یہ ایک حقیقت ہے کہ سوویت یونین کے خلاف ”جہادافغانستان“ کے دوران جب آئی ایس آئی اور سی آئی اے کو ایک ساتھ کام کرنے کا موقع ملا تو آئی ایس آئی کی آپریشنل صلاحیت اور منصوبہ بندی سی آئی اے سے کہیں بہتر تھی جس کا سی آئی اے کو اعتراف بھی تھا ۔آج امریکہ کا خیال ہے کہ قبائلی علاقوں میں پائی جانے والی مزاحمت کو آئی ایس آئی منظم کررہی ہے حالانکہ یہ الزام درست نہیں کیونکہ افغانستان کی جنگ امریکا نے شروع کی ہے لہٰذا اس کو جیتنا بھی اس کی اپنی ذمہ داری ہے۔ افغانستان اور اس سے ملحقہ پاکستانی علاقوں میں مزاحمت قطعاً ایس آئی ایس کی وجہ سے نہیں بلکہ یہ غیر ملکی قبضہ اور جارحیت کے خلاف ”عوامی مزاحمت“ ہے جس کا سلطنت برطانیہ اور سوویت یونین سے لے کر نیٹو افواج تک کے خلاف مزاحمت کا ایک طویل ریکارڈ ہے لہٰذا ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ایسا کوئی بے بنیاد الزام لگانے اور غیر ضروری پروپیگنڈہ کرنے کے بجائے ”حملہ آور قوتوں“ کو اپنے گریبان میں جھانکنا چاہئے تھا کہ اگر وہ سات سمندر دور سے آکر ایک آزاد اور خودمختار ملک پر حملہ کریں گی تو مزاحمت نہیں ہوگی تو کیا پھول گرائے جائیں گے…؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا یہ حقیقت نہیں کہ جب 9/11 کے بعد پاکستان پر دباؤ ڈالا گیا کہ وہ افغانستان پر امریکی حملے میں ساتھ دے تو اس حوالے سے برطانیہ کے وزیراعظم ٹونی بلیئر نے اچانک اسلام آباد کا دورہ کیا۔ صدر جنرل مشرف کے ساتھ ٹونی بلیئر کے مذاکرات میں اس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی بھی شریک تھے، جوں ہی ملاقات ختم ہوئی اور ٹونی بلیئر واپس پرواز کرچکے تو اسی شام کو سب سے پہلا کام یہ ہوا کہ صدر مشرف نے ڈی جی آئی ایس آئی کو ان کے عہدے سے ہٹا دیا، آخر ایسا کیوں ضروری سمجھا گیا۔ افغان پالیسی کو یوٹرن دیتے وقت ڈی جی آئی ایس آئی کو تبدیل کرنا کیوں ضروری ہوا، کیا یہ بات سمجھنا مشکل ہے کہ جنرل مشرف نے جہاں امریکی دباؤ پر افغان پالیسی تبدیل کی، وہیں پر آئی ایس آئی کو بھی محدود کرنے کیلئے بنیادی تبدیلیاں لانے کی کوشش کی گئی…؟ یہ بات بھی ریکارڈ پر ہے کہ صدر جنرل مشرف نے ایک مرتبہ امریکا کے دورے سے واپسی پر لندن میں ایک پریس کانفرنس کو خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ”مغرب یہ بات اچھی طرح سے سمجھ لے کہ آئی ایس آئی اور ہمارے بغیر وہ دہشت گردی کی جنگ نہیں جیت سکتے۔“ اسی طرح ایک مرتبہ کابل کے دورے پر افغان پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے صدر مشرف نے کہا۔ ”آئی ایس آئی پر الزام لگانے والے مجھ پر الزام لگا رہے ہیں کہ آئی ایس آئی نے قطعاً کوئی ایسا کام نہیں کیا کہ جس سے افغانستان غیر مستحکم ہو۔“ سوال یہ ہے کہ صدر جنرل مشرف نے آئی ایس آئی کو الگ سے نمایاں کرنے اور اس کے کام کے بارے میں بات کرنا کیوں ضروری سمجھا جبکہ آئی ایس آئی آئین کے تحت کام کرنے والے ایک ادارے سے منسلک تنظیم ہے جو قانون کے مطابق اسی طرح سے کام کررہی ہے کہ جس طرح سے پاکستان کے اندر ایف آئی اے، آئی بی اور ایم آئی وغیرہ کرتی ہیں، یہ الگ بات ہے کہ ان تمام ایجنسیوں کا دائرئہ اختیار مختلف ہے لہٰذا آئی ایس آئی کو الگ سے ہائی لائٹ کرنے کا مطلب کہیں یہ تو نہیں تھا کہ اس کے خلاف بیرونی دباؤ کو تقویت پہنچائی جائے؟
