پشاور ( سٹاف رپورٹر ) عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی صدر اور سابق وزیر اعلیٰ امیر حیدر خان ہوتی نے کہا ہے کہ سی پیک کے معاملے پر عمران خان اور پرویز خٹک کے مؤقف میں تضاد پایا جاتا ہے ،عمران خان نے اس پراجیکٹ پر اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے اسکی تائید کی ہے جبکہ وزیر اعلیٰ پرویز خٹک کھلے عام کہہ رہے ہیں کہ سی پیک میں صوبے کے ساتھ زیادتی کی جا رہی ہے اور ان کو اس منصوبے پر شدید نو عیت کے خدشات ہیں، باچا خان مرکز پشاور میں اے این پی کی صوبائی مجلس عاملہ کے اجلاس کے بعد ایک تفصیلی بریفنگ میں انہوں نے کہا کہ سی پیک پاکستان کی ترقی کا منصوبہ ہے اور ہم اسکا خیر مقدم کرتے ہیں،تاہم اس میں صوبہ پختونخوا اور بلوچستان کے مفادات کا تحفظ چاہتے ہیں ،سی پیک محض ایک سڑک کا نام نہیں ہے ،دونوں صوبوں کو اس میں شامل پراجیکٹس سے مستفید ہونے کے حق سے محروم کرنے کی ہر کوشش کے خلاف مزاحمت کی جائے گی،ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اس اہم منصوبے کو وفاقی حکومت کے وہ عناصر متنازعہ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں جو کہ اپنے بیانات کے ذریعے غلط بیانی سے کام لیتے آ رہے ہیں ،اگر یہ منصوبہ تنازعہ کا شکار ہوتا ہے تو اس کی ذمہ داری متعلقہ لوگوں خصوصاً احسن اقبال پر عائد ہو گی، انہوں نے کہا کہ اے این پی کی مجلس عاملہ کے اجلاس میں پختونخوا میں فاٹا کے ادغام کی مکمل تائید کی گئی اور ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ اس میں مزید تاخیر سے وفاق، فاٹا اور صوبہ پختونخوا کو مزید نقصان ہو گا،اس لئے برسوں کا ٹائم فریم دینے کی بجائے فوری طور پر اس تجویز اور مطالبے کو عملی بنایا جائے ، ان کا کہنا تھا کہ ایسا ہونے کی صورت میں پختونخوا ملک کا دوسرا بڑا صوبہ بن جائے گا اور اس کے وسائل اور نمائندگی میں اضافے کا راستہ ہموار ہو جائے گا ،اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی لازمی ہے کہ مردم شماری کرائی جائے اور این ایف سی ایوارڈ کی نئی تبدیلیوں کے تناظر میں تشکیل کی جائے ، انہوں نے کہا کہ ایک منصوبے کے تحت 18ویں اور 19ویں آئینی ترمیم پر عمل درآمد نہیں ہو رہا۔اُنہوں نے صوبائی حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ دو مختلف مراکز بنی گالہ اور سی ایم ہائوس سے بیک وقت حکومت چلانے کے رویے کے باعث صوبہ بدترین انتظامی اور اقتصادی بحران سے دوچار ہو چکا ہے جبکہ بیوروکریسی کھلی مزاحمت پر اُتر آئی ہے۔ اب تو حالت یہ ہو گئی ہے کہ کشکول توڑنے کی باتیں کرنے والے عمران خان صوبہ چلانے کیلئے اب خود ورلڈ بینک اور دیگر اداروں سے قرضے لینے میں مصروف ہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ حکومت کا بجٹ زمینی حقائق کی بجائے محض مفروضوں پر تشکیل دیا گیا تھا اوراسی کا نتیجہ ہے کہ اب صوبہ دیوالیہ ہو چکا ہے اور اس کے باعث کاروبارحکومت کے علاوہ جاری منصوبے بھی رک گئے ہیں۔ امیر حیدر خان ہوتی نے کہا کہ قانون سازی کے عمل کو بھی مذاق بنایا گیا ہے ۔ یونیورسٹیز اور احتساب ایکٹ میں لاتعداد ترامیم اس کی بڑی مثال ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ ہم نے اپنے دور حکومت میں تمام سٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے 2100 میگا واٹ بجلی کے 24 منصوبے شروع کیے جس سے صوبے کو بجلی ملنے کے علاوہ کم از کم 150 ارب کی آمدنی متوقع تھی ۔ موجودہ حکومت وضاحت کرے کہ ان منصوبوں کا کیا ہوا۔ اُنہوں نے کہا کہ 2 نومبر کے عمرانی دھرنے نے عوام کی تشویش میں اضافہ کر دیا ہے۔ عمران خان اگر احتجاج کر رہے ہیں تو اس کے لیے دوسرے فورمز اور عدالتیں موجود ہیں ان کو شہر بند کرنے اور نظام حکومت مفلوج کرنے کے اپنے رویے پر نظرثانی کی ضرورت ہے کیونکہ ملک کو نازک حالات ، عالمی دباؤ اور علاقائی کشیدگی کا سامنا ہے۔