بہت پرانی بات ہے میں نیا نیا جوان ہوا تھا۔جسم میں آگ بھی تھی اور دماغ میں نظریات بھی دہکتے تھے۔میںکسی کام کے سلسلےمیںکالاباغ گیا۔میری نظر ایک بوڑھے آدمی پر پڑی جو بظاہر پاگل لگ رہا تھا۔وہ سڑک کے کنارے بیٹھا تھااور پتھر اٹھااٹھا کر سڑک پر اس طرح پھینکتا تھا جیسے سڑک کو مار رہاہو۔ میںنے ازراہِ مذاق کہہ دیا۔’’بابا سڑک سے کیا دشمنی ہے ۔بے چاری کو کیوں مار رہے ہو۔‘‘اس کا ہاتھ اٹھا کا اٹھا رہ گیا۔اس نے عجیب وحشت بھری نظروں سے مجھے دیکھا اورپھر پورے زور سے سڑک پر پتھر مار کر بولاا’’اس کالی بلا کی ایسی کی تیسی (اور پھر ایک خاصی بھاری بھرکم گالی دے کر)اس نے مجھے تباہ کردیا ہے ۔لے گئی ہے چھین کر میرے لوگ ۔‘‘میں نے اُسے چھیڑتے ہوئے کہا ’’بابااِس کا کچھ نہیں بگڑے گا۔یہ شہر والوں کو بڑی پیاری ہے۔
کچھ ہوا بھی تو وہ پھر ٹھیک کرلیںگے‘‘بوڑھے نے کسی لیڈر کی طرح مجھے کہا’’تُو کچھ نہیں جانتا ۔اس کالی بلانے بڑا ظلم کیا ہے ۔تجھے کیا پتہ آدھے سے زیادہ گھر خالی پڑے ہیں اس شہر میں۔جب سے یہ سڑک بنی ہے۔ لوگ دھڑا دھڑ جارہے ہیں ۔صدیوں سے آبادیہ میرا شہر آسیب زدہ بستی بنتا جارہا ہے ۔‘‘ میں نے کہا’’بابا ہجرت اس وقت بھی ہوتی تھی جب سڑکیں نہیں ہوا کرتی تھیں۔تم یہ کیوں نہیں سوچتے کہ لوگ کس ڈر سے گھر چھوڑ گئے ہیں‘‘یہ جملہ سن کر وہ خوف زدہ ہو گیا اِدھراُدھر دیکھنے لگا کہ کوئی ہماری باتیں سن تو نہیں رہا اورپھر یقین کرلینے کے بعد بولا ’’خاموش رہ ۔ایسی باتیں کرنے والے قبروں میں چلے جاتے ہیں یا نواب صاحب کی جیلوں میں ۔‘‘ میں نے ہنس کر کہا ’’بابا وہ زمانہ گزر گیا ہے ۔ یہاںجیلیں ختم کردی گئی ہیں اور اب محلات کو بھی قبروں کے چوکھٹے بنانے کی اجازت نہیں۔ یہ کارنامہ اِسی کالی بلا نے سر انجام دیا ہے ۔جسے تم پتھر مار رہے ہو۔یہی بنی تو اسکول بنے ۔ یہی بنی تو کاروبار بنا۔یہی بنی تو گلوں میں رنگ بھرے ۔‘‘
تسلیم کہ کالاباغ دنیا کے اُن چند شہروں میں سے ایک ہے جس کی آبادی ایک دور میںمسلسل کم ہوتی رہی ۔یہاں تک عطااللہ عیسیٰ خیلوی بھی یہ گانے پر مجبور ہوگیا۔(کوئی تاں نشانی ڈس چناں تُوں پیاردی ۔۔کیوں گھٹ گئی اے ابادی تیڈئے شار دی ۔کوٹھیاں دا کاٹھ پٹ چلے کمزور وے ۔اساں گُھٹ پیتی اے تے مچ گیا شور وے )
کالاباغ میں جو انقلاب آیا۔اس میںاُس سڑک کے کردار سے انکار ممکن نہیںجس نے اُسے پوری دنیا سے جوڑ دیاتھا۔ زمانہ قدیم سے سڑک تبدیلی کی علامت سمجھی جاتی ہے ۔دنیا کی قدیم ترین سڑک’’ انکا روڈ‘‘ آج بھی قدیم انجینئرنگ کا نادر نمونہ سمجھی جاتی ہے ۔