آئی ایس آئی پہلے سے وزیراعظم کے ماتحت کام کررہی ہے جبکہ ذوالفقار علی بھٹو سے لے کر یوسف رضا گیلانی تک آئی ایس آئی نے ہمیشہ وزیراعظم کو رپورٹ کی اور بریفنگ دی لہٰذا اس اہم ایجنسی کے درست سمت میں چلتے ہوئے کام کا رخ اچانک موڑ کر وزارت داخلہ کی طرف کردینا، قومی مفاد کا تقاضا تھا یا کچھ اور…؟ کیا اس طرح کے فیصلے سے وزیراعظم کے دورئہ امریکا کو کامیاب بنانا تھا کیونکہ امریکا تو کب سے چاہتا ہے کہ آئی ایس آئی کو نہ صرف محدود کردیا جائے بلکہ اس کی معلومات کسی چینل کے ذریعے امریکا کو پہچائی جائیں تو کیا ایسا کرنے کیلئے وزارت داخلہ کو موزوں سمجھا گیا…؟ اگر ایسا نہیں ہے، امریکا ایسا نہیں چاہتا اور وزارت داخلہ بھی ایسا نہیں کرے گی تو پھر چند واقعات کو سامنے رکھنا ہوگا۔
امریکا کے حوالے سے تو یہ بات بڑی واضح ہے کہ وہ صرف آئی ایس آئی ہی کو نہیں پاکستان کی ملٹری پاور اور ایٹمی طاقت دونوں سے خائف ہے اس لئے یہ اس کی پوری پوری کوشش رہی ہے کہ کس طرح سے پاکستان کی ملٹری پاور کو کمزور اور ایٹمی صلاحیت کو رول بیک کرایا جائے، اس کیلئے وہ تین طرح سے کام کررہا ہے، ایک یہ کہ قبائلی علاقوں میں آپریشنز کے ذریعے پاکستان کے عوام اور فوج کے درمیان غلط فہمیاں اور کشیدگی پیدا کی جائے۔ دوم ڈاکٹر قدیر خان کو بے بنیاد الزامات کے ذریعے بدنام کرتے ہوئے پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر عالمی دباؤ بڑھایا جائے جبکہ تیسرا طریقہ کہ جس پر امریکا کے سیاسی اور فوجی دماغ کام کررہے ہیں اور وہ یہ کہ اگر افغانستان کی جنگ امریکا ہارے (جو یقیناً ہارے گا) تو لوٹنے سے پہلے پاکستان کی ایٹمی تنصیبات کو ایئراٹیک کے ذریعے تباہ کردیا جائے۔ امریکا کے اس منصوبے میں بھارت اور اسرائیل بھی شامل ہیں تاہم امریکا کے عزائم کو سمجھنے اور سامنے رکھنے کے علاوہ جب ہم اپنی داخلی صورتحال پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں چند ایسے واقعات نظر آتے ہیں کہ جن سے آئی ایس آئی پر کوئی الزام دینے کے بجائے ”حکمران قیادت“ پر الزام آتا ہے کہ کس طرح سے اس نے اپنے گروہی مفاد اور اقتدار کیلئے آئی ایس آئی کی اس محنت کو ضائع کردیا جو ملک کے بہترین مفاد میں تھی اور کس طرح سے ہمارے حکمرانوں نے کسی دوسرے اور تیسرے ملک کے مفاد کو فائدہ پہنچانے کی کوشش کی جس کی پہلی مثال تو خود جنرل مشرف صاحب کی ہے جو ہم اوپر دے چکے ہیں۔ اسی طرح سے جنرل ضیاء الحق امریکا کے دورے پر جانے والے تھے کہ اوجڑی کیمپ کا دھماکا ہوگیا، جنرل صاحب کو اعتماد میں لئے بغیر وزیراعظم محمد خان جونیجو نے قومی اسمبلی کے ممبران پر مشتمل ایک کمیٹی بنانے کا اعلان کیا جو اس دھماکے کی وجوہات اور محرکات کا کھوج لگائے گی۔ کہتے ہیں کہ جونیجو صاحب نے یہ کام امریکی سفیر کی خواہش پر کرنے کی کوشش کی جبکہ امریکا مذکورہ کمیٹی کی رپورٹ کے ذریعے جنرل ضیاء الحق کے دورئہ امریکا کے دوران ان پر دباؤ بڑھانا چاہتا تھا۔ بھارت کے وزیراعظم راجیو گاندھی کی پاکستان آمد اور وزیراعظم محترمہ بینظیر بھٹو سے مذاکرات کے بعد اس وقت کے وزیر داخلہ چوہدری اعتزاز احسن بھارتی سفارتخانے گئے اور اطلاعات کے مطابق انہوں نے سفیر موصوف کو بھارتی پنجاب میں خالصتان تحریک سے وابستہ سکھوں کے خفیہ ناموں کی ایک فہرست فراہم کی۔ اسی طرح سے وزیراعظم نواز شریف کے بارے میں خبر ہے کہ انہیں ایک مرتبہ بھارت کے وزیراعظم آئی کے گجرال نے فون کیا اور مقبوضہ کشمیر میں ہونے والی کسی کارروائی کے بارے میں معلومات دینے کو کہا۔ ہمارے محترم وزیراعظم شریف نے چند ہی گھنٹوں کے اندر اندر تمام معلومات سے بھارتی وزیراعظم کو آگاہ کردیا۔ مزیدبرآں اس طرح کی کئی رپورٹیں اور خبریں موجود ہیں کہ ہمارے حکمران کس طرح سے قومی مفاد پر بیرونی تعلقات خاص طور پر بھارت اور امریکا کو مطمئن کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں جبکہ آئی ایس آئی نے خالصتاً قومی مقاد اور قومی سلامتی کو لاحق خطرات کو کاؤنٹر کرنے کیلئے ملک کے اندر اور باہر اپنے فرائض اور ذمہ داریوں کو انتہائی بہتر طریقے سے ادا کرنے کی کوشش کی ہے۔ ایسے بے شمار واقعات ہیں کہ آئی ایس آئی نے کس طرح سے پاکستان کے حساس اور مستقل مفادات کیلئے خطرہ بننے والے چیلنج کا مقابلہ کیا۔ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو ابتداء سے تکمیل تک خفیہ راز میں رکھنا، آئی ایس آئی کا یادگار اور ناقابل فراموش کردار ہے جسے قومی مفاد میں زیربحث نہیں لایا جاسکتا۔
جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ آئی ایس آئی کا پولیٹیکل ونگ ختم ہونا چاہئے یا سادہ الفاظ میں کہ سیاست میں آئی ایس آئی کی مداخلت ختم کی جائے تو اس حوالے سے گزارش ہے کہ آئی ایس آئی کا پولیٹیکل ونگ ختم کرنے سے پہلے خود سیاسی جماعتیں اپنے اندر اس سیل کو ختم کرنے کا فیصلہ کریں جو خفیہ ایجنسیوں سے راطے کی کوشش میں رہتا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان کے حکمران اور سیاستدان آئین کے احترام اور پارلیمنٹ سے رجوع کرنے کی پالیسیاں اپنائیں خفیہ ڈیل اور خفیہ مذاکرات جیسے رجحان کی حوصلہ شکنی ہونی چاہئے جبکہ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ہماری خارجہ اور داخلہ پالیسی میں انتہائی اہم فیصلے خفیہ مذاکرات اور خفیہ ڈیل ہی کے ذریعے ہورہے ہیں۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ امریکا قبائلی علاقوں میں جو بمباری کررہا ہے، یہ بھی صدر مشرف اور صدر بش کے درمیان ایک خفیہ معاہدہ ہے جس کا انکشاف خود امریکی پریس کرچکا ہے۔ تو گزارش یہ ہے کہ جب تک حکومت اہم قومی معاملات میں قوم اور منتخب نمائندوں کو اعتماد میں لینے کے بجائے خفیہ ڈیل اور خفیہ مذاکرات وغیرہ کرتی رہے گی، تو ظاہر ہے کہ ایسی صورتحال میں خفیہ اداروں کا کام بھی بڑھ جائے گا۔ یہاں ہم ایک بات یہ بھی کہنا چاہیں گے کہ سی آئی اے حکومت پاکستان کی اجازت سے پاکستان کے اندر جو آپریشن جاری رکھے ہوئے ہے، ان کو ختم کرنے یا ان کی تفصیلات سے پارلیمنٹ کو آگاہ کرنے کی بات کیوں نہیں کی جاتی۔ امریکی سفارت خانہ پاکستان کی سیاست، انتخابات اور حکومت سازی میں کس قدر مداخلت کررہا ہے،اس پر اعتراض کیوں نہیں کیا جاتا۔ حالانکہ اصل قابل اعتراض بات دوسروں کے معاملوں میں مداخلت ہے۔