• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بھارت کے فوجی سربراہ جنرل دلبیر سنگھ سہاگ نے پاکستان کو محدود جنگ کی دھمکی دی ہے۔ برصغیر کے ڈیڑھ ارب انسانوں کو ایٹمی جنگ کا ایندھن بنانے کی بجائے محدود جنگ ایک اچھا’’آپشن‘‘ ہوسکتی ہے،جنرل دلبیر سنگھ محدود جنگ (Limited War)کی وضاحت کردیں تو ان کا چیلنج قبول کرنے میں آسانی ہوسکتی ہے۔ ان کی تجویز کردہ جنگ ڈوئیل "Duel"ہوگی مبارزت یا’’رن کچھ‘‘ اور کارگل کی طرح مخصوص علاقے میں لڑی جائے گی۔ ڈوئیل ملکہ وکٹوریہ کے عہد تک مغربی یورپ اور روس میں لڑی جاتی رہی ۔ دو افراد کے مابین یکساں نوعیت کے ہتھیاروں سے لڑی جاتی۔ ابتداء میں اس لڑائی کے لئے چھوٹی تلوار استعمال ہوتی۔ آتشیں اسلحہ آجانے پر یہ پستول سے لڑی جانے لگی۔ صرف فرانس میں ایک محدود مدت میں اس طرح کے دس ہزار مقابلے ہوئے جس میں تقریباً چار ہزار افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے، یورپی اشرافیہ اپنی عزت اور و قار کے لئے میدان میں اترتے۔ اکثر اوقات محبوبہ کی رقابت، جائیداد کے جھگڑے، فوری اشتعال بھی اس کی وجہ بن جاتے۔ اس طریقہ جنگ میں فائدہ یہ ہے کہ دوست احباب، خاندان، برادری دشمنی کا شکار ہونے سے بچ رہتی۔ دو دشمنوں میں مقابلے سے ایک گیا اور دشمنی بھی گئی۔ مبارزت بھی دلیرانہ جنگ کی اعلیٰ مثال ہے جس میں ایک فریق لازماً موت کے گھاٹ اتر جاتا ہے۔
خونی مقابلے کی یہ قسم روم، ایران، عربوں میں مروج تھی۔ حریف لشکر جنگ کے لئے تیار ہو کر نکلتے تو ایک یا ایک سے زیادہ ماہر جنگ باز،نیزے اور تلوار کےدھنی بہادر اپنی صفوں سے آگے بڑھ کر دشمن میں سے بہادروں کو للکارتے، ان کے چیلنج کا لازماً جواب دیا جاتا اور دشمن لشکر سے بھی بہادر سامنا کرنے کو نکلتے، ایک بہادر کے خاتمے تک یہ مقابلہ جاری رہتا۔ اس انفرادی مقابلے کے بعد گھمسان کی جنگ شروع ہوجاتی۔ انفرادی مقابلے میں کامیابی کو نیک شگون سمجھا جاتا تھا۔
مسلمانوں کی تاریخ میں مبارزت کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ اسلام کی پہلی جنگ یعنی جنگ بدر میں ابتداء مبارزت سے ہوئی۔ بدر کے میدان جنگ میں کفار مکہ کے تین بہترین شہسوار نکلے ۔ یہ ربیعہ کے بیٹے عتبہ اور شیبہ تھے،تیسراولید جو ربیعہ کا پوتا تھا۔ ان کا مطالبہ تھا کہ انصار مدینہ کی بجائے خاندان قریش کے مسلمان مقابلہ کریں۔ رسول اکرمؐ نے اپنے چچا حضرت حمزہؓ ، چچا زاد علی المرتضیؓ اور عبیدہؓ بن حارث کو مقابلے کے لئے بھیجا۔ جلد ہی بدر کا میدان تین کا فروںکے خون سے سرخ ہوگیا۔ حضرت حمزہؓ اور حضرت علیؓ نے تینوں کو تلوار کے گھاٹ اتاردیا، حضرت عبیدہؓ زخمی ہو کر لوٹے ۔ یہ نیک شگون مسلمانوں کی شاندار فتح کی نوید بنا۔ اسلام کی تاریخ میں دوسری اہم ترین مبارزت جنگ خندق کی ہے جب دنیائے عرب کا سب سے طاقتور، بہادر اور ماہر جنگجو عمرو بن عبدوداپنے گھوڑے کی پیٹھ پر خندق عبور کر آیا تھا عمرو کو عربوں میں ایک ہزار جنگجو سواروں کے برابر مانا جاتا ہے۔ اس خندق کو عبور کرکے مبارزت کی دعوت دی۔ حضرت علیؓ شیر خدا جو ابھی نو عمر تھے اس سورما کے مقابل آئے اور تلوار کے ایک وار میں اس کا سر تن سے جدا کردیا علی المرتضیٰؓ کی اسی ضرب کو ’’ضرب یداللٰی‘‘ کہا جاتا ہے۔
اسلام کے دامن میں بس اس کے سوا کیا ہے
اک ضرب یداللٰہی اک سجدہ شبیری!
