• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناح پہلے ہی پارلیمانی طرز حکومت کی خامیوں سے آشنا تھے انہوں نے 68سال پہلے ہی یہ اندازہ لگا لیا تھاکہ جاگیر دارانہ نظام حکومت میں یہ جاگیردار اپنے ذاتی مفادات کے لئے جمہوریت کو پنپنے نہیں دیں گے ۔ ان کا اندازہ بالکل درست تھا اور انہی خطرات کو مدنظر رکھتے ہوئے 10جولائی 1947ء میں قائد اعظم محمد علی جناح نے بدست خود ’پارلیمانی طرز حکومت کے خطرات ‘ کے بارےمیں ایک نوٹ لکھا تھا جس کے اہم نکات یہ تھے:
1۔ پارلیمانی طرز حکومت کی کارکردگی آج تک انگلینڈ کے سوا کہیں بھی اطمینان بخش نہیں رہی ہے ۔
2 ۔ صدارتی طرز حکومت پاکستان کے لئے زیادہ مناسب ہے۔
پاکستان آج تین مصیبتوں سے نبرد آزما ہے۔ 1 ۔ جاگیردارانہ نظام کا مضبوط شکنجہ 2۔ اس جاگیر دارانہ نظام کی بدولت بڑھتی ہوئی نا خواندگی ۔3۔ ناقص عدالتی نظام جس کی بدولت بدعنوان افراد آزادی سے لوٹ مار کررہے ہیں اور وہ ان کو کو پکڑنے میں بری طرح سے ناکام ہے ۔یہ وہ تین عوامل ہیں جنہوں نے 68 سالہ دور آزادی میں پاکستان کو ترقی سے روکے رکھا اور پاکستان وہ ترقی کی منازل نہ طے کرسکا جیسی دیگر جنوب ایشیائی ممالک نے کیں۔
جمہوریت کی تین اہم اقسام ہیں 1۔براہِ راست جمہوریت 2۔صدارتی جمہوریت 3۔پارلیمانی جمہوریت ۔ براہ راست جمہوریت مثلاً سوئٹزر لینڈ میں جس قسم کی جمہوریت نافذ ہے۔ اس میں وفاقی وزراء میں سے کسی ایک کو مخصوص مدّت کے لئے بحیثیتِ صدر چنا جاتاہے۔ اور وفاقی وزراء براہ راست ان کے ملک کے سب سے اہل اور قابل لوگوں میں سے منتخب کئے جاتے ہیں۔ دوسرا صدارتی جمہوری نظام جیساکہ امریکہ اور فرانس میں نافذہے جہاں صدر مملکت ، ملک اور حکومت دونوں کا سربراہ ہوتا ہے جو خالصتاً عوام کی رائے دہی کے بعد براہِ راست یا ایک کمیٹی کے ذریعے منتخب ہوتا ہے ۔ پھر وہ ماہر اور اہل افراد پرمشتمل وفاقی وزراء کی ٹیم تیار کرتاہے جواپنے اپنے شعبوں میں ماہر ہوں ۔ تیسرا پارلیمانی قسم کا نظام جمہوریت ہے جیسا کہ پاکستان میں نافذ ہے جہاں وزیر اعظم ملک کا سربراہ ہوتا ہے اور وزراء کی تقرریاں پارلیمانی اراکین میں سے ہوتی ہیںاور اگر حزب اختلاف کمزور ہو تو بدعنوانیوںکا بول بالا ہوتا ہے۔ اہم ادارے مثلاً نیب،ایف بی آر،ایف آئی اے اور اسٹیٹ بینک کے سربراہوں کا تقرر برسر اقتدار حکومت ہی کی ذمّہ داری ہوتی ہے۔ان سربراہوں کی سیاسی وابستگی اور حکومتی نمائندگی کی وجہ سے بدعنوانیاں عروج پر ہوتی ہیں۔حتیٰ کہ FIA تک کو مجبور کر دیا جاتا ہے کہ وہ بدعنوان سینئر افسران کو گرفتار نہیں کر سکتا۔ FIA نے فروری2011ء میں تفتیشی قوانین میں ترمیم کے لئے درخواست کی تھی کہ انہیں گریڈ 22 کے افسران پر مقدمہ رجسٹر کرنے اور انہیں وفاقی اینٹی کرپشن کمیٹی سے اجازت لئے بغیر گرفتار کرنے کی اجازت دی جائے ۔ چار سال کا عرصہ بیت گیا لیکن اس درخواست پر ہمارے وزیر قومی امور نے نہ کوئی فیصلہ کیا نہ ہی کوئی عمل درآمد کیا گیا۔
