اے قائد ! ہم اِس ماہ آپ کا 67واں یومِ وفات منارہے ہیں۔ اِس موقع پر قوم کا ہر فرد معترف ہے کہ آپ نے اپنے مضبوط کردار، جرأت، بہادری اور عزم و استقلال کے باعث دنیا کی تاریخ کا رُخ موڑ دیا۔اسلام کی روشنی سے منور نظریہ پاکستان کی آبیاری کی اورمحض ایک خطہء زمین کیلئے ہی نہیں بلکہ غیر اللہ کی غلامی سے نجات اور حاکمیت الٰہی کے غلبے کیلئے تحریک چلائی۔ آپکی شخصیت، علم و حکمت، فہم و فراست اور جہدِ مسلسل جیسے اوصاف حمیدہ کا مرقع تھی۔ آپکی اُصول پسندی، دوستی اور دشمنی کے معیار مسلمہ تھے لیکن اِنکی بنیاد ذاتی اغراض اور جذبات سے بالاتر ایک عظیم مقصد اوراعلیٰ و ارفع نصب العین پر قائم تھی۔ آپ کو چومکھی جنگ لڑنا پڑی کیونکہ مسلمانانِ ہند کو انگریز اور ہندوئوں نے غلامی کے شکنجے میں جکڑرکھا تھا۔ یہ آپکی جرأتِ رندانہ ہی تھی کہ قیامِ پاکستان کی راہ میں آنیوالی تمام مشکلات اور رکاوٹیں آپکے عقلی دلائل سے پاش پاش ہوتی رہیں اور بالآخر برصغیر کے مسلمان آپکی قیادت میں ایک علیحدہ اور آزاد مملکت جیسی نعمتِ غیر مترقبہ اور جنتِ ارضی حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ آپ کی بتائی ہوئی اَن دیکھی منزل کی جانب آگ اور خون کے دریا عبور کرتے ہوئے طویل مسافتیں طے کر کے آبلہ پاء سرزمینِ پاک پر پہنچے۔ اُن پر ظلم و ستم کے وہ پہاڑ ڈھائے گئے کہ ہلاکو اور چنگیز خاں بھی شرما گئے۔
قائدِ محترم! آپ نے فرمایا تھا کہ پاکستان تو بن گیا لیکن پاکستان کے حقیقی مقاصدکا حصول ابھی تشنہ طلب ہے۔ آپ پاکستان کو ایک مثالی اسلامی، جمہوری اور فلاحی مملکت بنانا چاہتے تھے۔ آپکا فرمان تھا کہ قرآن کے ہوتے ہوئے ہمیں کسی اور آئین کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ ہمیشہ نسلی، علاقائی، فرقہ وارانہ اور گروہی تعصبات کی نفی اور حوصلہ شکنی کرتے رہے۔ کراچی کے وکلاء سے خطاب میں آپ نے فرمایا تھا کہ ’’پاکستان کا آئین اسلام کے اعلیٰ اصولوں کی روشنی میں تیار کیا جائیگا، جو آج بھی اُسی طرح قابل عمل ہیں جیسے کہ تیرہ سو سال پہلے تھے‘‘۔ آپ پاکستان میں سود سے پاک اسلامی معیشت کا فروغ چاہتے تھے، یکساں نظام تعلیم کے خواہاں تھے جو ہماری تاریخ و ثقافت سے ہم آہنگ ہونے کیساتھ ساتھ آنیوالی نسلوں کے کردار کی تعمیر کرسکے۔ پاکستان کو عسکری لحاظ سے ایک مضبوط، توانا اور تاقابلِ تسخیر ملک دیکھنا چاہتے تھے جس کا اظہار آپ نے1948ء کے اوائل میں فوجی افسروں سے خطاب کرتے ہوئے بھی کیا کہ اپنے دفاع سے غافل اور کمزور ملک دوسروں کو جارحیت کی دعوت دیتے ہیں۔ آپ تنگ نظری، جھوٹ، منافقت، قول و فعل میں تضاد، شدت پسندی اورمنافرت سے نفرت کرتے تھے۔ آپکی تعلیمات ہمیں دیانت، شرافت، سچ، صاف گوئی، کردار کی بلندی، صلح جوئی،ذہنی کشادگی، احساسِ ذمہ داری اور روشن ضمیری کا درس دیتی ہیں۔ آپ ایک ترقی پسند اور خوشحال پاکستان کے خواہاں تھے۔