مبارزت یعنی چیلنج دیامقابلہ ہمیشہ مسلمانوں کے لئے اچھا شگون ثابت ہوا، اگر انڈیا کے فوجی سربراہ کو خود پر اپنی بہادری، مہارت، طاقت پر مکمل بھروسہ ہے تو آئیں، اسی طرح کا کچھ مقابلہ ہوجائے تاکہ دونوں قومیں خوں ریزی، قتل عام اور ایٹمی جنگ کی ہولناکی سے محفوظ رہیں۔ باقی رہی محدود جنگ(Limited War)تو یہ کارگل کی طرز پر ہوگی یا آپ کی مرضی کے میدان جنگ’’رن آف کچھ‘‘ کی طرح۔ یہ بھی قبول کیا جاسکتا ہے کہ آخری فیصلہ دلبیر سنگھ سہاگ کو سونپ دیا جائے۔ زمین، فضا، سمندر وہ اپنی مرضی کامیدان منتخب کرلیں کیو ں نہ اس کا فیصلہ کشمیر کی متنازع ریاست میں کرلیا جائے۔ فریقین کے درمیان بین الاقوامی سرحد عبور کئے بغیر ایک فیصلہ کن معرکہ ہو کشمیر کا تنازع ہمیشہ کے لئے حل کرلیا جائے۔ ویسے ڈوئیل لڑنے والے یورپی، روسی ا ور مبارزت طلب کرنے والے عرب اور ایرانیوں سے اہل ہند بھی بہادری، دلیری ا ور بے جگری میں کچھ کم نہیں۔ غیر ملکی فاتحین سے مقابلے کے لئے بعض راجائوں کی فوج کے دستوں نے اپنی عزت و ناموس کے لئے غیر معمولی جرأت اور غیرت کا مظاہرہ کیا۔ یہ لوگ اپنی عورتوں اور بچوں کو جنگ سے پہلے قتل کردیتے کہ شکست کی صورت میں انہیں لونڈی ،غلام نہ بنایا جاسکے اور ان کے ناموس پر حرف نہ آئے۔یہ لوگ خود کو ایک دوسرے کے ساتھ زنجیروں سے باندھ لیتے کہ جنگ کے دبائو اور سختی کی صورت میں میدان چھوڑ کر بھاگ نہ سکیں، چنانچہ فتح سے ہمکنار ہوں یا میدان جنگ میں دلیرانہ کام آئیں، واقعات کی شہادت ہے کہ ان بہادروں کی جرأت و ایثار کے باوجود ہندو راجے غیر ملکی حملہ آوروں کے مقابلے میں کوئی جنگ جیت نہیں سکے۔ ان کی قربانی ہمیشہ رائیگاں رہی۔ پنجاب یونیورسٹی میں ہمارے ایک دوست(پاکستانی لبرل کی طرح جو مسلمان کہلانے میں کچھ شرمندہ سے رہتے ہیں) مسلمان ہونے کے پہلے زمانے پر بڑا فخر کرتے جس طرح مصری فراعنہ پر کرتے ہیں۔ وہ قوم کی بہادری کے قصوں اور ماورائی داستانوں سے ناک میں دم کئے رکھتے۔ آخرکار ایک دن عرض کیا اس میں کوئی شک نہیں ہندو راجے اور ان کی افواج بڑے بہادر اور جنگجو سورما تھے۔ وہ آپس میں لڑتے بھڑتے رہتے ، جب دوراجائوں میں جنگ ہوتی تو ایک راجہ جیت جایا کرتے تھے لیکن یہ بھی فرمائیے سکندر مقدونی سے اورنگ زیب عالمگیر تک تین ہزار سال کی مدت میں وہ کونسی جنگ تھی جو ان بہادر سپوتوں نے کسی غیر ملکی حملہ آور کے مقابلے میں جیتی؟ تب ان کے کارناموں کی زبانی تشہیر سے جاری جان کو خلاصی نصیب ہوئی۔
