گزشتہ رات میں پرانی فائلوں میں کچھ تلاش کر رہا تھا کہ اچانک ایک کاغذ میرے ہاتھ میں آیا اور مجھے ایسے لگا جیسے میں نے انگارہ اٹھالیا ہو۔یہ احمد ندیم قاسمی کا خط تھا۔یہ ایک بہت بڑے شاعر اور افسانہ نگار کی وہ تحریر تھی جس نے میری زندگی کا رخ بدل دیا تھا اگر انہوں نے مجھے یہ خط نہ لکھا ہوتا تو شاید آج میں منصور آفاق نہ ہوتا۔نئی نئی جوانی تھی۔لہو صرف رنگوں میں ہی نہیں دوڑتا تھاآنکھ سے بھی ٹپکنا جانتاتھا۔میانوالی کی سڑکوں پر رات بھر شاعری ہوتی تھی جسے ندیم صاحب بڑی محبت سے’’ فنون ‘‘میں شائع بھی فرمادیاکرتے تھے۔ان سے خط و کتابت جاری رہتی تھی۔اور پھر ایک دن ان کا یہ خط آ گیاجومجھے آج کسی انگارے کی طرح محسوس ہورہا ہے۔اس خط میں انہوں نے مجھے مستقلاً لاہور آجانے کا مشورہ دیا تھا۔ میں لاہور کاہوگیا بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ لاہور میرا ہوگیا۔پھر میں لاہور کو چھوڑ کرمغرب میں آباد ہوگیالیکن لاہور سے رشتہ کبھی ختم نہیں ہوا۔اب جب میں سہیل وڑائچ جیسے دوستوں کے کہنے پردوبارہ واپس لاہور آیا ہوں تو لاہور نے پھر اسی طرح کھلی بانہوں سے مجھے اپنی آغوش میں لے لیا جیسے میں میانوالی سے آیا تھا اور داتا علی ہجویری نے مجھ پر اپنے شہر کے تمام دروازے کھول دئیے تھے۔ناصر کاظمی نے شاید میرے لئے کہا تھا
شہرِ لاہور تری رونقیں دائم آباد
تری گلیوں کی ہوا کھینچ کےلائی مجھ کو
میں اِ س وقت لاہور کے پاک ٹی ہائوس میں موجود ہوں وہیں جہاں فیض، ندیم، منٹو،ناصر کاظمی،چراغ حسن حسرت سے لے کرعطاالحق قاسمی، امجد اسلام امجد اور شعیب بن عزیز اور اُ ن سے لے کر سراج منیر،عباس تابش،اختر شمار،ڈاکٹر صغرا صدف،شفیق احمد خان، ندیم بھابھہ،غافر شہزادتک بیٹھا کرتے تھے۔کچھ لوگ اِ س وقت بھی یہاں موجود ہیں مگر میری پہچان میں نہیں آرہے ممکن ہیں شاعر ادیب ہوں۔پچھلے دنوں یہاں ٹائروں کی دکان بنا دی گئی تھی جو اہل ِ علم و قلم کے لئے بہت تکلیف دی تھی۔جیسے تیسے بھی ممکن ہو سکا اسے حکومت پنجاب نے دوبارہ پاک ٹی ہائوس میں بدل دیا۔روایت کی لڑی کو پھر سے جوڑ دیا گیا مگربیس پچیس مربع فٹ کے اس ڈبل ا سٹوری چانے خانہ کی وہ رونق ابھی بحال نہیں ہو سکی جو اس کے شاندار ماضی سے متعلق ہے۔
میں ایک عام سی کرسی پربیٹھ کر چاروں طرف لگی ہوئی ادیبوں او رشاعروں کی چھوٹی چھوٹی تصویروں کو دیکھ رہا تھا اور میری آنکھوں میں بار بارملتان ٹی ہائوس گھوم جاتا تھا۔ جو چار کنال کے رقبے پر تعمیر کیا گیا ہے۔جس کا تمام فرنیچر ایش وڈ سے بناہواہے اور اُس فرنیچر پر جو آرٹسٹک کام کیا گیاہے اس کی کوئی مثال نہیں۔ایک سو ساٹھ کرسیوں پر مشتمل شاندار ہال۔دیواروں پر ملتان کے مشاہیر کے قلمی اسکیچ اور پورٹریٹ۔تقریبات کےلئے علیحدہ ایک خوبصورت ہال۔پورے لاہور کے ادیبوں اور شاعروں کو کوئی ایسی جگہ میسر نہیں۔