جنابِ قائد! ہم شرمندہ ہیںکہ آزادی کے فوراً بعدقوم نے قیامِ پاکستان کے مقاصد کو بھولا دیا۔ابھی مہاجرین کے زخموں سے گھائل جسموں سے رَسنے والے سرخ لہو کے باعث سرزمیں پاک کا چپہ چپہ تَربتر تھا کہ ہمارے اکابرین اپنی ذمہ داریاں نبھانے کی بجائے جاہ و جلال، زیادہ سے زیادہ اختیارات کے حصول، ہندوئوں اور سکھوںکی چھوڑی ہوئی متروکہ جائیدادوں پر قبضوں اور مہاجرین کی لوٹ کھسوٹ میں مشغول ہوگئے ۔ آپکی زندگی ہی میں افسر شاہی اور جاگیرداروں کے درمیان اشتراک عمل وجود میں آچکا تھا وہ آپکے وجود کو اپنے عزائم کی تکمیل میں رکاوٹ محسوس کرتے تھے۔ آپکی رحلت کے بعد یہ اشتراک ایک مضبوط جتھے اور گروہ کی شکل اختیار کرتا چلا گیا جس نے ملک اور قوم کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا بلکہ آج تک نوچ رہا ہے۔ 1946ء میں لیفٹیننٹ کرنل کے عہدہ پر ترقی پانے والے انڈین پولیٹکل سروس کے اسکندر مرزاکو پہلے وزارتِ دفاع کا سیکرٹری تعینات کیا گیااور پھر براہ راست میجر جنرل کے عہدےپر ترقی دینے کے احکامات جار ی کردیئے گئے۔ ۔ آپکے رخصت ہونے کے بعداقتدار کی میوزیکل چیئر کا کھیل شروع ہوگیا۔ آپکی مسند پر بیٹھنے والے نواب آف ڈھاکہ سر خواجہ ناظم الدین نے محسوس کیا کہ گورنر جنرل کے پاس ریاستی سربراہ ہونے کی حیثیت سے زیادہ انتظامی اختیارات نہیں ہیں تو وہ نوابزادہ لیاقت علی خان کی شہادت کے فوراً بعد خود ہی اپنی تنزلی کرتے ہوئے وزیراعظم بن گئے۔ ایک سابق بیوروکریٹ سَر ملک غلام محمد گورنرجنرل بنے تو انہوں نے چند ماہ کے اندر اندر وزیراعظم خواجہ ناظم الدین کو چلتا کردیا۔سابق سیکرٹری دفاع میجر جنرل اسکندر مرزا ، بیماری کی رخصت کے دوران قائم مقام گورنر جنرل بنے اور آتے ہی سر ملک غلام محمد کو برطرف کرکے باقائدہ چارج سنبھال لیا ۔ اُنہوں نے بطور گورنر جنرل اور صدرِ پاکستان کی حیثیت سے پانچ وزرائے اعظم کو گھر بھیجا۔ سر ملک غلام محمد اور میجر جنرل اسکندر مرزا کے دکھائے ہوئے رستے پر جنرل محمد ایوب خان، جنرل محمد ضیاء الحق، غلام اسحاق خان، فاروق لغاری اور جنرل پرویز مشرف پوری تندہی کیساتھ عمل پیرا ہوکر حکومتوں کو برطرف کرتے رہے۔ آج ہم صوبائیت، لسانیت، فرقہ واریت،شدت پسندی، دہشت گردی ، لوٹ مار، کرپشن ، اقرباء پروری اور مادیت کی تمام حدوں کو عبور کر چکے ہیں۔
پیارے قائد ! ہم مِن حیث القوم اعتراف جُرم کرتے ہیں کہ اسلام کے نام پر وجود میں آنیوالے ملک میںہم نے خونِ مسلم بہت ہی ارزاں کردیا ۔ ہم نے اپنے ہی بھائیوں کے گلے کاٹے۔ مسجدیں، چرچ، مندر، اسکول، اسپتال ، دفاتر الغرض ہر جگہ کو ہم نے اپنے باطن میں پناہ گزیں شیطان کی ہوس کا نشانہ بنا کر رکھ دیا۔یہاں میرٹ ، اہلیت اور دانش قتل ہوتی رہی جبکہ دھوکہ، فراڈ اورجعلسازی پروان چڑھتی رہی۔ ہم بڑے بڑے منصبوں پر چھوٹے چھوٹے قد کے لوگوں کومسلط اور براجمان کرتے رہے۔ہم بیرونی قوتوں کے بھی آلہ کار بنے رہے۔ قیامِ پاکستان کے فوراً بعد تعلیمی اہلیت کی بابت جھوٹے بیان حلفیوں پر ادنیٰ سے اعلیٰ سرکاری ملازمتوں کے حصول کا جو سلسلہ شروع ہوا تھا وہ اب جعلی ڈگریوں کے اجراء تک جا پہنچاہے۔
