• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ماضی کے خزانے.....وغیرہ وغیرہ …شوکت تھانوی

روزنامہ جنگ کراچی…7 / مارچ 1959ء
اس خبر وحشت اثر نے سب کو بے حد پریشان کر دیا ہے کہ دوسرے ٹیسٹ میچ میں جو 8 مارچ سے ڈھاکہ میں شروع ہو رہا ہے، حنیف نہ کھیل سکیں گے۔ گویا حنیف کے بغیر ہماری ٹیم کو صرف نحیف کہا جا سکتا ہے۔ چنانچہ لوگ ایک دوسرے سے پوچھتے پھرتے ہیں کہ حنیف نہ ہوں گے تو سنچری کون بنائے گا اور وکٹ کے سامنے آ کر ” کل محمد “ کون ثابت ہو گا۔ ایک صاحب کہنے لگے کہ حنیف کی ایک انگلی مجروح ہے لہٰذا ہم اس کیلئے تیار ہیں کہ وہ بجائے سنچری بنانے کے اس ایک انگلی کے حصے کے رن نہ بنائیں اور صرف نوّے بنا کر آؤٹ ہو جائیں مگر یہ تو بڑا غضب ہے کہ وہ کھیل میں شامل ہی نہ ہوں۔ اس خبر نے لوگوں کو ایسا مایوس کر دیا ہے کہ وہ ابھی سے کہنے لگے ہیں کہ ڈھاکہ کا یہ میچ ” ڈھاک کے تین پات “ ہی ثابت ہوں گے۔
اس میں شک نہیں کہ علیم الدین بھی آخر نہایت آزمودہ کھلاڑی ہے، یہ وہی بیٹسمین تو ہے جس نے اسی ویسٹ انڈیز کے خلاف بہاولپور میں ابھی پچھلے ہفتہ تراسی رن بنائے تھے، مگر معلوم نہیں کیا بات ہے کہ علیم کے متعلق لوگ کہتے ہیں کہ وہ بہت اچھا کھلاڑی سہی مگر اللہ ہی علیم ہے کہ وہ کیا گل کھلائے جم گیا تو جم گیا ورنہ کرکٹ پر یہ الزام رکھتا ہوا واپس آ سکتا ہے کہ کرکٹ اتفاقات کا کھیل ہے۔ ہم تو خیر علیم کو بھی نہایت قابل اعتماد بیٹسمین سمجھتے ہیں مگر چونکہ اس کا نام حنیف کے نعم البدل کے طور پر لیا جا رہا ہے لہٰذا عام طور پر لوگ ” خیر “ کہہ کر رہ جاتے ہیں گویا ان کو حنیف کی علالت کی خبر سن کر علیم کی خیریت خداوند کریم سے نیک مطلوب ہے اور معلوم یہ ہوتا ہے کہ وہ مسلم علیم کے بجائے ایک انگشت کم حنیف کو زیادہ پسند کر رہے ہیں۔
حنیف کی ایک انگلی پر پلاسٹر چڑھا ہوا ہے اور فضل محمود کے گھٹنے میں درد ہے۔ لہٰذا عام خیال یہ ہے کہ ڈھاکہ کا یہ میچ کچھ ” ماروں گھٹنا پھوٹے آنکھ “ کی قسم کا ہو گا۔ گویا ایک بہترین بیٹسمین غائب ہے اور دوسرا بہترین بولر بھی ناٹک کر رہا ہے اس کے باوجود اگر پاکستان کی ٹیم ویسٹ انڈیز سے جیت جائے تو ہم کرکٹ کو پاکستانیوں کے بائیں ہاتھ کا کھیل سمجھ لیں گے۔ عام طور پر لوگوں سے تبادلہٴ خیال کرنے کے بعد ہم اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ وہ کچھ عجیب و غریب قسم کا حساب لگا کر کہہ رہے ہیں کہ حنیف کی دس انگلیوں میں سے اگر ایک بیکار ہے تو ہم اس کے لئے تیار ہیں کہ کراچی کی طرح دس وکٹ سے نہ سہی نو ہی وکٹ سے ڈھاکہ کا میچ جیت لیتے مگر یہ تو بڑا ظلم ہے کہ وہ باقی نو تندرست انگلیوں سے بھی کام نہیں لینا چاہتے اور ایک انگلی تڑوا کر ایسے شہیدوں میں داخل ہوئے ہیں کہ ٹیم ہی سے اپنے کو نکلوا لیا ہے اور محض ایک انگشت کی وجہ سے ہم کو یکمشت سو رنوں کے گھاٹے کے خطرے میں مبتلا کر دیا ہے۔
