روزنامہ جنگ کراچی…21/ فروری 1959ء
ہمارے ملک کی سیاسی پچ پر بہت دن سے کرکٹ کھیلی جارہی تھی۔ ہم فیلڈنگ کرتے کرتے مرے جا رہے تھے، مگر سیاسی کھلاڑی کسی طرح آؤٹ ہونے کا نام ہی نہ لیتے تھے اور مسلسل چوکے اور چھکے لگائے جاتے تھے اور ایمپائر بھی ہم کو ایسے ملے تھے کہ جب کبھی ہم نے کوئی اپیل کی مسترد ہی ہو گئی نتیجہ یہ کہ ہم نے تو یہ طے کر لیا تھا کہ ہماری قسمت میں صرف ” کھلانا “ لکھا ہوا ہے اوریہ صرف کھیلنے کے لئے پیدا ہوئے ہیں خواہ ہماری قسمت سے کھیلیں خواہ گیند سے کھیلیں، پچ کے اندر کھیلیں یا پچ کے باہر ہو کر کھیلیں، بہر صورت ان کا آؤٹ ہونا ممکن نہیں ہے اور یہ اسی طرح باؤنڈریاں لگاتے رہیں گے اور ہم اسی طرح بھاگ دوڑ میں اپنا خون پسینہ ایک کرتے رہیں گے کہ انہوں نے ہٹ لگائی اور ہم دوڑے گیند کے پیچھے۔ آخر میں تو یہ کیفیت ہو کر رہ گئی تھی کہ خود ہم میں اور گیند میں کوئی فرق نہ رہا تھا ہم نے خود ہی گیند کے بجائے لڑھکنا اور اچھلنا شروع کردیا تھا اور وہ ہٹیں ہم ہی پر پڑ رہی تھیں کہ خود ہی مار کھائی اور خود ہی دوڑے۔
مگر سات اکتوبر 1958ء کو ایک ایسے ٹیسٹ میچ کا اعلان ہوا کہ ان کھلاڑیوں کے مقابلہ پر ہم نہ رہے بلکہ ایسے مشتاق قسم کے لوگ آ گئے کہ ہم اناڑیوں پر ڈٹ گئے اور شروع ہوا یہ ٹیسٹ میچ بولڈ آؤٹ ہونے والے تو کسی شمار میں تھے ہی نہیں مگر ان سیاسی کھلاڑیوں میں سے بعض کو ” کیچ “ کر کرکے آؤٹ کرنا پڑا اور نہایت دفاعی کھیل کھیلنے والے بھی ” کیچ “ کر لئے گئے۔ اس میچ میں کچھ عجیب پت جھڑ کی کیفیت سب کو نظر آرہی تھی۔ میچ جاری تھا کہ 27 اکتوبر کو سیاسی ٹیم کے کپتان صاحب جو بڑے سینچری بیٹ سمجھے جاتے تھے اور اس ٹیسٹ میچ کے ناسازگار حالات میں بھی نہایت نپے تلے چوکے اور چھکے اڑا رہے تھے یکایک ” رن آؤٹ “ کر دیئے گئے۔ انہوں نے مارے شوق کے کریز سے باہر ہو کر کھیلنا شروع کر دیا تھا اور کھیل کے وہی داؤں پیچ شروع کر دیئے تھے جن سے ہمیشہ کام لیتے تھے پھر شوق یہ بھی تھا کہ اپنا اسکور بھی بڑھاتے رہیں نتیجہ یہ کہ رن آؤٹ ہو کر ٹھنڈے ٹھنڈے پویلین کی طرف سدھار گئے اور ان کا رن آؤٹ ہونا تھا کہ یہ میچ ختم ہو گیا۔
ہم اہل پاکستان کو کرکٹ سے کچھ عجیب قسم کا لگاؤ ہے، جب کبھی کوئی ایسا ٹیسٹ میچ شروع ہوتا ہے جس میں ہماری ٹیم کھیل رہی ہو ہم باقی سب کچھ بھول کر اسی طرف متوجہ ہوجاتے ہیں اور صرف کرکٹ سے لو لگا لیتے ہیں۔ راہ چلتے لوگ ایک دوسرے سے راستہ یا وقت پوچھنے کے بجائے اسکور پوچھنا شروع کر دیتے ہیں۔ ہر ریڈیو سیٹ کے اردگرد ایک مشاعرہ سا برپا نظر آتا ہے کہ لوگ کمینٹری سنتے اور واہ کے ڈونگرے برساتے نظر آتے ہیں، جہاں یہ سنا کہ کسی پاکستانی کھلاڑی نے چوکا مارا ہے یہ کمینٹری سننے والے ایک دوسرے سے عید ملنا شروع کر دیتے ہیں۔ بڑے بڑے متین اور سنجیدہ قسم کے لوگوں کو اس کمینٹری کے دوران اچھلتے اور کودتے دیکھا گیا ہے۔ ایک نورانی داڑھی والے کو اس طرح ناچتے ہوئے دیکھا ہے کہ گویا محترم کمینٹری نہیں بلکہ قوالی سن رہے تھے اور یہ کیفیت ان پر حنیف کی سنچری مکمل ہونے سے طاری نہیں ہے بلکہ پریم راگی کے نغمہ نے ان کو وجد میں مبتلا کیا ہے۔ کرکٹ کے ایسے ایسے رسیا بھی دیکھے ہیں جو کسی مرنے والے کے حلق میں شربت انار ٹپکانے کے لئے بوتل لے کر گھر سے نکلے ہیں اور کھڑے ہو گئے ہیں کسی پان والے کی دکان پر کمینٹری سننے۔
