پاکستان امریکہ کا غیر نیٹو اتحادی ہونے اور دہشت گردی کی جنگ میں فرنٹ لائن سولجر کی ڈیوٹی دینے کے باوجود براہ راست امریکی حملوں کی زد میں ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ لڑتے ہوئے اب تک ہمارے 1100 سے زائد فوجی افسر اور جوان شہید ہو چکے ہیں جبکہ امریکہ سمیت نیٹو کے 25 ممالک کی افواج کے 300 سے بھی کم فوجی ہلاک ہوئے ہیں۔ 2001ء سے پہلے پاک افغان سرحد پر ایک بھی فوجی تعینات نہیں تھا جبکہ آج پاکستان کی 70 ہزار فوج پاک افغان بارڈر کی ایک ہزار چوکیوں پر موجود ہے۔ مزید 50 ہزار فوج تازہ دم کمک کیلئے سرحد کے قریب گیریژنوں میں ہر وقت چوکس ہے۔ 26 سو کلومیٹر پاک افغان بارڈر پر امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے صرف 100 چیک پوسٹ بنائی ہیں۔ افغانستان کے اندر 60 ہزار افغان فوج کے علاوہ 65 ہزار نیٹو افواج موجود ہیں جبکہ پہلے مرحلے پر ساڑھے چار ہزار اور دوسرے مرحلے پر 8 ہزار اتحادی فوج عراق سے افغانستان پہنچنے والی ہے۔ بھارت کی طرف سے بھی ایک سے ڈیڑھ لاکھ تک فوج افغانستان میں نیٹو فوج کی مدد کیلئے اتارے جانے کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔
پاکستان کی سرحد کے اندر امریکی حملوں میں تشویش ناک حد تک اضافہ ہوگیا ہے یہاں تک کہ 12 ستمبر کو کور کمانڈرز کانفرنس کے اختتام پر جاری کئے جانے والے بیان ” پاک سرزمین پر غیر ملکی فوج کے حملوں کو قطعاً برداشت نہیں کیا جائے گا “ کے سامنے آنے کے باوجود 16 اور 18 ستمبر کے اخبارات امریکی فوج اور ہیلی کاپٹروں کے پاکستان کی سرحد کے اندر حملوں کی خبروں سے بھرے پڑے ہیں۔
دہشت گردی کی یہ جنگ جو درحقیقت امریکی مفادات اور بالادستی کی جنگ ہے اس میں شمولیت کا فیصلہ کسی سیاسی قیادت یا عوام کی منتخب حکومت نے نہیں کیا تھا بلکہ جنرل مشرف نے اپنے کور کمانڈروں کے ساتھ مشورے کے بعد امریکہ کو ہوائی اڈے، بندرگاہ اور لاجسٹک سپورٹ فراہم کرنے کے علاوہ انٹیلی جنس معلومات دینے کا فیصلہ کیا۔ پاکستان کی تمام قابل ذکر سیاسی و مذہبی جماعتوں کے رہنماؤں نے امریکہ کا حلیف بننے اور نام نہاد دہشت گردی کی جنگ میں شریک ہونے کی مخالفت کی تھی تاہم جنرل مشرف اوران کے رفقاء اس جنگ کو پاکستان کے مفاد میں قرار دے رہے تھے اور آخر تک یہی کہتے گئے حالانکہ اس جنگ میں شریک ہونے سے پہلے پاکستان کا کوئی ایک مفاد بھی پورا نہیں ہوا، مسئلہ کشمیر جوں کا توں رہا۔ پاک بھارت اور پاک افغانستان تعلقات بہتر ہونے کے بجائے مزید خراب ہو گئے۔ پاکستان کی ایٹمی تنصیبات کو لاحق خطرات بڑھ گئے جبکہ پاکستان داخلی طور پر عدم استحکام اور انتشار کا شکار ہوا۔ خودکش حملے اور دہشت گردی کی کارروائیاں پاکستان کے اندر ہونے لگیں۔ حکومت پاکستان جو افغانستان پر امریکی حملے میں مددگار تھی اسے بالآخر اپنی اس غلطی کے نتائج بھگتنا پڑے، وہ مزاحمت جو اتحادی افواج کے خلاف افغانستان میں تھی پاکستان کے قبائلی علاقوں تک پھیل گئی کیونکہ حکومت پاکستان نے امریکی دباؤ پر ازخود قبائلی علاقوں میں آپریشن کا آغاز کیا جس کے لئے توپ خانہ، ٹینک، گن شپ ہیلی کاپٹر، میراج اور ایف 16 تک استعمال کئے گئے۔ صوبہ سرحد کے قبائلی علاقوں میں ہماری سیکورٹی فورسز ایک بھرپور جنگ لڑ رہی ہیں اس جنگ کا افسوس ناک پہلو یہ بھی ہے کہ اپنے ہی وطن میں اپنے مسلمان بھائیوں کے خلاف رمضان المبارک کے اندر لڑی جا رہی ہے … حالانکہ یہ بات ریکارڈ پر موجود ہے کہ اکتوبر 2001ء میں جب امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا اور پاکستان بھی اس جارحیت میں امریکہ کے ساتھ شامل ہوا تو اس وقت اور اس کے بعد تاوقتیکہ جب تک امریکہ اور پاکستان کی افواج نے ان قبائلی علاقوں پر حملے شروع نہیں کردیئے۔ اس وقت تک یہ علاقے مکمل طور پر پُرامن اور پورا پاکستان خودکش حملوں سمیت ہر طرح کی دہشت گردی سے پاک تھا جبکہ اس جنگ کا مزید شرمناک پہلو یہ ہے کہ ہم نے اپنے ہی ہم مذہب اور ہم وطن گرفتار کر کے امریکہ کے حوالے کردیئے۔ آج امریکہ کی خفیہ جیلوں اور گوانتاناموبے کے عقوبت خانے میں جو مسلمان قیدی موت کیلئے تڑپ رہے ہیں یہ سب ہماری سابقہ فوجی حکومت نے ہی گرفتار کر کے امریکہ کو فروخت کئے۔ یہ لاپتہ افراد جن کے بارے میں جنرل مشرف کہا کرتے تھے کہ وہ جہادی تنظیموں کے پاس ہیں، ان کے ورثاء وہاں جا کر انہیں تلاش کریں ان کے بارے میں اکتوبر 2001ء سے دسمبر 2003ء تک جی ایچ کیو میں چیف آف جنرل اسٹاف کی حیثیت سے خدمات انجام دینے والے لیفٹیننٹ جنرل (ر) شاہد عزیز نے اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں انکشاف کیا ہے کہ جن غیر ملکیوں اور مقامی افراد کو پکڑ کر تفتیش کیلئے حوالے کر دیتی تھی بعد میں معلوم ہوا کہ ایسے افراد کوامریکہ کے حوالے کر دیا جاتا تھا۔ سابق جنرل نے یہ بھی کہا کہ پاک فوج کی مخالفت کے باوجود پرویز مشرف نے اسے دہشت گردی کی جنگ میں گھسیٹا، انسداد دہشت گردی کیلئے پاک فوج اور امریکہ کے درمیان کوئی معاہدہ نہیں ہوا تھا۔ مشرف واشنگٹن کے ساتھ اکیلے معاملات طے کرتے رہے۔ جی ایچ کیو کو لاعلم رکھا گیا۔ 9/11 کے بعد اعلیٰ کمانڈروں نے تنازع سے باہر رہنے کا فیصلہ کیا تھا۔
ریٹائرڈ جنرل شاہد عزیز کے مذکورہ انکشافات کے بعد یہ بات واضح ہوگئی کہ امریکہ کی برپا کی ہوئی دہشت گردی کی جنگ میں پاکستان کی شمولیت جنرل مشرف کی ذاتی خواہش اور فیصلے کی وجہ سے ہوئی۔ بہرحال اس کی ذمہ داری اگر جنرل مشرف اور جی ایچ کیو کے درمیان تقسیم کر دی جائے یا کسی ایک پر ڈال دی جائے تو بھی پاکستان کے عوام کی مایوسی اور افسوس کا پہلو باقی رہے گا کیونکہ اب یہ انکشاف کوئی معنی نہیں رکھتا کہ فلاں نے غلطی کی، فلاں نے ناراضی کا اظہار کیا، یہ ہوا اور وہ نہیں ہوا۔
موجودہ دور حکومت میں بھی جنرل مشرف دور کی پالیسیوں کا جوں کا توں برقرار رہنا اس بات کی دلیل ہے کہ ہماری خارجہ پالیسی میں عوامی خواہشات اور بھاری مینڈیٹ کی بنیاد پر کوئی تبدیلی نہیں کی گئی۔ ایسا شاید اس لئے ہوا ہے کہ موجود قیادت بھی جنرل مشرف کی طرح امریکہ سے خوفزدہ ہے۔ امریکی حملوں کے جواب میں باوقار پالیسی اختیار نہ کرنا اور پھر یہ کہنا کہ ہم جنگ نہیں کر سکتے، جنرل مشرف سے بھی کہیں زیادہ کمزور پالیسی ہے۔ علاوہ ازیں ہمارے حکمرانوں کا بار بار یہ کہتے رہنا کہ ہم دہشت گردی کی جنگ اپنے مفاد میں لڑ رہے ہیں درست نہیں۔ پوری قوم جانتی ہے، دنیا کہتی ہے اور امریکن مانتے ہیں کہ پاکستان یہ جنگ امریکہ کے مفاد میں لڑ رہا ہے۔ (جاری ہے)