سوال یہ ہے کہ اب ویسٹ انڈیز کے بولر کس کو کھلا کھلا کر اپنے بازو شل کریں گے۔ ویسٹ انڈیز کے کپتان صاحب کس کے لئے گھبرا گھبرا کر بولر تبدیل کریں گے اور حنیف کی طرح وہ کون سا کھلاڑی ہے جو وکٹ کے سامنے ایسی چٹان ثابت ہو جس سے مہمان ٹیم کے بولر سر پھوڑ پھوڑ کر عاجز آ جائیں۔ بات دراصل یہ ہے کہ دوسرے کھلاڑی نہایت لا جواب سہی نہایت مشتاق اور نہایت با کمال سہی مگر ان کو سنچری بنانے کے لئے محنت کرنا پڑتی ہے۔ سنچری بنانا حنیف کی طرح کسی کی عام عادت نہیں ہے۔کرکٹ کا کھیل حنیف کے لئے بھی اتفاقات کا کھیل ہے مگر یہ اتفاق کبھی کبھی ہوتا ہے کہ وہ بغیر سنچری بنائے آؤٹ ہو جائیں ورنہ سنچری بنانے کی ان کو کچھ عادت سے پڑ گئی ہے اور سنچری بنانا ان کے معمولات میں شامل ہو کر رہ گیا ہے۔ یہ اعتماد کسی اور کھلاڑی پر بمشکل کیا جا سکتا ہے کہ وہ کھیلنے گیا تو اسکور لکھنے والوں نے سو رن تو پیشگی لکھ ہی لئے اس کے بعد اگر جی چاہا تو دوسرا سیکڑہ بھی بنا لیا ورنہ اپنی عادت کے مطابق سیکڑہ گنوا کر چلے آئے۔حنیف کے نہ کھیل سکنے پر ہم سب کے دل اس لئے بجھ کر رہ گئے ہیں کہ ہم دراصل صرف جیتنا چاہتے ہیں، ہارنے کی تاب ہم میں نہیں ہے۔ اگر کراچی کا پہلا ہی ٹیسٹ میچ ہم خدا ناخواستہ ہار گئے ہوتے تو آج ڈھاکہ کے میچ کا کوئی چرچا ہی نہ ہوتا بلکہ اگر کسی کو یاد بھی دلایا جاتا کہ ڈھاکہ میں 8 مارچ کو دوسرا ٹیسٹ میچ شروع ہو رہا ہے تو وہ منہ بنا کر ہو رہا ہو گا پھر ہم کیا کریں قسمت میں جتنی بدنامی لکھی ہے وہ وہاں بھی ہو گی اور عام چرچے کچھ اس قسم کے ہوتے کہ :۔
” سوال یہ ہے کہ جب ایک کھیل تم کو آتا ہی نہیں تو کس حکیم نے نسخہ میں لکھا ہے کہ کھیلو ضرور “۔
” جی ہاں اپنا اچھا خاصا گلی ڈنڈا چھوڑ کر کرکٹ کھیلنے چلے ہیں۔
” اور نہیں تو کیا وہی مثل کہ کوا چلا ہنس کی چال اپنی بھی بھولا “۔
” لاکھوں روپیہ صرف کر کے یہ بدنامی سمیٹتے پھرتے ہیں “۔
مگر چونکہ یہ میچ جیت گئے ہیں لہٰذا کرکٹ کو اپنا قومی کھیل کہہ رہے ہیں اور اس کے لئے قطعاً تیار نہیں کہ اب کوئی میچ ہارنے کے امکان پر بھی غور کریں۔کوئی بھی کھیل ہو ہار اور جیت کا چولی دامن کا ساتھ رہتا ہے مگر ہم کوئی ایسا کھیل کھیلنے کو تیار نہیں ہوتے جس میں ہار کا بھی امکان ہو۔ یہی حنیف جو بڑے ہیرو بنے ہوئے ہیں اور جن کو کرکٹ کے عشاق آنکھوں کا نور اور دل کا سرور سمجھتے ہیں دل کا ناسور ثابت ہو سکتے ہیں مگر ایک آدھ ہی سپاٹ اڑ جائیں۔ ان کے تمام کارناموں کو لوگ یکسر بھول جائیں گے اور کہنا شروع کر دیں گے کہ جی ہم نے خواہ مخواہ ان صاحبزادے کو آسمان پر چڑھا کر ہاتھ سے بے ہاتھ کر دیا۔ اندھے کے ہاتھ کی بیڑ تھیں وہ چند سنچریاں جو ان حضرت نے بنائی تھیں ورنہ کہاں وہ لوگ جن کا یہ قومی کھیل ہے کہاں ہم اناڑی، سخت تضیع اوقات اور تضیع زر ہے اس غیر ملکی کھیل کو فروغ دینا ہم کو ختم کر دینا چاہئے یہ کھیل۔ وہ تو کہئے کہ پاکستان کے کھلاڑی اس کھیل میں کچھ زیر ہی رہے ہیں ہمشیہ ورنہ بھلا یہ پاکستانی عوام ان کو زندہ چھوڑتے جو صرف جیتنے کے خوگر ہیں ہارنے کی تاب نہیں رکھتے۔
تازہ ترین