پاکستانی اس وقت مختلف بحرانوں کی زد میں ہے جبکہ ان تمام بحرانوں میں ”قیادت کا بحران“ سب سے اہم ایشو ہے کیونکہ جب کوئی قوم دبنے لگتی ہے تو قیادت ہی آگے بڑھ کر اسے ڈوبنے سے بچاتی ہے۔ قوموں کی تقدیر بدلنا انہیں آنے والے خطرات سے آگاہ رکھنا اور طوفانوں سے بچانا بلاشبہ ایک باصلاحیت اور پر اعتماد قیادت ہی کا کام ہوتا ہے۔ پاکستان کا معرض وجود میں آنا قائد اعظم اور اس دور کے دیگر مسلمان رہنماؤں اور قائدین کا عظیم کارنامہ اور بہترین صلاحیتوں کا مظاہرہ ہے جبکہ ”سقوط ڈھاکہ“ ہمارے اس وقت کے سیاستدانوں اور حکمرانوں کی نااہلیوں اور حماقتوں کا ایک بدترین نمونہ ہے تاہم زندہ قوم کی حیثیت سے ہم اپنی آزادی اور خودمختاری پر لگائی گئی ضربوں اور زخموں کو دیکھتے اور چاٹتے ہوئے آج 1947ء سے 2008ء تک کا سفر کرچکے… ماضی ہمارا جیسا ویسا گزر گیا لیکن مستقبل بہتر اور زیادہ محفوظ ہونا چاہئے یہ خواہش یقیناً ایک عام پاکستانی سے لیکر تمام محب وطن سیاستدانوں اور حکمرانوں کی ہوگی اور ہونی بھی چاہئے لیکن ہم دیکھ رہے ہیں کہ اگر حکمرانوں سمیت تمام سیاستدانوں کے جذبہ حب الوطنی کا اعتراف بھی کرلیا جائے تو بھی کم از کم اس بات سے سب ہی کو اتفاق ہوگا کہ ہمارے وہ سیاستدان جنہیں بالخصوص ”مقبول عوام“ کہا جاتا ہے یا یہ کہ جنہیں 18 فروری کے عام انتخابات میں عوام کی طرف سے ”بھاری مینڈیٹ“ ملا وہ پوری طرح اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ نہیں کر پا رہے… پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی قیادت سے عوام کو جو بجا طور پر توقعات تھیں وہ حکومت سازی کا مرحلہ مکمل ہوجانے کے بعد چار ماہ ہوچکے مگر پوری نہیں ہوئیں ۔ جناب زرداری یا ان کی پارٹی کی پالیسیاں جیسی ہیں ویسی ہی ہونی چاہئیں کیونکہ ہم جیسے وہ تمام سیاسی کارکن جو پارٹی کے سیاسی کلچر اور انداز حکومت سے بخوبی واقف ہیں ان کے نزدیک پارٹی کا ریکارڈ کوئی نیا انکشاف نہیں۔ تاہم جو بات اہم ہے اور جسے زیر بحث آنا چاہئے وہ مسلم لیگ ن کی قیادت کے حوالے سے ہے۔
عزت مآب جناب میاں محمد نواز شریف بلاشبہ پاکستانی کے مقبول عوام رہنما ہیں دو مرتبہ وزیر اعلیٰ اور دو مرتبہ وزیر اعظم رہنے کا بھی انہیں اعزاز حاصل ہے اس طرح سے ان کے چھوٹے بھائی میاں شہباز شریف بھی دوسری مرتبہ وزارت اعلٰی کے منصب پر فائز رہ چکے ہیں یوں سیاست میں ”شریف فیملی“ کے نام سے متعارف ہونے والا خاندان وزارت عظمیٰ سے لیکر پنجاب کی وزارت اعلیٰ تک بار بار ”منتخب قیادت“ کی حیثیت سے جس طرح برسر اقتدار آتا رہا ہے اور اب بھی ہے یقیناً اس فیملی کا شاندار سیاسی کیرئیر ہے جسے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا… لہذا آج جب ہم پاکستان کو لاحق خطرات اور قوم کو مختلف بحرانوں میں ڈوبتے اور غوطے کھاتے دیکھ رہے ہیں تو ایسے میں میاں نواز شریف کی قیادت کی طرف متوجہ ہونا یاکہ ان سے توقعات وابستہ کرنا کوئی غلط بات نہیں ہوگی بلکہ یہ سیاسی ضرورت کا درست حوالہ ہوگا کہ میاں صاحب کو آگے بڑھ کر ایک تاریخ ساز اور یادگار کردار کرتے ہوئے ملک اور قوم کی کشتی کو جو بھنور میں بری طرح پھنس چکی ہے نکالنے کی کوشش کرنی چاہئے… لیکن اس حقیقت اور سچائی سے بھی