جنرل(ر) پرویز مشرف کے سیاسی اور آئینی جرائم کی فہرست بہت طویل ہے۔ آئین کو پہلے توڑا ۔ پھراس کا حلیہ بگاڑا اور عدلیہ کو ہاتھ کی چھڑی بنانے کی کوشش کی۔اپنے اقتدار کو مقدم اور قومی مفاد کو موخر رکھا۔وہ فوج جیسے قومی ادارے کو متنازع بنانے کا موجب بنے۔ احتساب کے نام پر سیاسی بلیک میلنگ کی۔ کراچی میں آج فوج کے جوان جن کانٹوں کو چن رہے ہیں ٗ ان کواگایا جنرل ضیاء الحق نے تو بچھایا جنرل پرویز مشرف نے ۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ وار آن ٹیرر کے حوالے سے ڈبل گیم سے کام لے کر پاکستان کو دہشتستان بنایا ۔ وغیرہ وغیرہ ۔ لیکن اس سب کچھ کے باوجود میرے ذہن نے کبھی اس دعوے کو قبول نہیں کیا کہ بے نظیر بھٹو کو مارنے میں جنرل پرویز مشرف کا کوئی ہاتھ تھا۔ یہ افواہیں اور سازشی تھیوریاں بڑی حد تک دم توڑ گئی تھیں لیکن اب جبکہ ایک امریکی لابیسٹ مارک سیگل نے اس حوالے سے بیان دے دیا تو ایک بار پھر زور پکڑ گئیں۔ حالانکہ مارک سیگل جیسے لوگوں کی باتوں پر شاید ان کے ملک کے اندر بھی کوئی شخص یقین نہ کرے لیکن نہ جانے ہم امریکہ سے کیوں اس قدر مرعوب ہوگئے ہیں کہ ان کا کوئی سازشی ذہن جب بھی چاہے کوئی بیان دے دیتا ہے اور اس سے ہمارے ملک میں طوفان کھڑا ہوجاتا ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ مارک سیگل ایک لابیسٹ اور بنیادی طور پر سازشی انسان ہے ۔ انہیں بے نظیر بھٹو سے اس وقت تک ہمدردی تھی جب تک وہ ان سے فیس بٹورتا رہا ۔ ان میں اگر اخلاقی جرات ہوتی تو وہ ان کے قتل کے فوراً بعد پاکستان آکر تحقیقات میں معاونت کرتے ۔ دوسری بات یہ کہ وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ جس وقت انہیں بے نظیر بھٹو کی کال آئی اس وقت آصف علی زرداری بھی موجود تھے ۔ اب بے نظیر بھٹو کے وارث، مارک سیگل نہیں بلکہ آصف علی زرداری ہیں لیکن انہوں نے کسی انکوائری کمیشن کے سامنے پیش ہونے کی ضرورت محسوس کی اور نہ کبھی اس دعوے کی تائید کی ۔ پھر سوال یہ ہے کہ کیا پرویز مشرف کو یہ بھی علم نہیں تھا کہ غیرملکی ایجنسیاں ان کے اور بے نظیر بھٹو کے فون کو ٹیپ کررہی ہیں ؟۔انہیں اگر بے نظیر بھٹو کو دھمکی دینی بھی تھی تو اس کیلئے موبائل فون کے علاوہ کوئی اور ذریعہ استعمال نہیں کرسکتے تھے ۔ بدقسمتی سے پیپلز پارٹی نے بھی بے نظیر بھٹو کے قتل کو سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کیا اورمحترمہ بھی جب تک زندہ تھیں وہ بھی اپنی زندگی کو لاحق خطرے کے معاملے کو سیاسی فائدے کیلئے استعمال کرتی رہیں۔ انہوں نے ای میل میں جن چار لوگوں پر اپنے قتل کی سازش کا الزام لگایا ان میں جنرل پرویز مشرف ٗ جنرل (ر) حمید گل ٗ چوہدری پرویز الٰہی اور بریگیڈئر(ر) اعجاز شاہ شامل تھے۔ اب ہم سب جانتے ہیں کہ اس وقت جنرل پرویز مشرف اور جنرل حمید گل ایک دوسرے کا نام سننا گوارا نہیں کرتے تھے ۔ اب ان حالات میں جنرل حمیدگل ٗ جنرل پرویز مشرف کے ساتھ مل کر کس طرح بے نظیر بھٹو کے قتل کا منصوبہ تیار کرسکتے تھے؟۔ چونکہ طالبان یا القاعدہ کا نام لینے سے پیپلز پارٹی کی قیادت کیلئے خطرات مزید بڑھ سکتے تھے اور اس کا کوئی سیاسی فائدہ بھی نہیں تھا ٗ اس لئے وہ ابتداء میں کبھی پرویز مشرف کی طرف اشارہ کرتے اور کبھی قاتل لیگ قاتل لیگ پکارتے لیکن اگر واقعی پیپلز پارٹی کی قیادت کی نظروں میں بے نظیر بھٹو کے قتل میں پرویز مشرف اور پرویز الٰہی کا کوئی ہاتھ تھا تو پھر پرویز مشرف کو گارڈ آف آنر کیوں دیا گیا اور پرویز الٰہی کو زرداری صاحب نے اپنی حکومت میں نائب وزیراعظم کیوں بنایا ؟۔ اگر یہ مان لیا جائے کہ بے نظیر بھٹو نے پرویز مشرف کیساتھ ہونے والے معاہدے کی خلاف ورزی کی تھی اور ان کی سیاسی سرگرمیوں پرپرویز مشرف خوش نہیں تھے تو بھی اس سے یہ بات کہاں سے نکلتی ہے کہ وہ ان کے قتل کی سازش میں بھی شریک تھے ۔ ان کا ایسا ارادہ ہوتا تو ایک رات قبل ڈی جی آئی ایس آئی جاکر ان کو خطرے سے کیوں آگاہ کرتے ۔ یہ بھی ذہن میں رہے کہ اس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی جنرل (ر) ندیم تاج سیاسی مزاج کے حامل متنازع ڈی جی آئی ایس آئی نہیں تھے بلکہ ایک خالص پروفیشنل تھے جو اپنی ڈیوٹی سرانجام دینے کے بعد خاموش زندگی گزاررہے ہیں۔مستقبل کے لحاظ سے پرویز مشرف کو بے نظیر بھٹو سے نہیں بلکہ میاں نوازشریف سے زیادہ خطرہ تھا۔ وہ جانتے تھے کہ میاں نوازشریف منتقم مزاج انسان ہیں جبکہ اقتدار انہوں نے بے نظیر سے نہیں بلکہ میاں نوازشریف سے چھینا تھا۔ معاہدے کی خلاف ورزی بے نظیر بھٹو سے بڑھ کر میاں نوازشریف نے بھی کی تھی ۔ جنرل پرویز مشرف اگر قتل کی سازش تیار کرنے کے اتنے ماہر تھے تو پھر خاکم بدہن انہوں نے میاں صاحب کیخلاف کوئی سازش کیوں تیار نہیں کی؟۔
پاکستان سازشی نظریات سے مالامال ملک ہے ۔ یہاںآج بھی ان لوگوں کی کمی نہیں جو یہ دعویٰ کررہے ہیں کہ ایبٹ آباد آپریشن کے وقت اسامہ بن لادن وہاں موجود نہیں تھے اور ایک بڑا طبقہ آج بھی یہ ماننے کو تیار نہیں کہ طالبان کی شکل میں جو لوگ پاکستانی فوج سے لڑرہے ہیں ٗ وہ مسلمان اور پاکستانی ہیں ۔ میں بھی چاہوں تو بے نظیر بھٹو کے قتل میں جنرل پرویز مشرف کے شریک ہونے پرسو دو سو صفحات کے سازشی نظریات اور ان کے دلائل تحریر کرسکتا ہوں جبکہ زرداری صاحب کو شریک جرم بنانے کے سازشی نظریے کے حق میں تو چار پانچ سو صفحات آسانی کے ساتھ لکھے جاسکتے ہیں لیکن اگر بے نظیر بھٹو کے قاتلوں کو ذہن میں رکھا جائے تو حقیقت تک رسائی میں کوئی مشکل پیش نہیں آتی۔ میں اپنی ذاتی تحقیق کے ذریعے خود بھی اس نتیجے تک پہنچا ہوں اور تمام قرائن اور شواہد بھی پتہ دیتے ہیں کہ بے نظیر بھٹو کو تحریک طالبان پاکستان نے القاعدہ کے ایما ء پر قتل کیا۔ اب تک اس حوالے سے میں نے جو کچھ سناٗ پڑھا اور دیکھا ہے ٗ ان کے تناظر میں ٗ میں اس بات پر مطمئن ہوں کہ بے نظیر بھٹو کو القاعدہ کی قیادت کے ایما پر بیت اللہ محسود کے حکم سے ان کے طالبان نے قتل کیا اور اس دعوے کی تائید بے نظیر بھٹو کے سیاسی جانشین یوسف رضاگیلانی اور سیاسی وارث آصف علی زرداری بھی کرچکے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بے نظیر بھٹو سے القاعدہ اور طالبان کی دشمنی کیا تھی؟ تو اس کے جواب میں عرض ہے کہ القاعدہ کی قیادت شروع دن سے نظیر بھٹو کو اپنا مسلکی مخالف اور امریکہ کا آلہ کار سمجھ رہی تھی۔ یہ دشمنی اتنی پرانی تھی کہ اسامہ بن لادن نے ابتدائی دنوں میں میاں نوازشریف کی بھرپور مدد کی تھی۔ القاعدہ اور طالبان کی قیادت کا یہ خیال تھا کہ امریکہ نے بے نظیر بھٹو اور پرویز مشرف کی ڈیل اس بنیاد پر کی ہے کہ وہ دونوں مل کر خطے سے ان دونوں کا قلع قمع کریں۔ گویاپرویز مشرف کی موجودگی میں بے نظیر بھٹو کا وزیراعظم بننا وہ اپنے لئے بڑا خطرہ سمجھ رہے تھے ۔ اب جبکہ یہ بات طے ہے کہ قتل کا منصوبہ القاعدہ اور طالبان نے تیار کیا تو پھر ان کی قیادت کے ساتھ پرویز مشرف کے گٹھ جوڑ کی کوئی منطق مارک سیگل اور ان کے سازشی نظریے کے حامیوں کو دینی ہوگی۔یہ اس طرح کا دعویٰ ہے کہ کوئی یہ کہہ کہ نریندرا مودی نے حافظ سعید کے ساتھ مل کر سونیا گاندھی کو قتل کرنے کی سازش تیار کی۔ جہاں تک میں سمجھتا ہوں تو ان دنوں اسامہ بن لادن یا بیت اللہ محسود کے ساتھ پرویز مشرف کے ساز باز اور وہ بھی بے نظیر بھٹو کو مارنے کیلئے ٗ کا کوئی امکان موجود نہیں تھا۔ القاعدہ کے خالد شیخ محمد جیسے اہم ترین لوگ پرویز مشرف کے دور میں پکڑ کر امریکہ کے حوالے کئے جاچکے تھے ۔ خود پرویز مشرف کو مارنے کیلئے القاعدہ اور تحریک طالبان نے دو حملے کئے تھے اور کئی مزید منصوبے ناکام بنائے جاچکے تھے۔ اگر تو یہ کام افغان طالبان یا کسی پاکستانی جہادی گروہ نے کیا ہوتا پھر بھی گٹھ جوڑ کا کوئی امکان تلاش کیا جاسکتا تھا ۔ لیکن میں نہیں سمجھتا کہ اس عالم میں جبکہ پرویز مشرف کی حکومت ٗ القاعدہ اور پاکستانی طالبان کے ساتھ حالت جنگ میں تھی ٗ نے مل کر بے نظیربھٹو جیسی لیڈر کے قتل کی سازش تیار کی ہوگی۔ زیادہ سے زیادہ یہ الزام لگایا جاسکتا ہے کہ حکومت کماحقہ سیکورٹی فراہم نہ کرنے کی غفلت کی مرتکب ہوئی لیکن ایک رات قبل ڈی جی آئی ایس آئی کا خود بے نظیر بھٹو سے ملاقات اور انہیں خطرے سے آگاہ کرنا ٗ کیا غیرمعمولی حساسیت کا اظہار نہیں ۔ پھر اگر سیکورٹی نہ ہوتی تو جلسہ گاہ میں ان کو نشانہ بنایا جاتا ۔ اگر بے نظیر بھٹو اس وقت گاڑی سے سر باہر نہ نکالتیں تو پھر بھی تو انتظامات کافی تھے۔ مکرر عرض ہے کہ پرویز مشرف کے سیاسی جرائم کی فہرست بہت طویل ہے ۔ مجھے ان سے کوئی ہمدردی ہے نہ تو کوئی غرض لیکن کسی کی مخالفت میں حق کا دامن چھوڑنا اور ایک سابق وزیراعظم کے قتل کے معاملے کو مزید الجھنوں کا شکار بنانا اور اسے سازشی تھیوریز کی بھینٹ چڑھانا بھی درست نہیں ۔