ملتان ٹی ہائوس زاہد سلیم گوندل نے اس وقت تعمیر کرایا تھا جب وہ ملتان میں ڈی سی او ہوا کرتے تھے۔میں نے جب ان کی کتاب ’’مجموعہ مقالاتِ ملتان ‘‘ کا ایک سرسری جائزہ لیا تھا تو مجھےاسی وقت ملتان کی قسمت پر رشک آیا تھا کہ اسے ایک ایسا شخص میسر آیا ہے جو حرف کی حرمت سے بھی پوری طرح واقف ہے۔جو خود بھی اہل قلم ہے اور اپنے دل میں ادیبوں اور شاعروں کا درد بھی رکھتا ہے۔ملتان ٹی ہائوس کے متعلق اسلم انصاری کہتے ہیں ’’جب تک اس شہر کے سینے پر ملتان ٹی ہائوس کا تمغہ سجا رہے گا ریشم دلان ِ ملتان کے دل میں زاہد سلیم گوندل کی محبت موجزن رہے گی یہ خطہ ان کا احسان چکا تو نہیں پائے گا مگر یاد ضرور رکھے گا ‘‘
زاہد سلیم گوندل ان دنوں لاہور میں ہوتے ہیں اور وزیر اعلیٰ شہباز شریف کے ساتھ کام کرتے ہیں۔مجھے ایسا لگا جیسے انہیں اِ س وقت لاہور کا پاک ٹی ہائوس پکاررہا ہے۔یہ کتنے دکھ کی بات ہے کہ لاہور جو صدیوں سے ادب کا مرکز چلا آرہا ہے۔اُس میں ملتان ٹی ہائوس جیسی کوئی عمارت موجود نہیں۔وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے جہاں تعمیرات کا ایک جہاں آباد کیا ہے وہاں لاہور کے ادیبوں شاعروں کےلئے بھی ایک ملتان ٹی ہائوس بنوادیں تو ممکن ہے کہ تاریخ اس حوالے سےبھی انہیں خوبصورت لفظوں میں یاد کرے۔یقینا زاہد سلیم گوندل وزیر اعلیٰ شہباز شریف کی آنکھوں تک اِس خوبصورت خواب کو رسائی دے سکتے ہیں۔
اگرچہ الحمرا لاہور کے ایک بڑے کمرے کو’’ادبی بیٹھک ‘‘قرار دیا گیا ہےمگر میں لاہور کے ادیب شاعر وں کےلئے کسی پورے الحمرا کا خواہش مند ہوں۔گزشتہ روز وزیر اعلیٰ پنجاب نے کہا ہے کہ ہمیں عوامی فلاحی منصوبوں کےلئے عزم، جذبے اور محنت سے کام کرنا ہو گا۔ناامیدی اور مایوسی کو شکست دے کر امید کے چراغ جلانے ہونگے ‘‘۔ادیبوں اور شاعروں کی آنکھوں میں بھی امید کے دئیے فروزاں ہیں۔انہیں کچھ اِ س طرف بھی متوجہ ہونا چاہئے۔ادیب شاعر چاہتے ہیں مجلس ترقی ادب کے دفتر کو احمد ندیم قاسمی کے نام سے منسوب کر کے وہاں احمد ندیم قاسمی میوزیم بنادیا جائے۔فیض احمد فیض کی کوئی یادگار بنائی جائے۔کہیں کوئی سعادت حسن منٹو کارنر بنایا جائے۔ میرا جی اور ن م راشد کی رہائش گاہوں کو یادگاری حیثیت دی جائے۔کہیں کوئی منیر نیازی کی نشانی محفوظ کی جائے۔کہیں مزاحِ پطرس بخاری کو مجسم کیا جائے۔حفیظ جالندھری اور صوفی تبسم کی یادیں یادگاریں کہیں جمع کی جائیں۔اشفاق احمد کی یاد میں کوئی ’’داستان سرائے ‘‘بنائی جائےمجھے پورا یقین ہے کہ اگر وزیر اعلیٰ شہباز شریف ان کاموں کی ذمہ داری زاہد سلیم گوندل کے حوالے کردیں تو ادیبوں اور شاعروں کا لاہور دوبارہ زندہ ہوجائے گا۔شاید یہی خواہش شعیب بن عزیز کے دل میں جاگی تھی جب انہوں نے کہاتھا
مرے لاہور پر بھی اک نظر کر
تیرا مکہ رہے آباد مولا
ایک دوست سے ملتان ٹی ہائوس کا ذکر ہورہا تھا تو اس نے کہا کہ اس کے معمار ان دنوں عارضہ قلب میں مبتلا ہیں میرے دل کی گہرائیوں سے زاہد سلیم گوندل کےلئے دعا نکلی اور اس کے ساتھ میں نے یہ بھی سوچا کہ اگر گوندل صاحب جیسے صاحب ِ درد لوگ دل کے عارضہ میں مبتلا نہ ہوں تو شاید یہ ایک خبر ہو۔
.