انکار نہیں کہ میاں نواز شریف صاحب کی قسمت نے جتنا ساتھ دیا اور عوام نے ان پر جتنا اعتماد کیا وہ (میاں صاحب) اپنی خواہش اور کوشش کے باوجود ایک ایسے رہنما کے طور پر نہ ابھر سکے کہ جو ملک اور قوم کو خطرات اور بحرانوں سے نکالنے کیلئے ”فیصلہ کن کردار“ ادا کر پاتے بلکہ سچ تو یہ ہے کہ میاں صاحب کی مسلسل غلطیاں جہاں انہیں دو مرتبہ اقتدار سے قبل از وقت محروم اور جیل سمیت جلاوطنی جیسی اذیت سے گزارنے کا سبب بنی وہیں پر ان کی پاکستان واپسی کے بعد انتخابات میں حصہ لینے سمیت آج کی صورتحال کا تجزیہ یہ بتاتا ہے کہ ملک میں موجودہ تمام بحرانوں کو پیدا کرنے کے ذمہ دار اگر جنرل مشرف اور آصف زرداری ہیں تو ان بحرانوں کو برقرار رکھنے کی ذمہ داری میاں نواز شریف پر عائد ہوتی ہے کیونکہ سیاست اور حکومت میں یہ بات بڑی واضح ہوتی ہے کہ براہ راست غلطیوں کا ارتکاب کرنا اور ان غلطیوں یا غلط فیصلوں کو روکنے کی طاقت رکھنے والے کا کوئی کردار ادا نہ کرنا، برابر کے ذمہ دار تصور کئے جاتے ہیں… یہاں غلطیوں کی بھی فہرست بیان کرنا ضروری نہیں محض چند نکات پر ہی بات ہوگی اور وہ یہ کہ کیا یہ حقیقت نہیں کہ 12 اکتوبر 1999ء کو غیرآئینی طور پر جس طرح سے میاں صاحب کی حکومت کو برطرف کیا گیا تھا اس وقت سے لیکر آج تک میاں صاحب جنرل مشرف کے خلاف کوئی بھی عوامی تحریک منظم کرنے میں ناکام رہے…؟ کیا یہ بھی سچ نہیں کہ لندن APC میں اپوزیشن نے میاں صاحب کی جو عزت افزائی اور حوصلہ افزائی کی میاں صاحب نے APDM کے بائیکاٹ کے متفقہ فیصلے سے انحراف کرکے نہ صرف ان تمام رہنماؤں کو دھوکہ دیا بلکہ جمہوریت کی مکمل بحالی کا موقع بھی ضائع کردیا…؟ میاں صاحب کا بیان ریکارڈ پر ہے کہ اگر ہم بائیکاٹ کرتے تو جنرل مشرف ایک ہفتے میں رخصت ہو جاتے سوال یہ ہے کہ جب یہ سب کچھ معلوم تھا تو بائیکاٹ کیوں نہیں کیا گیا…؟ کیا یہ بات درست نہیں کہ APDM کے بغیر انتخابات میں حصہ لینے کا مطلب ایوان صدر اور امریکی سفارتخانے کی خواہش کے عین مطابق تھا…؟ پیپلز پارٹی تمام تر تحفظات کے باوجود عام انتخابات میں کیوں حصہ لینا چاہتی تھی اس کے مقاصد و عزائم اور خفیہ ڈیل سے میاں صاحب بخوبی آگاہ تھے پھر بھی پی پی قیادت کے اصرار پر انتخاب میں حصہ لینا بعد ازاں کابینہ میں شامل ہونا، ن لیگ کے وزراء کا صدر مشرف کے سامنے حلف اٹھانا، اعلان مری پر عمل درآمد نہ ہونا مگر اس کے باوجود دبئی اور لندن تک مذاکرات کرتے رہنا، ججوں کی بحالی پر اصولی موقف مگر بجٹ میں 29ججوں کی تعداد کی حمایت، وکلاء کے لانگ مارچ کو نتیجہ خیز بنانے میں مدد دینے کے بجائے انہیں دھرنے کے بغیر اسلام آباد سے خالی ہاتھ لوٹنے کا مشورہ دینا، پی سی او ججوں سے نااہلی رلیف لینے کیلئے اپنے وکلاء کو سپریم کورٹ میں پیش کرنا، ڈاکٹر قدیر خان کی نظربندی کے حوالے سے کوئی بڑا فیصلہ نہ کرنا بلکہ معاملے کو جوں کا توں رہنے دینا، لندن APC سے انحراف مگر خاموشی، میثاق جمہوریت، لندن اے پی سی کا مشترکہ اعلامیہ APDM کے فیصلے اور اعلان مری کے بعد اعلان لاہور سمیت کسی ایک اعلامیے یا اعلان کے مطابق صورتحال کا سامنے نہ آنا، صدر مشرف کے مواخذے کا مطالبہ نہ کرتے رہنا مگر اس کیلئے اتحادیوں کو کوئی ڈیڈ لائن نہ دینا اور نہ ہی اپنے طور پر کوئی پیش رفت کرنا، بلوچستان اور صوبہ سرحد میں جاری آپریشنز پر تحفظات کا اظہار کرنا مگر ان کی مذمت یا مخالفت میں کوئی مظاہرہ یا تحریک چلانے کا اعلان نہ کرنا حالانکہ میاں صاحب خوب جانتے ہیں کہ مذکورہ آپریشن پاکستان کی جغرافیائی سلامتی اور قومی اتحاد کیلئے انتہائی خطرناک اور نقصان دہ ہیں۔ امریکی سفارتخانوں سے ملاقات کے دوران اور میڈیا کے سامنے دئیے گئے انٹرویوز میں درست قومی موقف بیان کرنا مگر عملاً دوسری پالیسی کو فالو کرتے رہنا۔ پیپلز پارٹی اور زرداری سے قدم قدم پر اختلاف رکھنے کے باوجود ان کے ساتھ قدم ملا کر چلنا، مہنگائی، بے روزگاری، لوڈ شیڈنگ اور امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتحال پر کسی بڑے ردعمل کا سامنے نہ آنا، جبکہ یہ بات بھی ریکارڈ پر ہے کہ موجودہ منتخب حکومت میں سب سے پہلے تیل کی قیمتوں میں اضافے کا اعلان آپ ہی کے قریبی عزیز اور پارٹی رہنما جناب اسحاق ڈار نے وزیر خزانہ کی حیثیت سے کیا۔ حکمران اتحاد جس کا میاں صاحب ایک طاقتور حصہ ہیں کیا یہ اتحاد امریکی مداخلت کو روکنے اور صدر مشرف کو اقتدار سے ہٹانے کیلئے کوئی واضح پالیسی اختیار کررہا ہے یا یہ کہ دونوں حالتوں کو برقرار رکھنے میں مصروف ہے…؟
یہ تمام فیصلے، اقدامات، پالیسیاں اور ترجیحات درحقیقت میاں صاحب کی شخصیت اور قیادت پر عوام کے اعتماد کو نہ صرف مجروح کررہی ہیں بلکہ سیاسی پختگی، معاملہ فہمی، قوت فیصلہ اور جرات جیسے اوصاف کے فقدان کی نشاندہی بھی ہے۔ پاکستان مزید خطرات میں اور قوم مزید دلدل میں اترتی جارہی ہے کیونکہ میاں صاحب جنہوں نے ایک طرف حکمران اتحاد کا قبلہ درست رکھنا تھا، دوسری طرف صدر مشرف کے اقتدار سے علیحدگی اور امریکی مداخلت کو روکنے کیلئے اصولی، بروقت اور ٹھوس فیصلے کرنے تھے ان میں میاں صاحب عوامی حمایت رکھنے کے باوجود عوام کو متحرک نہ کرسکے، عوامی تائید کو حکومت پر دباؤ ڈالنے کیلئے استعمال نہ کرسکے۔ سیلاب کے اندر تیرنا شاید میاں صاحب نے سیکھ لیا ہے لیکن اس کا رخ موڑنا یقینا اب تک نہیں آیا۔ انہوں نے جس دوستی کے ساتھ خود کو جوڑ لیا ہے اس کا ہر جوڑ امریکی سفارتخانے اور ایوان صدر نے جوڑا ہے جس میں میاں صاحب کو بھی دھوکے ساتھ جوڑ لیا گیا ہے حالانکہ پاکستان کی موجودہ حالات اور سیاست کا تقاضا یہ تھا کہ میاں صاحب ان کا جوڑ نہیں بلکہ توڑ تھے مگر میاں صاحب کو یہ بات سمجھ میں نہیں آئی اور وہ ان کا جوڑ بنکر ان کا APDM توڑ کررہے ہیں کہ جو پاکستان کی آخری امید ہیں… کتنی حیرت کی بات ہے کہ جماعت اسلامی، تحریک انصاف اور دیگر قوم پرست جماعتیں جن کے پاس ”بھاری مینڈیٹ“ نہیں ہے وہ تو اس حقیقت کو سمجھ گئی تھیں کہ پاکستان کا سیاسی، آئینی، عدالتی اور انتظامی بحران کس طرح سے حل ہوگا، پاکستان کی آزادی کے تحفظ، داخلی و مختاری اور ناقابل تسخیر دفاع کیلئے کیا کچھ کرنا ہوگا مگر میاں صاحب جیسی قد آور شخصیت اور بھاری مینڈیٹ کی حامل پارٹی کو اب تک یہ سمجھنا مشکل ہورہا ہے کہ پاکستانی کو لاحق خطرات اور بڑھتے ہوئے بحرانوں پر کس طرح قابو پایا جاسکے گا…؟ یہ سب سے بڑا المیہ اور بحران ہے کہ ”قیادت“ قیادت کے معیار پر پورا اترنے کی پوزیشن میں نہیں۔