اہل تحقیق کے خیال میں تہذیب کے حیرت انگیز انفراسٹرکچرمیں اس سڑک کا اہم ترین کردار ہے ۔ اُسی سڑک نے اُس چھوٹی سی ریاست کو ایک بڑی سلطنت میں بدل دیا تھا۔برصغیر کی قدیم ترین سڑک موریہ بادشاہوں نے بنائی تھی یہ ٹیکسلا سے نکلتی تھی۔اُس زمانے میں ٹیکسلا کو تہذیب کا گہوارہ بنانے میں اُس کی معجز نمائی سے انکار نہیں کیا جاسکتا ۔اُسی سڑک کے خدوخال پر کچھ اضافوں کے ساتھ شیر شاہ سوری نے’’ جرنیلی سڑک‘‘ تعمیر کرائی۔ جس نے مغلوں کے اقتدار کو طویل تر کیا۔پھر انگریزوں نے اپنی حکومت کو مضبوط کرنے کیلئے اسی سڑک کواورآگے بڑھایااور سینکڑوں نئی سڑکیں بنائیں ۔یہ سلسلہ پاکستان بننے کے بعد بھی جاری رہا ۔ہر قصبے اور ہر گائوں تک سڑک پہنچانے کی کوشش کی جاتی رہی کہ یہ تبدیلی کی علامت ہے۔اسی پہ چل کر روشنیاں گھر گھر پہنچتی ہیں ۔پاکستان میں انہی سڑکوں نے جاگیردارانہ نظام کو کمزور کیا۔روزگارکے نئے مواقع فراہم ہوئے ۔زندگی کی رفتار تیز ہوئی ۔آج بھی پاکستان میں پہلی موٹر وے کی تعمیرکووزیر اعظم نواز شریف کاسب سے اہم کارنامہ سمجھا جاتا ہے ۔اور اب یہ کاشغر کو گوادر سے ملانے والی سڑک ۔اِس نے توایک دنیا کو پریشان کر رکھا ہے ۔ ۔یہ سڑک ایک بہت بڑی تبدیلی کا پیش خیمہ ہے۔اِس سڑک کے وسائل سے بین الاقوامی مسائل حل ہونے کا امکان ہے ۔یہ سڑک پاکستان کو ایک روشن اور تابناک دور میں داخل کرے گی۔یہ عام لوگوں کے حالاتِ زندگی بدلنے والی سڑک ہے ۔یہ تازہ بستیاں آباد کرنے والی سڑک ہے ۔یہ سڑک کسی کو بے روزگار نہیں رہنے دے گی ۔فاقہ زدہ آنگنوں میںتبسم بکھیر دے گی ۔مفلسی کی پلکوں پر تھرتھراتے ہوئے آنسوئوں کو موتیوں میں بدل دے گی۔بقول فیض ۔سنی گئی ہے بالآخر برہنہ پائی کی ‘‘
چین میں بھی اس سڑک کی تعمیر کو کتنی اہمیت دی جارہی ہے اس کا اندازہ اس واقعہ سے لگائیے میرا ایک بزنس مین دوست جو چین سے برطانیہ میںمختلف چیزیں امپورٹ کرتا ہے ۔کل کاشغر سے واپس آیا تو مجھے کہنے لگا۔میں کاشغرمیں جس چینی کا مہمان تھا ۔وہ مجھے ایک دن اپنے ساتھ شہر سے باہر تقریباً تیس کلو میٹر دور لے گیاکہ تمہیں ایک بہت خاص چیز دکھانی ہے ۔ وہاںایک قطعہِ اراضی دکھا کرکہنے لگا میں نے یہ زمین خریدی ہے۔ وہ زمین دو ایکٹر سے زیادہ نہیں تھی۔وہاں کام جاری تھا چاردیواری تعمیر ہورہی تھی۔ بہت پر جوش تھا ۔بتانے لگامیں بہت بڑا ویئر ہائوس بنا رہا ہوں۔یہاں سے بیک وقت ایک سو ٹرالروں پر سامان لوڈ کیا جا سکے گا ۔میں حیران پریشان کہ شہرسے اتنی دور یہ سامان رکھنے کیلئے اسٹورز بنا رہا ہے۔ پاگل تو نہیں ہوگیا ۔ یہاں کس نے آنا ہے ۔میں نے آخر کار اُس سے کہہ دیا کہ میرے نزدیک تو یہ جگہ کاروبار کیلئے قطعاً مناسب نہیں۔میرے خیال میں تم اپنا سرمایہ ضائع کر رہے ہو۔اس نے مجھے بازو سے پکڑا اورسڑک پر لے آیا ۔پھر جاتی ہوئی سڑک کی طرف اشارہ کر کے بولا ’’یہ سڑک سیدھی گوادر جارہی ہےــ‘‘۔