا ہے ،ان کے مستقبل کی قلت اور نایابی کو بہتات، فراوانی، خوش حالی اور خوش نصیبی فراہم کرسکتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی یہ بھی ذہن میں آیا کہ؎پھول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگرمرد ناداں پر کلام نرم و نازک بے اثربہت ہی کرخت مردانہ سوسائٹی میں ایک محبت اور پیار کرنے والی بلوچ شاعرہ کے پھولوں کی پتیوں جیسے کلام سے ہیروں کے جگر کاٹنے کا کام لیا گیا اور یہ شاعرہ تین بلوچ قبیلوں کی سردار بن گئی۔ اداکارہ عتیقہ اوڈھو نے یہ کردار خوبصورتی سے ادا کیا تھا اور دشت کی آخری قسط میں گوادر کی بندر گاہ پر جہاز لنگر انداز ہونا شروع ہوگئے تھے اور یہ بندرگاہ اپنے علاقے کے لوگوں کی قسمت بدلنے میں مصروف دکھائی گئی تھی۔دشت کے پروڈیوسر اداکار عابد علی فرماتے ہیں کہ وہ دشت کی دوسری قسط تیار کرنے کی خواہش بھی رکھتے ہیں مگر اب شاید میرے پاس اتنی انرجی اور اس قدر وقت بھی نہیں ہوگا مگر میری جگہ میدان عمل میں آنے والے اور بہت سے لکھنے والے ہوں گے جو اس فرض کی مجھ سے بھی بہتر ادائیگی کرسکتے ہوں گے اور اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا............معاشروں کے بننے اور بگڑنے اور بگڑ کر دوبارہ بننے کا موضوع بہت زیادہ اہمیت رکھتا ہے اور اس پر سنجیدگی سے کام ہونا چاہئے۔ ہمارے معاشرے کے بہت سے پہلو ہماری فوری اور سنجیدہ توجہ چاہتے ہیں جس کے ذریعے عوام اپنے مستقبل کو سنوارنے کے فرائض بھی ادا کرسکتے ہیں۔دنیا اور عالمی اقوام میں اپنے وجود کی خوشبو بھی پھیلا سکتے ہیں۔ یہ خوشبو مجھے گوادر کے ساحل پر بحیرہ عرب کی تازہ خالص ہوائوں میں سونگھنے کو ملی تھی اور ابھی تک ذہن میں بسی ہوئی ہے۔ کوئی بہترین یوڈی کلون بھی اس خوشبو کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔
.