وزیر اعظم مودی اور فوج کے سپہ سالار دلبیر سنگھ اپنے ملک کے لئے بدقسمتی بن کر طلوع ہوئے جنہیں اپنی طاقت کا اندازہ ہے نہ اپنی تاریخ کا علم۔ گیارہ لاکھ بری افواج، ایک ہزار جنگی جہازوں کے برتے پر پاکستان اور چین کو بیک وقت مقابلے کا چیلنج اور جنگ کی دھمکی دیتے ہیں۔ کوئی انہیں بتائے کہ سکندر یونان سے چند ہزار فوجی جوان لے کر آیا اس کے مقابلے میں لاکھوں کا جم غفیر تھا، محمد بن قاسم صرف چھ ہزار اونٹ سواروں کے ساتھ وارد ہوا اور پچاس ہزار ہندو سپاہ کو روند ڈالا۔ بابر صرف بارہ ہزار جنگ باز لے کر آیا اور پانی پت میں ایک لاکھ فوج اور ہزاروں ہاتھیوں کے لشکر کو کچل ڈالا۔ غوری، غزنوی، تاتاری، تیمور، ایبک، التمش، مغل، سوری پٹھان، لودھی افغان، نادر شاہ، بہینی،عادل شاہی، ان میں کوئی ایک مسلم فاتح ایسا بھی تھا جس کے پاس ہندو سپاہ کے مقابلے میں پچیس فیصد فوج بھی رہی ہو۔ یہ سب فتح یاب ہوئے اور ایک ہزار سال سے زیادہ مدت تک پورا برصغیر ان کے زیر نگیں تھا۔ ان مسلمان حکمرانوں سے حکومت یورپی اقوام نے چھین لی۔ جب ان کے حالات خراب ہوئے تو وہ از خود ہندوستان چھوڑ کر چلے گئے۔ برطانوی بادشاہ کا بھارت کے ہندوئوں پر دائمی احسان ہے کہ وہ جاتے وقت ملک کو مسلمان ریاست اور ہند و مملکت میں تقسیم کر گئے۔ ان کی وجہ سے معلوم تاریخ کی حد تک پہلی مرتبہ برصغیر میں ہندوئوں کو اتنی بڑی مملکت پر حکمرانی نصیب ہوئی۔ ابھی تو ایک صدی ہونے میں بھی تیس برس باقی ہیں کہ ’’مینڈکی‘‘ کو زکام ہونے لگا ۔ چین اور پاکستان بیک وقت دونوں سے جنگ خیر گھر میں بیٹھ کر شیخی بگھارنے اور جاگتے میں خواب دیکھنے سے منع کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے۔ برصغیر کی قدیم ترین تہذیب ہندوئوں کی شکست اور غلامی کی یادگار ہے۔ بارہ سو سال کی مسلم فتوحات سے بہت پہلے بھی’’ جنرل دلبیر سنگھ سہاگ ‘‘کی تاریخ سینٹرل ایشیا سے آنے والے فاتحین اور ان کی حکمرانی کی تاریخ ہے بھیک میں ملی آزادی اور حکمرانی کو عاجزی اور وسیع القلبی سے قائم رکھنے کی کوشش کیجئے۔ شکست، مایوسی، بے چارگی، آپ کے رگ و ریشے سے ڈی این اے تک چلی گئی۔ جو قوم اپنے مقابلے میں 15فیصد کا مقابلہ کبھی نہ کرسکی وہ پاکستان کی پانچ لاکھ مسلم فوج جو دنیا کی بہترین فوج سمجھی جاتی ہے اس کا مقابلہ کیسے کرے گی، چین ابھی’’وہ الگ باندھ کے رکھا ہے جو مال اچھا ہے‘‘ اگر آپ مبارزت طلب کریں ا ٓپ کے جنگجو دستے میں مودی بھی شامل ہوں تو یہ زیادہ دلچسپ اور فیصلہ کن ہوسکتی ہے۔
تازہ ترین