اے قائدِ اعظم ! ہمیں اپنے قومی جرائم کا اعتراف ہے، اپنی اجتماعی غلطیوںاور لغزشوں کا بھی احساس ہے۔ ہمیں اِس اَ مر کا بھی ملال ہے کہ ہم نے تقریباً سات دہائیاں ضائع کردیں۔ وہ کچھ نہیں کیا جو کرنا چاہئے تھا۔ لیکن! اِسکے باوجود وقتاً فوقتاً قومی غیرت کی بجھی ہوئی راکھ میں سے کچھ چنگاریاں سُلگتی رہیں۔ آج ہم عالمِ اسلام کی واحدایٹمی قوت ہیں۔ ہم ٹینک ، میزائل، ڈرون اور جنگی جہاز بنانے والی قوم ہیں۔ جہاں اہلِ مغرب کی دھمکیوںاور پابندیوںکے باوجود میاں نواز شریف نے ایٹمی دھماکوںسے ملکی دفاع مضبوط بنادیا۔ یورپ سے بھی جدید موٹروے بناڈالی۔ ٹیلی مواصلات کے شعبے میں ایک انقلاب برپا کردیا اور اب خنجراب سے لیکر گوادر تک اقتصادی راہداری اور انرجی منصوبوں کی بناء پر ایک معاشی انقلاب برپا ہونے کو ہے۔ وہیں آصف علی زرداری نے رواداری کی سیاست اور سیاسی تسلسل کی بنیاد ڈالی۔ عمران خان نے تعلیم یافتہ لوگوں کی اُس کلاس کو قومی دھارے میں شامل کیا جو الیکشن ڈے کو ’’پکنک ڈے‘‘ کے طور پر منایا کرتی تھی۔ مولانا فضل الرحمن نے دینی طبقے کے لوگوں کو منافرت اور شدت پسندی سے ہٹ کر قومی سیاست کا جزولاینفک بنائے رکھنے کا کارنامہ سرانجام دیا۔ موجودہ قومی قیادت نے آئینی اصلاحات، دہشت گردی اور اقتصادی راہداری سمیت متعدد امور پرقومی اتفاق رائے کے ذریعے سیاسی بلوغت کا مظاہرہ کیا ہے۔ ہمارا میڈیا متحرک اور عدلیہ آزاد ہے۔ دنیا کی مضبوط اور ناقابلِ تسخیر افواجِ پاکستان کے جانثاروں نے ملکی سلامتی و بقاء کیلئے دہشت گردی کے خلاف بے پناہ قربانیوں کی ایک ایسی داستان رقم کردی ہے جسکی نظیر دنیا کی تاریخ میں نہیں ملتی۔
جی ہاں، قائدِ محترم ! ہم احساسِ ندامت کیساتھ تجدیدِ عہد کرتے ہیںکہ میرٹ اور شفافیت پر عمل کرتے ہوئے آگے بڑھیں گے۔ انصاف، تعلیم اور صحت کو قومی ترجیحات میں اولیت حاصل ہوگی۔ ہم دہشت گردی کیخلاف جنگ میں کامیابی سے ہمکنار ہورہے ہیں لیکن گلشن کی مکمل شادابی تک یہ جنگ جاری رکھیں گے۔ ہم اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہیں کہ کرپشن، لوٹ مار اور بدعنوانی نے ملکی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے ۔ اقوامِ عالم میں نمایاں مقام حاصل کرنے کیلئے اب قوم دہشت گردی کے ساتھ ساتھ کرپشن اوربدعنوان عناصر کی سرکوبی کیلئے بھی جہاد کرے گی۔ پاکستانی قوم کا یہ جہاد ملکی دولت اور قومی خزانہ سے لوٹے گئے آخری روپیہ کی مع منافع وصولی تک جاری رہے گا۔