• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امید بمقابلہ مایوسی ... تحریر:پروفیسر احسن اقبال

وفاقی وزیر برائے ترقی، منصوبہ بندی و اصلاحات
حالیہ دنوں میں ملک کے اِن قابل نوجوانوں سے تبادلہ خیال کرنے کا موقع ملا جوپاکستان کی ترقی و خوشحالی میں نت نئے بزنس آئیڈیاز کو عملی جامہ پہنانے میں مصروفِ عمل ہیں،بلاشبہ دورِ جدید میں جِدت ہی کسی بھی معاشرے کی ترقی میں کلیدی کردار اداکررہی ہے اور خداداد صلاحیتوں کے حامل نوجوان بزنس مین نہ صرف پاکستان بلکہ عالمی برادری میں ملک کا مثبت امیج اجاگرکرنے میں معاون ثابت ہورہے ہیں۔ کسی بھی نئے کاروبار کی کامیابی کا دارومدارپراورخود اعتمادی اور مثبت سوچ پر ہوتا ہے اور یہ اسی صورت ہی ممکن ہوسکتا ہے جب گلاس کو آدھا بھرا یا آدھا خالی دیکھنے کے حوالے سے سوچ واضح ہو، ازل سے قانونِ فطرت ہے کہ آدھا گلاس خالی دیکھنے والے چاہے جتنے بھی وسائل سے مالامال ہوں ، مایوسی اور ناامیدی کے گہرے کنویں میں گِرکر ناکامی اپنا مقدر بنالیتے ہیں، ناکامی کا خوف انہیں کوئی بھی نیا رِسک لینے سے باز رکھتا ہے جسکی بناء پر مقاصد کا حصول سراسر اپنی ہی منفی اپروچ کی وجہ سے ناممکن ہوجاتا ہے جبکہ آدھا گلاس بھرا دیکھنے والے مثبت سوچ کے حامل افراد درپیش چیلنجز کا مردانہ وار مقابلہ کرتے ہیں، وسائل کی کمی کا رونا رونے کی بجائے مسائل کا پائیدار حل تلاش کرتے ہیں اور ہمتِ مرداں مددِ خدا کے مصداق کامیابی سے ہمکنار ہوجایا کرتے ہیں۔یہی صورتحال عالمی منظرنامے میں بھی ملاحظہ کی جاسکتی ہے جہاں تمام ممالک اپنے مثبت امیج کو اجاگرکرنے کیلئے سردھڑ کی بازی لگاتے ہیں، بدقسمتی سے پاکستان کو ان عناصر کا سامنا ہے جو اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کیلئے صرف اور صرف "ستیاناس"اور"بیڑاغرق"ہی کا الاگ اپنائے رکھ کر ملک و قوم کی بدنامی میں بھرپور حصہ ڈال رہے ہیں، وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ عالمی سیاست میں کسی بھی قوم کی پرامیدی اور مثبت سوچ پر مبنی لائحہ عمل ہی کامیابی کا ضامن ہواکرتا ہے،اِس امر پر اختلاف نہیں کہ پاکستان کو مختلف چیلنجزکا سامنا ہے لیکن گزشتہ تین برسوں میں وزیراعظم نواز شریف کی قیادت میں مختلف شعبوں میں بیش بہا کامیابیوں کی داستانیں بھی رقم کی گئی ہیں۔پاکستان میں جمہوریت کی مضبوطی پر تمام پاکستانیوں کو فخر ہونا چاہیے، ماضی قریب میں عالمی طاقتوں کے ایماء پرایک آمرنے آئین کا گلہ گھونٹنے کی کوشش کی، غیرملکی اشاروں پر ڈالرزکے عوض ملکی مفاد کا سودا کیا گیا،ملک میں دہشت گردی کا بازار گرم کیاگیا، جمہوری معاشرے کی جان عوام کی نمائندہ سیاسی جماعتوں کی مقبول قیادت کو قومی دھارے سے باہر کرنے کی غیرآئینی کوششوں کے باوجود عوام نے آئین کے دائر ے میں رہتے ہوئے جمہوریت، انصاف، مساوات، اور قانون کی حکمرانی کیلئے اپنی پرامن جدوجہد کو کامیابی سے ہمکنار کیا، آج پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں، سول سوسائٹی اور دیگر طبقات کا فیڈریشن کو مضبوط بنانے کیلئے اتفاق ہے۔ اگر آج کے پاکستان کا موازنہ 2013 ؁ء کے پاکستان سے کیا جائے تو واضح طور پر کہا جاسکتا ہے کہ آج کا پاکستان 2013 ؁ء سے کہیں مختلف ہے جب ملک دہشت گردی کے عفریت کا شکار تھا،ریاست کی رِٹ روزبروز کمزور ہوتی جارہی تھی، روزانہ کی بنیادوں پر معصوم عوام کا خون بہایاجارہا تھالیکن بہادر قوم نے امیدی کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا جسکی بدولت آج کے پاکستان میں دہشت گردی کا عفریت آخری سانسیں لے رہا ہے، کامیابی سے دہشت گردوں کا صفایاکیا جارہا ہے جسکی تازہ مثال اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم اور حکومتی اداروں کی چوکسی کی بناء پرحالیہ محرم کا خیروعافیت سے گزرنا ہے۔مجھے یہ بتانے میں فخر محسوس ہورہا ہے کہ موجودہ حکومت کی کامیاب پالیسیوں کا اعتراف عالمی میڈیا بھی کررہا ہے جو 2013 ؁ء میں اپنے تبصروں ، نیوز رپورٹس میں پاکستان کو روئے زمین پر خطرناک ترین ملک کہتا تھا اور آج پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کی بناء پر پاکستان کوتیزی سے ابھرتی ہوئی معیشت اورعالمی سرمایہ کاری کیلئے پرکشش ترین ملک قرار دیتا ہے، ملکی معیشت جوچند برس بیشتر تک تباہی کا شکار تھی آج خطے کی ابھرتی ہوئی معیشت سمجھی جارہی ہے،2013 ؁ء کے پاکستان کے گروتھ ریٹ کا گزشتہ آٹھ برسوں سے موازنہ کیا جائے توآج 4اعشاریہ 8فیصد کی بلند ترین سطع پر پہنچ چکا ہے،پاکستان فارن ایکسچینج ریزرو 23بلین ڈالرز کی تاریخی بلندی کی بدولت آئی ایم ایف کے قرضہ پروگرام سے چھٹکارا پانے میں کامیاب ہوچکا ہے،حکومت اس کامیابی کے مثبت اثرات سے معاشرے کے تمام شعبہ ہائے زندگی مستفید کروانے کیلئے مصروفِ عمل ہے لیکن بدقسمتی سے کچھ عناصر کی جانب سے ایسے بے بنیاد دعویٰ کرکے مایوسی پھیلائی جارہی ہے کہ حکومت نے عوام کو قرضوں میں جکڑ دیا ہے، جبکہ درحقیقت حکومت کی طرف سے گزشتہ تین برسوں میں ڈیبٹ/جی ڈی پی ریشو کو برقرار رکھا گیا ہے، ملک میں شرحِ بے روزگاری 6فیصد سے کم ہوچکی ہے، 2013 ؁ء میں فِسکل ڈیفیسٹ 9فیصدتھا جو آج 5فیصد ہے، موجودہ انفلیشن ریٹ لگ بھگ 5فیصد ہے جوکہ گزشتہ 13سالوں میں کم ترین سطع پرہے ، جی ڈی پی گروتھ ریٹ میں گزشتہ تین برسوں میں اضافہ ہوا ہے، پاکستان اسٹاک ایکسچینج تاریخ میں پہلی مرتبہ چالیس ہزار پوائنٹس عبور کرچکے ہیں،مورگن سٹانلے کیپیٹل انٹرنیشنل (ایم ایس سی آئی)سمیت عالمی ادارے پاکستان کو ایمرجنگ مارکیٹ قراردے رہے ہیں ۔ یہ وہ چشم کشا حقائق ہیں جنکی توقع 2013 ؁ء تک دور دور تک کہیں نہ تھی۔آج انرجی، انفرااسٹرکچر، ٹرانسپورٹ اور ہایئرایجوکیشن کے شعبوں میں بھاری سرمایہ کاری کی جارہی ہے، ملکی تاریخ میں پہلی بار آئی ایم ایف نے اپنا پروگرام کامیابی سے مکمل کیا ہے، موڈیز، اسٹینڈرڈ اینڈپورز جیسے عالمی اداروں نے پاکستان کی کریڈٹ ریٹنگ کو پازیٹو قرار دیا ہے،ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل اور دیگر اداروں کی غیرجانبدارانہ رپورٹس اس بات کی گواہ ہیں کہ ملک میں کرپشن میں کمی آئی ہے، گلوبل کمپیٹیٹونیس انڈکس میں پاکستان کی رینکنگ برائے 2015-16 ؁ء بہتر ہوئی ہے، شرح خواندگی 60فیصد تک ہوچکی ہے، بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام اور پرائم منسٹرز نیشنل ہیلتھ پروگرام کی بدولت معاشرے کے پِسے ہوئے غریب عوام کی حالت بہتر کرنے کیلئے اقدامات اٹھائے جارہے ہیں،آئی ٹی انڈسٹری میں پاکستانی نوجوان اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا رہے ہیں، پاکستان کو آئی سی ٹی کے شعبے میں نئے بزنس پراجیکٹس کے حوالے سے موزوں ترین سمجھا جا رہاہے،تھری جی اور فور جی متعارف کروانے کے بعد سی پیک منصوبے کے تحت آپٹیکل فائبر سے ملک میں مزید تیز رفتار انٹرنیٹ کی فراہمی یقینی بنائی جارہی ہے ، پاکستان نے اپنے ہم پلہ ممالک کے گروپ میں بھی بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے جو ماضی میں سیاسی عدمِ استحکام اور پالیسیوں میں تسلسل نہ ہونے کی وجہ سے ممکن نہ ہوسکا۔ یہ وہ حقائق ہیں جو میں آپ کے سامنے رکھ کر کہہ سکتا ہوں کہ آج کا رائزنگ پاکستان درست سمت کی جانب گامزن ہے۔اسکی بنیادی وجہ میرا گلاس کا آدھا بھراہوا دیکھنا ہے۔ ایسے حالات میں جب حکومت وقت کو ناحق تنقید کا نشانہ بناجارہا ہو میری پاکستانی معاشرے میں مثبت پہلو تلاش کرنے کی عادت اس نتیجے پر پہنچتی ہے کہ اختلافِ رائے کسی بھی جمہوری معاشرے کا حسن ہے، ہمارے سیاسی مخالفین سمیت دیگر ناقدین کو تنقید کرتے وقت پاکستان کی ترقی و خوشحالی پر مبنی منصوبوں کو نشانہ بنانے کی بجائے حکومت کے ہاتھ مضبوط کرنے چاہیے۔ معاشرے میں پرامیدی اور مثبت سوچ اجاگر کرنے کا پیغام عام کرتے ہوئے میں توقع کرتا ہوں کہ ناقدین کو تنقید کرتے ہوئے توازن رکھنا چاہیے، آدھا گلاس خالی دیکھنے کی عادتِ بد سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہیے اور پاکستان سے منسلک مثبت کامیابیوں کو اجاگر کرنے کیلئے تعاون کا ہاتھ تھامنا چاہیے ورنہ اندیشہ ہے کہ مایوسی کے سوداگر قوم کا مورال ڈاؤن کرنے کا باعث بنیں گے جوکہ کسی صورت ملکی مفاد میں نہیں ہے۔


.
تازہ ترین