آج سے پینتیس برس پہلے شبانہ اعظمی مجھے بمبئی میں جھونپڑپٹی دکھانے لے گئی جو کہ کم ازکم ایک میل پر پھیلی ہوئی تھی ۔ اس نے بتایا کہ ان غریب لوگوں کو روز ایک جگہ سے اکھاڑ کر دوسری جگہ پھینک دیتے تھے ۔ شبانہ اور دوسرے سوشلسٹ دوستوں نے جلوس نکالے اور شور مچایا کہ ان غریبوں کے ساتھ کیا ظلم وزیادتی ہوتی رہتی ہے ۔ یہ ایک دونہیں ، سینکڑوں نہیں ، ہزاروں ہیں ۔ یہ اب کہیں نہیں جاسکتے ہیں ۔ انکو کوئی باقاعدہ جگہ دی جائے ، جہاں وہ حسب مقدور اپنی جھگی ڈال لیں ۔ اسکے بعد یہ یقینی بات ہوگی کہ اسطرح کی آبادیاں کہیں اور نہیں بنیں گی وعدہ بھی ہوگیا اور جھونپڑپٹی آباد بھی ہو گئی یہ الگ بات ہے کہ اب بھی کہیں کہیں اسطرح کی چھوٹی موٹی آبادیاں نظر آتی ہیں ۔ جھونپڑ پٹی میں رہنے والوں نے حسب مقدور گھر بنا لئے اور وہ آبادی دنیا بھر میں مشہور ہے ۔
یہ واقعہ میں نے اسلئے یادکیا کہ ای ۔ الیون میں کچی آبادی کو آناً فا ناًختم کیاگیا ۔ اسمیں اپنی مدد آپ کے تحت اسکول بھی تھے وہ بھی گرادیئے گئے ۔ غریب لوگ طاہرہ عبداللہ کے جلو میں سپریم کورٹ گئے وہاں ابھی خواجہ صاحب چیف جسٹس تھے ۔طاہرہ اور سارے غریبوں کو خیال ہوا کہ ہماری بھی سنی جائیگی ۔ تاہم وہ اردو ہی کو نافذ کرنے کا حکم دیتے ہوئے چلے گئے اب چراغوں میں روشنی کیسے ہو وہی ہوا جوہوتا آیاتھا ۔ سارا دن گزرنے کے بعد ، کیس اگلی پیشی تک کے لئے ملتوی کردیا گیا ۔ سارے غریب بھناتے پھررہے ہیں۔یوں تو گو لڑہ میں لوگوں نے زمین پر قبضہ کرکے مکان بناکر کرائے پر چڑھائے ہوئے ہیں ۔ انہیں کوئی نہیں پوچھتا یہ بھی نہیں بتاتے کہ جب ایک گھر کچی آبادی کے نام پر بنایا گیا تھا ۔ تب کچھ نہ کہا جب80ہزار لوگ وہاں آباد ہوگئے توخواب غفلت سے سی ۔ڈی ۔ اے جاگی پھر جو ہوا وہ دنیا نے بے گھری کی کہانی دیکھی ۔ اسطرح میں ایک دن دھوبی کو ڈھونڈتی ڈھونڈتی G6کے کواٹروں تک پہنچی کہ وہاں سامنے کے گراؤنڈ میں بڑی بڑی چادریں سوکھ رہی تھیں ۔ میں کواٹروں کے اندر چلی گئی گھر والیوں سے بات چیت کی ۔ ہر گھر میں بڑی سی واشنگ مشین رکھی تھی ۔ خواتین کے کپڑے ، گھروالیاں دھوتی تھیں اور مردوں کے کپڑے بستر کی چادریں مرد دھوتے تھے ۔ لڑکے لڑکیاں، اسکول کالج سے واپس آکر کپڑے استری کرتے تھے چادریں اور مردوں کے کپڑے گھر کے مرد استری کرکے ، تیار کپڑوں کی گانٹھ باندھ کر موٹر سائیکل پر گھروں میں تقسیم کرنے جاتے تھے ۔ یہاں مجھے پھر بمبئی کادھوبی گھاٹ یاد آگیا ۔ وہ اتنامشہور دھوبی گھاٹ ہے کہ اس پر فلم بھی بنی ہے اور مجھ جیسے جو پہلی دفعہ بمبئی جائے ، دھوبی گھاٹ ، دیکھنے ضرور جاتا ہے ۔ باقاعدہ لمبی لمبی تالاب جیسی جگہیں بنی ہوئی ہیں جس میں کپڑے دھوئے جاتے ہیں ۔ سینکڑوں بندے کام پر لگے ہوتے ہیں ، کپڑے خشک کرنے کے لئے الگنیاں دور تک بنی دکھائی دیتی ہیں ۔ پوری کالونی ہے۔ جہاں لوگ رہتے بھی ہیں اور دن رات یہی کام کرتے ہیں ۔ مگر مصنوعی شہر اسلام آباد سے یہ خواہش کرنا کہ الگ دھوبیوں کی آبادی اور دھوبی گھاٹ بناہوا ہو کہ اس شہر کے شرفا توبڑے ہوٹلوں سے کپڑے دھلواکر ڈرائیور کے ذریعے منگواتے ہیں ۔ باقی ہمارے جیسے گھروں ہی میں یہ سارا کاروبار کرلیتے ہیں ۔ لیکن جہاں غریبوں کے رہنے کی جگہ نہ ہو ، وہاں دھوبی گھاٹ کیسے بن سکتا ہے پہلے یہ ہوتا تھا کہ کوئی خالی پلاٹ دیکھا ، وہاں پہ عورت اور مرد نے تنور لگالیا ۔ ساٹھ کی دہائی میں انہوں نے دال بھی پکائی ہوتی تھی ۔ چار آنے کی روٹی اور دال مفت ملاکرتی تھی ۔ جن لوگوں کو چسکا ہوتا تھا وہ گھر سے گھی یا مکھن لیجاتے تھے اور یوں تڑکا لگوا کر مزے سے روٹی کھاتے تھے ۔ مہنگائی نے زور پکڑا ۔ دال مفت غائب ہوگئی اور جب افغانیوں نے سنہ80میں قدم رکھا تو باقاعدہ ، تنوروں کی دکانیں قائم ہوگئیں ۔ ہم جیسے لوگ تو ذائقہ بدلنے کے لئے افغانی روٹی کھا لیتے ہیں ۔ مگر جتنے افغانی گھرانے ہیں جو کہ دودس نہیں ہزاروں کی تعداد میں اسلام آباد میں ہیں ۔ ہر طرح کے کاروبار پر ان کا قبضہ ہے ۔ ان سب کے گھروں میں روٹی نہیں پکتی ہے ۔ وہ سب بازار سے دویا دس روٹیاں خرید کر لےجاتے ہیں ۔ ہمارے نخرے والے گھروں میں پھلکے اور چپاتیاں بنتی ہیں ۔
یہاں یاد آتا ہے ۔ ہم سب کے گھروں میں رات کی باسی روٹی کبھی سالن، کبھی دہی یا چھاچھ یا پھر جوبھی رات کا سالن بچا ہوتا تھا اسکے ساتھ کھائی جاتی تھی ۔ پراٹھے کھانے کا رواج بعدمیں چلا، اور ڈبل روٹی تو یہ کوئی بیس برس پرانی کہانی ہے اور اب تو فیشن نے ناشتے میں دلیہ کی جگہ ایسی ایسی نئی نئی چیزیں سامنے لادی ہیں کہ جیب اجازت نہیں دیتی پہلے یہ ہوتا تھا کہ جو روٹیاں بچ جاتی تھیں ۔ انہیں سکھا کر ، خوب دھوکر ، کوٹ کر کبھی میٹھا ڈال کر کھیر بنائی جاتی تھی اور مصالحہ ڈال کر حلیم جیسا بنالیا جاتا تھا ۔ کوشش یہ ہوتی تھی کہ گھر کی کوئی چیز ضائع نہ ہو ۔ اچھا لگا ہے کہ کراچی میں نوجوانوں نے تحریک شروع کی ہے کہ گھروں ، شادیوں اور ہوٹلوں کا بچا ہوا کھانا جمع کرکے ، غریبوں میں تقسیم کیا جائے ایسی اور تحریکیں ہوں تو ہماری عائشہ ممتاز کے سرکا بوجھ کم ہو کہ اسکے چھاپوں کے بعد تو نہ ہوٹل میں کھانے کو جی کرتا ہے اور نہ گوشت خریدنے کو جاگو میرے ملک کے جوانو، کراچی کی طرح تم سب یہ تحریک چلائو۔