• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کالم نگاری بھی عجیب گورکھ دھندا ہے ۔ کہا گیا ہے کہ ہر دفعہ نیا کنواں کھودنا پڑتا ہے ۔ آپ چند منٹ میں کوئی کالم پڑھ کر یا اس پر ایک سرسری سی نظر ڈال کر اخبار رکھ دیتے ہیں لیکن یہ نہیں جانتے کہ لکھنے والے نے کتنا خون جلا کر اور کیسی جانفشانی سے یہ کنواں کھودا تھا ۔ گاہے کالم نگار کے ساتھ یوں بھی ہاتھ ہو جاتا ہے کہ وہ کنواں کھودتے جب پانی کے نزدیک پہنچتا ہے تو اچانک حالات بدل جاتے ہیں اور کالم ضائع ہوجاتا ہے ۔ کبھی جب ایڈیٹر صاحب اس کا کوئی کالم مسترد کر دیتے ہیں،تب بھی اپنی محنت اسی کنوئیں میں ڈوبتی دیکھ کر کالم کار کے جذبات یوں مجروح ہوتے ہیں، جیسے ہمارے صالحین کرام کے جذبات پارک میں جوڑوں کود یکھ کر اوپر نیچے ہو جاتے ہیں ۔
ہمارے ساتھ اس دفعہ عمران خان نے بھی یہی ہاتھ کیا۔ ہم دھرنے پر اچھا خاصا کنواں کھود چکے تھے ۔ پانی آیا ہی چاہتا تھا کہ اچانک انہوں نے دھرنا موخر کرنے کا اعلان کر کے ہمارے جذبات کو شدید ٹھیس پہنچائی ۔ تاہم ہم نے اس اعلان کے بعد سڑکوں اور عوام کی ’’رہائی‘‘ کے صدقے انہیں صدق دل سے معاف کردیا ہے ۔ اس کالم میں ہم نے پرویز رشید کی وزارت اطلاعات سے برطرفی پر ایک شعر بھی لکھا تھا کہ
جھوٹی تہمت ہی سہی دامن یوسف پہ مگر
مصر میں اب بھی زلیخا کی سنی جاتی ہے
اس برطرفی پر اب ہم مزید کچھ عرض نہیں کریں گے ۔تاہم اپنی کج فہمی کی ایک بات آ پ کو ضرور بتائیں گے کہ ہماری ناقص فہم اب تک یہ گتھی سلجھانے میں ناکام ہے کہ تحریک انصاف نے پہلے دھرنے اور پھر اسے موخرکرنے کا فیصلہ کیوں کیا؟ آخر انہوں نے ملک کو کرپٹ ٹولے سے نجات دلانے کا سنہری موقع اور ہمارا کالم کیوں ضائع کیا؟ سپریم کورٹ کی طرف سے پاناما لیکس پر جوڈیشل کمیشن بنانے کے فیصلے پرفریقین نے اتفاق کیا جو ہر کسی کے لئے طمانیت قلب کا موجب بناہے ۔ خودعمران خان نے بھی اسے سراہتے ہوئے دھرنا موخر کر کے یوم تشکر بنانے کا اعلان کیا۔ تاہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر ہمارے ہاں عدلیہ کے احکامات پر سر تسلیم خم کرنے کاچلن ہے تو پھر اس سے قبل 31اکتوبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے تحریک کو لاک ڈائون کی بجائے ڈیمو کریسی پارک اینڈ اسپیچ کا رنر میں پر امن احتجاج کی اجازت اور حکومت کو کنٹینر زہٹانے اور شہریوں کے حقوق کا تحفظ یقینی بنانے کا حکم بھی دیا تھا ۔ ان احکامات پر تحریک انصاف اور حکومت نے کتنا عمل کیا ؟ کیا تحریک نے عدالتی حکم پر جمہوری پارک میں احتجاج اور سرکار نے رستوں سے کنٹینر زہٹانے کا فیصلہ کیا ؟ عمران خان کو یہ مشورہ تو ہم نے پچھلے کالم میں بھی دیا تھا کہ سپریم کورٹ میں ایک سنجیدہ کارروائی کا آغاز ہوچکا ہے ۔ لہذا وہ دھرنے کی بجائے عدالت عظمیٰ میں اپنی درخواست کی کارروائی پر بھرپور توجہ دیں تاکہ پاناما لیکس اسکینڈل قانونی طریقے سے اپنے منطقی انجام کو پہنچ سکے مگر اس وقت تو انہوں نے اسے درخوراعتنا سمجھنے کی بجائے احتجاج کی تیاریاں جاری رکھیں۔ ہو سکتا ہے کہ دھرنے کی رونقیں ختم کرنے کے پیچھے کچھ اور عوامل کارفرما ہوں ۔ آخر کنواں کھودتے پانی کے نزدیک پہنچ کر اسے بند کر دینے کے پیچھے کوئی توحکمت عملی ہو گی ۔ جیسے قارئین کالم نگار کی محنت نہیں سمجھ سکتے، اسی طرح ضروری نہیں کہ کسی دور دراز پسماندہ دیہات میں چارپائی پر تکیے سے ٹیک لگا کر کالم لکھنے والا بھی لیڈروں کی مشکلات کا صحیح ادراک کر سکے ۔ کیا عجب کہ عمران خان کو دھرنے کے انگور کھٹے نظر آئے ہوں کہ اس دفعہ حکومت نے اسے ناکام بنانے کے اقدامات میں کسی قسم کی لچک نہیں دکھائی تھی اور اسلام آباد میں عوام کی مناسب تعداد جمع ہونے کی امید معدوم تھی۔ فارسی کا ایک شعر ہے :
شب تاریک و بیمِ موج و گردابے چُنیں حائل
کجا دانند حالِ ماسبکسارانِ ساحل
اس شعر کا کیا خوب پنجابی ترجمہ کیا گیا ہے کہ رات انھیری،بجلی کڑکے، دریا ٹھاٹھاں مارے،اوکی جانڑن حال اساڈا، جیہڑے کھڑے کنارے ۔
تاہم اگر دھرنا موخر کر کے ہمارا کالم ضائع کرنا ہی مقصود تھا تو فریقین ہفتہ بھر عوام کا ناطقہ بند کر کے انہیں اس متوقع انقلاب ابنِ احتجاج کے فیوض و برکات سے کیوں مستفید کرتے رہے ؟ تحریک نے دو نومبر کو اسلام آباد بند کرنا تھا جب کہ حکومت نے ایک ہفتہ قبل ہی سے پورا ملک بند کر کے شہریوں پر عرصہ حیات تنگ کیے رکھا۔ موٹروے بند، جی ٹی روڈ بند، اندرون شہر گزرگاہیں بند، بچوں کا اسکول و کالج جانابند، خریداری بند، علاج بند، ڈاک و کورئیر سروس معطل، ناکے، تلاشیاں،جھڑپیں، ہلاکتیں، آنسو گیس،تشدد،گرفتاریاں حتیٰ کہ ہر وہ ذلت جو ایسے مواقع پر عوام کے حصے میں آتی ہے ۔ ہمیں یقین تھا کہ اس دفعہ دھرنے کے بطن سے انقلاب ضرور تولد ہوگا جو ہماری ستر سالہ شاندار تاریخ میں ایک اور سنہرے باب کا اضافہ کرے گا۔ جناب پرویز خٹک نے تو موٹروے پر پولیس کے ساتھ جھڑپ کے بعد باقاعدہ باغی بننے اور ملک کا حشر نشر کرنے کی دھمکی بھی دی تھی، مگر وائے حسرتا کہ تماشا نہ ہوا اور لیڈروں نے اس دفعہ بھی ہمیں ٹرک کی بتی کے پیچھے ہی لگائے رکھا۔ عوام نے تبدیلی اور نیا پاکستان دیکھنے کے کیسے کیسے ارمان سجائے تھے ۔ یار لوگوں نے سابقہ دھرنے کے تجربات کی روشنی میں اسلام آباد جا کر خون گرم کرنے اور دل پشوری کرنے کے کیسے کیسے خواب دیکھے تھے جو سارے چکنا چور ہو گئے۔ ساعت تحریک پریڈ گرائونڈ میں یوم تشکر منانے کی تیاریاں جاری ہیں مگر اس میں وہ دھرنے والی رونقیں کہاںہوں گی؟
ذکر خیر ہماری ناقص فہم کا تھا جو دھرنے کی منسوخی کی ٹھوس وجوہ کا سراغ لگانے سے قاصر ہے، جس کی بنا پر عمران خان نے آصفہ بھٹو کی جانب سے ’’یوٹرن خان‘‘ کا خطاب پایا۔ ممکن ہے کہ مولانا فضل الرحمن کی یہ سفاک دھمکی کام کر گئی ہو کہ دو نومبر کو دو نمبر لوگوں کو دو نمبری نہیں کرنے دیں گے ۔ اب اس میں تو کوئی کلام ہی نہیں کہ مولانا نے زندگی بھر خودکوئی دو نمبری کی ہے، نہ کسی کو کرنے دی ہے ۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ایسے فیصلے ہماری ان کرم فرمابارگاہوں میں ہوتے ہیں،جن کی مصر میں زلیخا کی طرح سنی جاتی ہے بلکہ سنی ہی ان کی جاتی ہے،چاہے دھرنے ہوں یا منسوخیاں، تقرریاں ہوں یا برطرفیاں… مصر میں زلیخا ہی کی سنی جاتی تھی، اس کی سنی جاتی ہے اور اسی کی سنی جائے گی ۔


.
تازہ ترین