• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جی ہاں! بڑی سیاسی جماعتوں میں دھڑے بندی اور اختلافات فطری ہوتے ہیں۔ پرسنیلٹی کلیش بھی اس میں کارفرما ہوتا ہے، برادری اور علاقے کی بنیاد پر بھی دھڑے بندی وجود میں آجاتی ہے۔ کبھی اپنے ہاں نظریاتی سیاست بھی ہوتی تھی، اسکے لئے رائیٹسٹ اور لیفٹسٹ کی اصطلاح استعمال ہوتی۔ قائداعظمؒ کے دور میں مسلم لیگ میں بھی دھڑے بندی موجود تھی لیکن قائد کی زندگی میں یہ ایک خاص سطح پر رہی، زیروبم عموماً سطح کے نیچے ہی رہتا ۔ قائد کی وفات کے بعد یہ کشمکش مسلم لیگ کے بطن سے نت نئی جماعتوں کی پیدائش کا موجب بنی۔
1970میں بھٹو صاحب کی پیپلز پارٹی اِدھر اپنے ہاں ایک نئی سیاسی قوت کے طور پر سامنے آئی۔ پنجاب میں تو اس کے کھمبے بھی جیت گئے لیکن یہاں بھی دھڑے بندی تھی۔ بھٹو صاحب نے اپنے دو جانشین نامزد کئے، وڈیروں کو مطمئن کرنے کے لئے غلام مصطفی کھر اور ترقی پسندوں کے اطمینان کے لئے معراج محمد خاں ۔ معراج محمد خان کی منہ زور انقلابیت اور پُرجوش ترقی پسندی بھٹو صاحب کے ساتھ زیادہ دیر نہ چل سکی۔ وہ حوالۂ زنداں ہوئے اور اسیری کے دوران ایک آنکھ کی بینائی کھوبیٹھے۔ اس سے پہلے فیصل آباد (تب لائل پور) کے مختار رانا بھی زیرعتاب آچکے تھے۔ پنجاب میں لوئر مڈل کے حنیف رامے بھی خود کو ترقی پسندوں میں شمار کرتے۔ یہ الگ بات کہ بعد کے برسوں میں اسٹیٹس کو کی علامت غلام مصطفیٰ کھر اور ترقی پسند حنیف رامے، بھٹو صاحب کے خلاف، مسلم لیگ میں جا شامل ہوئے لیکن بھٹو صاحب اور ان کی پیپلزپارٹی سے ترقی پسندوں کی مایوسی ابھی انتہاء کو نہیں پہنچی تھی۔ راولپنڈی کے خورشید حسن میر جیسے سرپھرے اب بھی پارٹی میں تھے جن کے مناسب بندوبست کے لئے مولانا کوثر نیازی جیسے لوگ بھی پارٹی میں موجود تھے۔ تب اقتدار کے ایوانوں تک رسائی رکھنے والے بزرگ اخبار نویس کے بقول ، بھٹو صاحب نے خورشید حسن میر کے سوشلزم سے تنگ آکر انہیں بدنام کرنے کے لئے مولانا کوثر نیازی کی ڈیوٹی لگائی تھی۔ یہاں تک کہ میر صاحب تنگ آکر وزارت سے مستعفی ہوکر گھر بیٹھ گئے۔ ایک روز وہ اپنے دوست اخبار نویس سے کہہ رہے تھے ، میں نے بھٹو کو اپنی دوستی سے محروم کردیا ہے جب میں بھٹو کا ساتھی اور دوست تھا تو ہر وقت اس کے مشن کی، جو میرا مشن بھی تھا، کامیابی کے لئے سوچتا، منصوبے بناتا اور لوگوں کی حمایت حاصل کرتا۔ جب مجھ جیسے ساتھی بھٹو کو اپنی دوستی سے محروم کردیں گے تو وہ تنہا رہ جائے گا اور مرجائے گا‘‘۔ نواز شریف کی مسلم لیگ میں بھی ’’اختلافات‘‘ کوئی ایسی انہونی بات نہیں لیکن ان دِنوں اس کے جو مظاہر سامنے آئے وہ ناخوشگوار ہی نہیں، میاں صاحب اور ان کی مسلم لیگ کے بے لوث خیرخواہوں کے لئے باعثِ تشویش بھی ہیں۔
احسن اقبال کے حوالے سے خواجہ آصف اور خاقان عباسی نے وضاحت کردی کہ وہ انہیں بھائیوں کی طرح عزیز ہیںاورپلاننگ کمیشن کے متعلق انہوں نے جو کچھ کہاتھا، وہ ایک میٹنگ میں ہونے والی’’اکیڈمک ڈسکشن ‘‘ تھی۔ انہوں نے یاد دِلایا کہ ایوب خاں کے دور میں پلاننگ کمیشن کی حیثیت ایک تھنک ٹینک کی ہوتی تھی۔ اب بھی ضرورت اس بات کی ہے کہ وزارتیں اپنے منصوبے بنانے میں آزاد ہوں اور اس میں پلاننگ کمیشن کی غیر ضروری مداخلت نہ ہو۔ یہاں خواجہ نے لائٹ موڈ میں یہ بھی کہہ دیا کہ شاہجہاں کے دور میں پلاننگ کمیشن ہوتا، تو تاج محل کبھی نہ بنتا۔ احسن اقبال ایک فرض شناس اور محنتی وزیرہیں۔ اوراسی باعث وہ جناب وزیراعظم کی گڈبکس میں خاصے اوپر ہیں۔ میاں صاحب کے گزشتہ دور میں وہ وزیراعظم کے وژن 2010 کے معمار تھے تو اب پلاننگ کمیشن کی سربراہی کے ساتھ وزیراعظم کے وژن 2025 کے انچارج ہیں۔ اپنے وزارتی رفقا کی ’’اکیڈمک گفتگو‘‘ کو انہوں نے اپنی وزارت کی کارکردگی پر تنقید سمجھتے ہوئے، جوابی بیان دینا ضروری سمجھا۔ ان کا کہنا تھا، کچھ وزرأپلاننگ کمیشن کی طرف سے مانیٹرنگ اور اسکروٹنی پر برا محسوس کرتے ہیں۔ سیاسی پتنگ بازی کے شوقین ہمارے بعض دوستوں نے تو احسن کے استعفے کی افواہ بھی اُڑا دی۔ احسن اقبال کے ساتھ خواجہ آصف اور شاہد خاقان عباسی کے اختلافات والی بات ان کی وضاحت اور احسن سے اظہارِ محبت کے ساتھ رفت گزشت ہوئی۔ گزشتہ دِنوں ’’نندی پور‘‘ کا مسئلہ اُٹھا تو خواجہ آصف اور جناب شہباز شریف میں کشیدگی کی باتیں بھی عام ہوئیں۔ نندی پور خادمِ پنجاب کا منصوبہ ہے۔ کسی بھی منصوبے کی برق رفتار تکمیل کو شاید انہوں نے اپنی کمزوری بنالیا ہے۔ ’’کام، کام اور کام‘‘ میںیقین رکھنے والا خادمِ پنجاب ’’جلدی، جلدی اور جلدی ‘‘ پر بھی اصرار کرتا ہے۔ لاہور میں تقریباً 30کلومیٹر کے میٹرو ٹرین منصوبے کی صرف گیارہ ماہ میں تکمیل ، بلاشبہ ’’الٰہ دین کے جن‘‘ والی بات تھی اور وہ اِسے کر گزرے۔پنڈی، اسلام آباد میٹرو کا 9ماہ کا منصوبہ دھرنوں کے باعث 14ماہ لے گیا۔ بجلی کی لوڈشیڈنگ کا خاتمہ، بڑے میاں صاحب کی طرح، چھوٹے بھائی کا بھی خواب ہے۔ چوہدری نثار کے بقول ، اگلے الیکشن میں مسلم لیگ کا مقابلہ عمران خان اور پی ٹی آئی سے نہیں، لوڈشیڈنگ سے ہوگا۔ 2013کی الیکشن مہم میں، اس حوالے سے شہبازشریف کے دعوؤں کو مخالفین نے اِن کیلئے طعنہ بنالیا ہے لیکن نندی پور کے حوالے سے ٹی وی انٹرویو میں خواجہ آصف کو اینکر پرسن کی اس بات سے اتفاق تھا کہ بجلی کے پلانٹس کی تکمیل کا معاملہ فلائی اوورز ، انڈرپاسز اور میٹرو جیسے منصوبوں سے مختلف ہوتا ہے،اس میں ہتھیلی پر سرسوں نہیں جمائی جاسکتی۔ شہباز صاحب نے اگلے روز ایک پریس کانفرنس میں اس کاجواب دینا ضروری سمجھا اور یوں معاملہ منہ سے نکلی، کوٹھوں چڑھی والا ہوگیا۔ خواجہ آصف ، شہبازصاحب سے اختلافات کی بھی تردید کرتے ہیں۔ اُن کے بقول ، دونوں بھائیوں سے اِن کی دوستی گورنمنٹ کالج لاہور کے دِنوں سے ہے۔ البتہ چوہدری نثار کے ساتھ اپنے اختلافات کا ڈنکے کی چوٹ پر اعتراف کرتے ہوئے وہ یہ بھی کہہ گزرے کہ چوہدری صاحب سے ان کی بات چیت تین چار سال سے بند ہے۔ یہاں انہوں نے اس پر بھی اصرار کیا کہ وزیرِ دفاع اور وزیرداخلہ میں تعلقات کی اس بدترین نوعیت سے دونوں کی وزارتی کارکردگی پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ اگلے روز چوہدری نثار نے فرمایا کہ وزیرداخلہ کے طور پر جی ایچ کیو سے رابطے کے لئے وہ وزارتِ دفاع کے محتاج نہیں۔
بھٹو صاحب تو اپنے ساتھیوں کی لڑائی سے مزالیتے، یہ ان کے لئے رائٹ اور لیفٹ کو بیلنس کرنے کا معاملہ بھی تھا لیکن میاں صاحب کا معاملہ تو یہ نہیں۔ وہ خواجہ صاحب اور چوہدری صاحب کے ’’باس‘‘ ہی نہیں،اُن کے دیرینہ دوست بھی ہیں، بے تکلف اور بااعتماد دوست۔ میاں صاحب کے مزاج سے تھوڑی بہت آشنائی کی بنیاد پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ اس صورتِ حال پر خوش نہیں ہوں گے اور انہوں نے ’’مشترکہ دوست‘‘ کے طور پربھی دونوں دوستوں کے درمیان تجدیدِتعلق کی کوشش ضرور کی ہوگی تو کیا دونوں کی اَنا اتنی بلند ہے کہ میاں صاحب کے ہاتھوں بھی یہ بُت ٹوٹ نہ سکے؟ ادھر فیصل آباد میں، چوہدری شیر علی اور رانا ثناء اللہ میں دھڑے بندی اگرچہ خاصی قدیم ہے لیکن کل چوہدری صاحب معاملے کو جس حدتک لے گئے، انگریزی محاورے میں وہ"Too much"تھا جو مسلم لیگ کے خیرخواہوں کے لئے اذیت اور بدخواہوں کے لئے مسرت کا باعث بنا۔
تازہ ترین