• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میری بیٹیاں,,,,سفارت نامہ…ریاض احمد سید

مجھے بیٹیاں بہت اچھی لگتی ہیں۔ شاید اس لئے کہ اللہ نے ہمیں تین بیٹوں سے نوازا اور بیٹی سے محروم رکھا اور بیٹی والی شفقت اب ہم دنیا بھر کی بیٹیوں میں حسب توفیق تقسیم کرتے رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عام لوگوں کی اگر سنگل ڈجٹ (Single digit)میں بیٹیاں ہوتی ہیں تو ہماری الحمدللہ تھری ڈجٹ (Three digit) میں ہیں۔ تادم تحریر میری آخری بیٹی قائداعظم یونیورسٹی کی ایم فل کی ایک طالبہ ہے۔ دو چار مرتبہ وہ میرے پاس تھیسس کے سلسلے میں رہنمائی کے لئے آئی تو حسب عادت میں نے اسے بھی بیٹی کا اسٹیٹس (Status) دے دیا۔ جب اسے دختر سازی کے میرے اس جنون (Passion) کا پتہ چلا تو پوچھا کہ فہرست میں اس کا کون سا نمبر ہے۔ یہ جان کر کہ اس کا 107/واں نمبر ہے، وہ کہنے لگی کہ اتنے سارے نام یاد رکھنے میں آپ کو دشواری تو ہوتی ہو گی۔ میں نے کہا کہ وہ تو ہوتی ہے لیکن ہم اپنی بزرگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اسے نسیان کے کھاتے میں ڈال دیتے ہیں۔ بہرحال عزیزہ نے پیشکش کی کہ وہ میری سب بیٹیوں کا ڈیٹا بیس بنائے گی۔ سب کے کوائف کمپیوٹر میں محفوظ کرے گی، جو اس نے نہایت سلیقہ مندی سے کیا اور اب مجھے اپنی بیٹیوں کی شناخت کے سلسلے میں کوئی دشواری نہیں ہوتی۔
ہر بیٹی والدین اور معاشرے کے لئے باعث رحمت ہے۔ بیٹی کے ماں باپ کس قدر خوش نصیب ہیں کہ انہیں حضور جناب رسالت مآبﷺ نے خود جنت کی بشارت دی۔ فرمایا: ”جس کسی نے بیٹی کی تربیت کی اور اسے پالا پوسا تو جنت میں وہ میرے اس قدر قریب ہو گا جیسے ہاتھ کی انگلیاں پاس پاس ہوتی ہیں۔“ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے کے بعض طبقے بیٹی کو بوجھ اور دوسرے درجہ کی مخلوق سمجھتے ہیں۔ شاید انہیں علم نہیں کہ بیٹی کے بغیر تو گھر میں رونق ہی نہیں ہوتی۔ زندگی یکطرفہ اور ادھوری سی چلتی رہتی ہے۔ عید، شب برأت کی رنگینیوں کا علم ہوتا ہے اور نہ ہی نت نئے بھڑکیلے، چمکدار فراک اور غرارے دیکھنے کو ملتے ہیں۔ یہ کائنات کا رنگ و نور بیٹیوں کے دم سے ہی تو ہے ورنہ میری ایک عزیزہ کے مطابق مرد تو کپڑے بدلنے کا محض تکلف ہی کرتے ہیں۔ ایک ”بے سوادا“ سا جوڑا اتار کر ویسا ہی دوسرا پہن لیتے ہیں۔ بیٹیوں کے معصوم قہقہے، ان کی فرمائشیں، ان کا روٹھنا اور مان جانا ایک الگ ہی دنیا ہے، جو بیان نہیں کی جا سکتی۔ہمارے ایک دوست تو یہاں تک کہتے ہیں کہ بیٹی نہ ہو تو مرنے کا بھی مزا نہیں۔ بہوئیں غیر مسلسل آنسوؤں کے ساتھ زیادہ سے زیادہ یہی کہہ لیں گی نا کہ ”انکل بہت اچھے تھے۔ مجھے بیٹی سمجھتے تھے۔ بچوں سے بہت پیار کرتے تھے۔“ لیکن منظرنامے میں وہ رقّت ہرگز ہرگز پیدا نہیں ہو سکتی جو قریبی قصبے میں بیاہی گئی ہمارے گاؤں کی ایک لڑکی کے بینوں سے ہوئی تھی۔ باپ کے جنازے پر آئی تو باپ کی بیٹھک پر نظر پڑتے ہی اس دل سوزی کے ساتھ کہا تھا ”وے بابلا! آج بیٹھکاں خالی ہو گئیاں“ کہ سننے والے تڑپ اٹھے تھے۔ پھر لڑکوں والا گھر، گھر کم اور ہوسٹل زیادہ دکھائی دیتا ہے۔ در و دیوار کو ایک حسن اور مہک بخشنے میں وہ بیٹیوں کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ لڑکوں والے گھر میں ایک ہی طرح کے منفرد قسم کے پکوان بنتے ہیں۔ جن میں نئے تجربے نہ ہونے کے برابر ہوتے ہیں۔ پہناوے اور گفتگو میں کسی حد تک بد احتیاطی بھی دیکھنے میں آتی ہے کہ کون سی گھر میں بہن ہے۔ ہمارے ایک دوست کے چار بیٹے ہیں، فوج سے سینئر رینک میں ریٹائر ہوئے ہیں، گھر میں شارٹس پہن کر پھرتے ہیں اور اگر کوئی اظہار حیرت کرے تو فرماتے ہیں ”یار یہاں کون سی لڑکیاں ہیں!“ اور یہی حال ان کے بیٹوں کا ہے۔ ایک اور نقصان یہ ہوتا ہے کہ خالص مردانہ ماحول میں پلنے بڑھنے کی وجہ سے لڑکے صنف نازک کی نفسیات سے بے بہرہ رہتے ہیں۔ایسے گھرانوں میں سب سے بڑا مسئلہ لڑکوں کی شادی کے وقت پیدا ہوتا ہے، ان کے لئے لڑکی کون ڈھونڈے؟ بہن ہے نہیں، ماں کا حلقہ احباب محدود ہے اور باپ کے کرنے کا یہ کام نہیں، ایسے میں بس جو بھی سامنے آ جائے شرف قبولیت پا لیتا ہے۔ جس سے اکثر بعد میں کفو (Compatibility) کے مسائل پیدا ہو جاتے ہیں اور لوگ بھگتتے رہتے ہیں۔ اس موقع پر بہنوں کا کردار بے مثال ہوتا ہے۔ اپنی بیسیوں سہیلیوں، کلاس فیلوز اور کالج/یونیورسٹی فیلوز میں سے بہترین کا انتخاب کرتی ہیں، چاہے وہ بھائی کے ہم پلہ ہو نہ ہو لیکن اپنے استقلال اور کمٹمنٹ کے باعث اکثر کامیاب ہو جاتی ہیں۔ بعض کا خیال ہے کہ اگر بہن نہیں ہے تو تلاش دلہن کا یہ فریضہ لڑکے کی کزنز انجام دے سکتی ہیں لیکن یہ محض خیال خام ہے۔ وہ یہ کام اس تندہی اور انہماک سے ہرگز نہیں کر سکتیں۔ رشتے کی دوری اور باہمی چشمک سرّراہ بن جاتی ہے۔ وہ ہمہ صفت، چندے آفتاب، چندے ماہتاب اپنے بھائیوں کیلئے ڈھونڈتی ہیں یہ کزنز بیچ میں کہاں سے آ گئیں؟ پہلے لڑکے عام طور پر ماں کے ساتھ اٹیچ ہو جاتے ہیں جو شادی کے بعد ان کی ڈس کوالیفی کیشن بن جاتی ہے۔
آخر میں مجھے آپ کے سامنے ایک مسئلہ رکھنا ہے جو میری ایک ایسی ہی پیاری بیٹی نے میرے ساتھ شیئر کیا ہے۔ ان کی بات میں وزن ہے اور مسئلہ کافی سنجیدہ نوعیت کا ہے۔ میں تمام تر غور و فکر کے بعد اس کا کوئی کافی و شافی حل تلاش نہیں کر سکا، ہو سکتا ہے قارئین میں سے کوئی رہنمائی کر سکے۔ میری یہ بیٹی لاہور میں رہتی ہیں۔ اسلام آباد میں اپنے کسی عزیز کے پاس آئی ہوئی تھیں، فون کر کے مجھے بھی ملنے چلی آئیں۔ باتوں ہی باتوں میں انہوں نے اپنے ہینڈ بیگ سے ”اسامیاں خالی ہیں“ کا ایک اخباری اشتہار نکالا جو میرے ہی محکمے سے متعلق تھا۔ اشتہار میرے سامنے رکھ کر کہنے لگیں، سر! آپ کے محکمے نے جونیئر کلرک کی بھرتی کے لئے یہ اشتہار دیا ہے۔ اس اسامی کے لئے کیا کوالیفی کیشن چاہئے اور بھرتی کا کیا طریق کار ہے۔ میں نے بتایا کہ کم از کم تعلیمی اہلیت میٹرک ہونی چاہئے۔ زیادہ پڑھے لکھوں کو ترجیح دی جاتی ہے۔ کمپیوٹر کا علم رکھتا ہو، 30 الفاظ فی منٹ کی رفتار سے ٹائپ کر سکتا ہو، اردو ٹائپ اضافی اہلیت شمار کی جاتی ہے اور عمر پچیس برس سے زائد نہ ہو۔ بی بی گویا ہوئیں، اگر کسی کو کوئی خطرناک قسم کی بیماری یعنی ٹی بی وغیرہ ہو؟ عرض کی کہ اس قسم کے بیماروں کی گنجائش نہیں ہوتی اور منتخب ہونے والوں کا باقاعدہ طبی معائنہ ہوتا ہے۔ خاتون کا اگلا سوال تھا کہ اگر کسی میں یہ سب اہلیتیں ہوں تو کیا اسے فوری بھرتی کر لیا جاتا ہے؟ کہاں بی بی! ایک ایک پوسٹ کے لئے سیکڑوں امیدوار اپلائی کرتے ہیں، مقابلے کا امتحان ہوتا ہے۔ جو سب سے اول نمبر رہے گا نوکری پا لے گا، باقی سب کی چھٹی۔ دفعتاً وہ چپ ہو گئیں تو میں نے کریدا کہ نوکری کس کو چاہئے؟ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے آپ تو ڈاکٹر ہیں۔ وہ بولیں…”نوکری تو کسی کو نہیں چاہئے اور میں واقعی ڈاکٹر ہوں جو کاش کہ میں نہ ہوتی۔“ بیٹے! آپ پہلیاں نہ بجھوائیں، کھل کر بات کریں۔ بولیں، سر! سرکار نے پانچویں گریڈ کا کلرک بھرتی کرنا ہو تو سو جانچ پرکھ کی جاتی ہے۔ ٹیسٹ لئے جاتے ہیں، مقابلہ کروایا جاتا ہے۔ بیسٹ آف دی بیسٹ کی تلاش ہوتی ہے اور یہ سب 30/25 برس کے کنٹریکٹ کے لئے ہوتا ہے جس میں معاوضے اور کام کے علاوہ کوئی چیز داؤ پر لگی نہیں ہوتی لیکن جہاں زندگیاں داؤ پر لگتی ہیں وہاں کسی قسم کی تحقیق و تفتیش، چھان پھٹک اور جستجو کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ سر! میرا مطلب شادی کے کنٹریکٹ سے ہے جس کا دائرہ اثر دو انسانوں تک ہی نہیں پشتوں اور نسلوں تک ہوتا ہے۔ سر میں ڈاکٹر ہوں، میرے والدین کو دائیں بائیں، آگے پیچھے میرا ہم سفر نہ ملا تو مجھے یہ کہہ کر ایک میٹرک پاس پٹواری کے ساتھ بیاہ دیا کہ پیسے والا آدمی ہے سکھی رہو گے اور میری وہ کلاس میٹ جو میٹرک کرنے کے بعد گر پڑ گئی تھی سترہویں گریڈ کے ایک ٹھیک ٹھاک افسر سے بیاہی گئی ہے۔ سر میں یہ تو نہیں کہتی کہ میرے لئے سوئمبر رچایا جاتا لیکن کم از کم کچھ بہتر انتظام تو ہو سکتا تھا۔ اب میری اہلیت، میری لیاقت میری ڈگری اور میری جاب سب بے معنی ہو کر رہ گئی ہیں اور میرا منہ چڑا رہی ہیں۔ سر! یہ ایک میری کہانی تو نہیں، مجھ جیسی لاکھوں اس اذیت اور ناانصافی کا شکار ہیں جسے کمال ڈھٹائی سے مقدر کا نام دے دیا جاتا ہے۔ سر! ہم ہر بات میں دین کا حوالہ دیتے ہیں تو ذرا بتایئے کہ کیا دین میں کوئی کفو نام کی چیز ہے یا نہیں؟ اگر ہے تو ہم اس سے آنکھیں کیوں موند لیتے ہیں۔ آپ جیسے سہا نے شادی کو اندھے کنوئیں کی چھلانگ کہتے ہیں۔ کب تک مجھ جیسی آپ کی بیٹیاں اس اندھے کنوئیں میں غرق ہوتی رہیں گی۔ کیا ترقی کی انتہاؤں کو چھونے والی اکیسویں صدی میں بھی ہمارے لئے اندھیروں کے سوا کچھ نہیں؟“ یہ سب سن کر میں اپنی اس بیٹی سے آنکھیں چار نہ کر سکا، میرے پاس اس کے تیکھے سوالوں کا کوئی جوا ب نہ تھا، شاید آپ کے پاس ہو!
تازہ ترین