لوگ بڑے اہتمام کرتے ہیں کرکٹ کی کمینٹری سننے اور سنانے کے لئے، بلیک بورڈ آویزاں کر دیئے جاتے ہیں تاکہ خلق اللہ کے فائدہ کیلئے اس کو استعمال کیا جائے اور تازہ اسکور اس پر برابر لکھا جاتا رہے۔ ایک نہایت با خدا قسم کے شربت بنانے والے نے تو انتظام یہ کیا تھا کہ ایک انگریزی جاننے والے شخص کو ملازم رکھ لیا تھا جو کمینٹری کا اردو ترجمہ ان کو سناتا رہے۔ اور وہ خود نازک موقعوں پر نماز پڑھنے کھڑے ہو جاتے تھے تاکہ بارگاہ رب العزت میں دعا کر سکیں کہ اللہ العالمین تو حنیف کی سنچری مکمل کرا دے۔ معبود حقیقی تو فضل محمود کو توفیق دے کہ وہ فریق مخالف کو جمنے نہ دے۔ ادھر کمینٹری سن کر اردو میں ترجمہ کرنے والے نے ان کو بتایا کہ حنیف کی سنچری ہوگئی ادھر انہوں نے سجدئہ شکر ادا کرنے کے بعد اپنے نوکروں سے کہا کہ پلا دو اس تمام مجمع کو ایک ایک میٹھے پانی کی بوتل اسی خوشی میں۔ مگر ایک مرتبہ یہ بھی ہوا کہ کمینٹری سن کر ترجمہ کرنے والے نے جیسے ہی کہا کہ حنیف آؤٹ دکان کے مالک نے ایک جھانپڑ اس کے رسید کیا اور گرج کر کہا ” بند کردو ریڈیو بد تمیز کہیں کے“۔ اور نوکروں کو حکم دیا کہ ” بند کردو دکان بھی اسی سوگ میں “۔ اور پھر کمینٹری سننے والوں کو ڈانٹا۔ آپ لوگوں کو دنیا کا کوئی اور کام نہیں ہے کہ کھڑے ہوئے ہیں دکان گھیرے ہوئے۔
کمینٹری سن سن کر ناچنے اور تھرکنے والوں کے علاوہ غش کھا کھا کر گرنے والوں اور قلب کے دوروں میں مبتلا ہونے والوں کی بھی کوئی کمی نہیں ہے اور اس قسم کی دعوتیں تو اس زمانہ میں عام طور پر ہوتی ہیں کہ غریب خانہ پر ماحضر تناول فرمائیے اور میرے ساتھ کمینٹری سن کر مجھ کو ممنون فرمائیے۔ لوگ دفتروں سے چھٹی لے لے کر کمینٹری سنتے ہیں یا دفتر میں حاضری دے کر ایک آدھا فائل بغل میں دبایا اور موقع کے معائنہ کا بہانہ کر کے پہنچ گئے بے موقع جگہ کمینٹری سننے اور تو اور یہ مرض تو ایسا عام ہوا ہے کہ اب گھر والیاں بھی چولہا ہانڈی سے فارغ ہو کر پاندان لے کر ریڈیو سیٹ کے پاس آ کر بیٹھ جاتی ہیں کہ سروتے اور چھالیہ کا شغل کرتی جا رہی ہیں اور کمینٹری سنتی جا رہی ہیں جہاں انہوں نے پوچھا کہ ” ہئے ہئے یہ کیا ہوا “ اور جب شوہر نامدار نے ان کو سمجھایا کہ ” کیا لاجواب اوور کھلایا ہے فضل محمود نے “ تو اطمینان ہو جاتا ہے اور وہ پھر سروتے سے کھٹ کھٹ شروع کر دیتی ہیں، لیکن اگر شوہر نامدار نے کمینٹری سنتے سنتے اپنے ہاتھ پر ہاتھ مارا تو وہ بھی ہاتھ سے سروتہ چھوڑ کر کلیجہ تھام لیتی ہیں اور جب یہ معلوم ہوتا ہے کہ امتیاز آؤٹ ہوئے ہیں تو وہ ایک آدھ بچے کو اسی طرح ڈانتی ہیں گویا اسی کے شور مچانے کی وجہ سے بیچارہ امیتاز آؤٹ ہوا ہے۔
اب آج سے پہلا ٹیسٹ میچ غرب الہند ٹیم کے مقابلے میں شروع ہو رہا ہے اور پانچ دن تک جاری رہے گا۔ نیشنل اسٹیڈیم کراچی میں جہاں یہ میچ ہوگا جو حال بھی ہو، مگر ہم کو یقین ہے کہ پاکستان کے گوشہ گوشہ میں نیشنل اسٹیڈیم واقع ہو جائے گا اور جہاں بھی کوئی ریڈیو سیٹ ہو گا وہاں ایک مجمع ضرور ہو گا۔ گھر گھر یہی چرچے ہوں گے، ہر محفل میں یہی موضوع ہو گا بحث کا۔ میچ ہو گا کراچی میں اور لوگ آپے سے باہر نظر آئیں گے چیچا وطنی، میاں چنوں اور لالہ موسیٰ میں۔ ہٹ لگائیں گے حنیف کراچی میں اور داد کا شور بلند ہو گا سرگودھا میں۔ آؤٹ کریں گے فضل محمود یہاں کسی کو اور ٹوپیاں اچھالیں گے راولپنڈی میں بیٹھے ہوئے لوگ۔ مختصر یہ کہ اب آج سے اس جنون کی ابتداء ہو رہی ہے خدا خیر کرے۔