پاکستان میں موجودہ جمہوریت ایک گھناؤنے کاروبار کے سوا کچھ نہیں جہاں کروڑوں کی سرمایہ کاری سے سیٹیں خریدی جاتی ہیں اور منتخب ہونے کے بعد یہی لوگ بڑے منظم طریقے سے ملک کو لوٹتے ہیں اور اربوں روپے بیرون ممالک بینکوں میں جمع کراتے ہیں۔ آئین کی اٹھارویں ترمیم نے بھی پاکستان کو بہت کمزور کیا ہے ۔ صوبوں کو دئیے گئے اضافی فنڈز نے بدعنوانی اور دہشت گردی کو فروغ دیا ۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق گزشتہ حکومت کے پہلے چار سال 2008,2011 کے دوران ہی8,500 ارب روپے بدعنوانیوں کی نذر ہوگئے تھے ۔ہمارے تقریباً 250 پارلیمانی اراکین جن میں قومی و صوبائی اسمبلیوں کے اراکین اور سینیٹر بھی شامل ہیں ان میں سے کئی نےانتخابات لڑنے کے لئے جعلی ڈگریوں کا سہارا لیا تھا انہیں آج جیل میں ہونا چاہئے تھا لیکن مسلم لیگ (ن) نے انتخابات کے دوران عوام سے کئے گئے وعدوں کے باوجود ان جعلی ڈگریوں کے حامل افراد اور بڑی بدعنوانیوں کے مقدمات کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھایا ان میں سے بہت سے آج اہم عہدوں پر فائز ہیں۔ یہ جنرل راحیل شریف ہیں جن کی بدولت بالآخربدعنوانوں کے خلاف کچھ ایکشن شروع ہوا ہے لیکن اب بھی بڑی مچھلیوں کو پکڑنا باقی ہے۔
مندرجہ بالا عوامل اور عناصر پر نظر ڈالنے کے بعد اب سوال یہ ہے کہ آگے کے لئے ہمیں کیا کرنا چاہئے؟ ہمارے نظام جمہوریت میں کچھ بنیا دی تبدیلیوں کی ضرورت ہے اس حوالے سے میری چند تجاویز ہیں 1۔صدارتی نظام جمہوریت کو متعارف کرایاجائے جہاں صدر عوام کی رائے دہی سے منتخب ہو اور وہ ہی ملک کا چیف ایگزیکٹو بھی ہو۔ 2۔ اختیارات اور ما لیات کو بلدیاتی انتخابات کے ذریعےانکے بنیا دی اداروں میں منتقل کریں اور انتظامی امور کی بہتر انجام دہی کے لئے نئے صوبے قائم کئے جائیں۔ 3۔صدر کو ملک کے اعلیٰ تکنیکی مہارت کے حامل افراد پر مشتمل وزراء کی ٹیم تیارکرنی چاہئے۔ اور ہر وزارت کے وزراء کو متعلقہ شعبوں میں بہترین ماہرین پر مشتمل ایک طاقتور تھنک ٹینک کی حمایت حاصل ہو 4۔ متناسب نمائندگی کا نظام متعارف کرایا جائے تاکہ پارلیمنٹ کے نمائندوں کا تناسب ڈالے گئے وو ٹ کے بر ابرہو ۔ انتخابی عمل کو بہتر کرنے کے لئے بھارت کی طرح الیکٹرانک طریقے سے منعقد کیا جائے ۔ 5۔ پارلیمنٹ کا کردار قانون سازی اور قومی معاملات کی نگرانی تک محدود کیا جانا چاہئے۔ پارلیمانی اراکین کو وزراء کے طورپر مقررکئے جانے کا اہل نہیں ہونا چاہئے۔ اسطرح ان بدعنوان افراد کا خاتمہ ہو جائیگا جو کہ پارلیمنٹ میں داخل ہی اسی لئے ہوتے ہیں کہ عوام کا پیسہ لوٹیں ۔ 6۔ صدارتی امیدوار، وزراء، گورنر اور دیگر اہم سرکاری افسران کی موزونیت جانچنے کے لئے ان کی قابلیت کو ایک ’معززین کی کمیٹی ‘ سے منظور ہونا ضروری ہے ۔ یہ کمیٹی غیرسیاسی او رمعاشرے کے انتہائی قابلِ احترام افراد پر مشتمل ہونی چاہئے تا کہ انکے فیصلوں پر کوئی انگلی نہ اٹھا سکے ۔ ابتداء میں سپریم کورٹ کو 17اراکین پر مشتمل یہ کمیٹی تشکیل دینی چاہئے بعد میں یہ اراکین نئے اراکین کو خود منتخب کرنے کے مجاز ہوں ۔ 7۔ 80% اراکینِ پارلیمنٹ ماسٹرز ڈگری کے لازمی حامل ہوں (ایران میں 100%اراکینِ پارلیمنٹ کا ماسٹرز ہونا ازمی ہے) تاکہ وہ اپنا بنیادی کام، یعنی قانون سازی کی ذمّہ داری کو بہتر اسلوب سے نبھا سکیں۔8۔ بنیادی انتخابی اصلاحات نافذ کی جائیں ۔ موجودہ انتخابی کمیشن کے ممبران سیاسی پارٹیاں مقر ر کرتی ہیں جو نہایت ہی احمقانہ عمل ہے ۔ الیکشن کمیشن کے اراکین سپریم کورٹ یا ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کو مقرر کرنے چاہئیں جو ملک کے عزّت دار شہری اور بے داغ شخصیت کے مالک ہوں اور انکی کوئی سیاسی وابستگیاں نہ ہوں 9۔ انتخابی کمیشن کو ایسے ریٹرننگ افسران تعینات کرنے چاہئیں جو براہ راست کمیشن کی سر پرستی میں کام کریں 10 ۔ انتخابی کیمپوں کے اندر پاک افواج کے جوانوںکو تعینات کیا جائے تاکہ بیلٹ بکسوں کو کوئی جعلی ووٹوں سے نہ بھر دے۔ 11 ۔قومی تعلیمی ہنگامی حالت کا اعلان کیا جائے۔تعلیم کے لئے GDP کا 5% حصّہ مختص کیا جائے جو کہ پانچ سال کے عرصے میں بڑھا کر 8% کیا جائے ۔ پرائمری اور ثانوی تعلیم کو سب کے لئے لازمی قرار دیا جائے اور جو والدین اپنے بچوں کو تعلیم کے لئے اسکول نہیں بھیجتے انہیں جیل میں ڈالا جائے۔12۔ ’قومی تعلیمی خدمت‘کے طور پر تمام ڈگری حاصل کرنے والے طلباء کے لئے دو سال کسی بھی تعلیمی ادارے میں تعلیم دینا لازمی قرار دیا جائے اس کو مکمل کرنے کے بعد ہی وہ ڈگری کے مجاز ہو سکیںگے ۔ اس نظام کو فوری رائج کرنا ضروری ہے۔ 13۔عدالتی نظام کو بھی بہتر اور موثر بنانے کی ضرورت ہے تاکہ ہر د ائر کردہ مقدمے کا فیصلہ 3-6 ماہ کے دوران کردیا جائے اور تمام پرانے مقدمات کو 12ماہ کے عرصے میں نمٹا دیا جائے۔ بد عنوانیوں کے مقدمے فوجی عدالت میں پیش کئے جائیں ۔ بڑی بدعنوا نیوں کے مرتکب مجرموں کے لئے بھاری مالی جرمانہ بھی مقرر کرایاجائے۔NAB کی جانب سے کسی بھی قسم کی سودے بازی اور جرمانے میںکمی کو منظور نہ کیا جائے اور بدعنوانوں کو کڑی سے کڑی سزائیں دی جائیں۔14۔ خالص زمینی اصطلاحات نافذ کی جائیں اور ٹیکس کی وصولی کے لئے زرعی ٹیکس متعارف کرایا جائے۔15۔ FBR کو نئے سرے سے تشکیل دیا جائے کیونکہ ہمارے سابق وزیرِ مالیات جناب شوکت ترین کے مطابق پاکستان کا تقریباً 500 ارب روپیہ سالانہ FBR افسران کی بدعنوانیوں کی نذرہو جا تا ہے۔
یہ سب تبدیلیاں کیسے ممکن ہیں؟ موجودہ پارلیمانی اراکین میری ان تجاویز سے ہر گزمتفق نہیں ہونگے۔ وہ کبھی نہیں چاہیں گے کہ اس قسم کے قوانین کا نفاذ کیا جائے۔عدلیہ، فوج اور سیاسی پارٹیوں کے سمجھدار افراد ایک عبوری حکومت کے ذریعے ان تجاویز کو عملی جامہ پہنا سکتے ہیں۔ نئے قائم کردہ جمہور ی نظام میں فوج کا بھی کلیدی کردار ہونا چاہئے جیسا کہ ترکی میں ہے تاکہ مستقبل میں آمریت کے نفاذسے محٖفوظ رہا جا سکے۔
تازہ ترین