• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کالم نگاری کا ایک اسلوب یہ بھی ہے کہ کبھی کسی ’’کرنٹ افیئر ‘‘ پر اس وقت لکھا جاتا ہے جب اس کا ’’کرنٹ‘‘ ختم ہو چکاہوتا ہے ۔ یعنی جب :
ہو گیا قصہ پرانا پیار کا
پیار کا قصہ پرانا ہو گیا
ایک جدید تحقیق میں کہا گیا ہے کہ فاختہ، بلبل ، طوطا اور سادہ لوح انسان زندگی بھر کے لیے مخالف جنس کے ایک ہی فرد کے ساتھ جوڑی بناتے ہیں ۔ اس رپورٹ نے دو باتوں پر مہر تصدیق ثبت کردی ہے۔ پہلی یہ کہ اگر اس کالم نگار کی سادہ لوحی میں کوئی شبہ تھا بھی تو وہ دور ہو گیا ہے ۔دوسری یہ کہ پریم سنگھ بہرحال ایسے ’’سادگان‘‘ میں سے ہر گز نہیں تھا ۔ اس کی شادی اجیت کور کے ساتھ انجام پائی تو شاعر نے ’’سہرا‘‘ لکھا کہ:
وہ بھی آشنا تھا سب رستوں سے
سفر میرا بھی پہلا نہیں تھا
شادی کی رات پریم سنگھ ترنگ میں تھا ۔ اس نے حجلہ عروسی میں اجیت کور کے سامنے اپنے سابقہ معاشقوں کی داستان دراز کی تو وہ دراز تر ہوتی چلی گئی ۔ یہاں تک کہ سہاگ رات ڈھل گئی ۔ دلہن نے نہایت اطمینان ، حوصلے اور صبر کے ساتھ یہ فسانہ ہائے محبت سماعت کیے اور آخر میں فقط اتنا کہہ کر کوزے میں دریا بند کردیا ’’ سر تاج ! مجھے یقین تھا کہ اگر ہمارے ستارے مل گئے ہیں تو کرتوت بھی ضرور ملتے ہوں گے ‘‘۔ کہتے ہیں کہ اگر مقدر خراب ہو تو اونٹ پر بیٹھے شخص کو بھی کتا کاٹ لیتا ہے ۔ پریم سنگھ کے ساتھ بھی یہی ہوا کہ اسے اپنے ٹکر کی دلہن مل گئی ۔ اگر سردار خار زار عشق کا پیشہ ور آبلہ پا تھا تو اجیت کی آنکھوں میں بھی حیا واجبی ہی سی تھی ۔ اگرچہ شادی سے قبل ہی ان دونوں کی دو دو آنکھیں مل کر چار ہو گئی تھیں لیکن پھر بھی انہیں ایک دوسرے کا ماضی اور مستقبل نظر نہ آ سکاکیونکہ دونوں کی آنکھیں چار ہو چکی تھیں اور جب آنکھیں چار ہو جائیں تو ان پر پردہ تو پڑ ہی جاتا ہے ۔
ویسے سردار حضرات شادی کے معاملے میں بڑ ے حساس واقع ہوئے ہیں اور وہ عموماًجیون ساتھی کے انتخاب کے لیے پریم سنگھ کی طرح جلد بازی کی بجائے دور اندیشی اور مستقل مزاجی سے کام لیتے ہیں ۔ جیسے ہرنام سنگھ کو اس کی محبوبہ نے بتایا’’ میری امی کو آپ بہت پسند آئے ہیں ‘‘۔ ہرنام بولا ’’ٹھیک ہے لیکن شادی میں تم سے ہی کروں گا‘‘ ان کی دور اندیشی کی ایک اور مثال سنیئے ۔ بلبیر سنگھ اکثر ایک درخت پر چڑھ کر نزدیکی گھر میں ایک لڑکی کو تاڑا کرتا تھا ۔ ایک دن محلے کے لوگوں نے اسے رنگے ہاتھوں پکڑ کر ڈنڈا ڈولی کی تو سردار نے وضاحت کی کہ وہ اس لڑکی سے شادی کا ارادہ رکھتا ہے ، لہذا چھپ کر جائزہ لیتا ہے کہ لڑکی کو گھر کے کام کاج کا سلیقہ ہے بھی یا نہیں ؟ تاکہ بعد میں بد مزگی پیدا نہ ہو۔ تاہم چونکہ پریم سنگھ نے ایسا کوئی ’’جائزہ‘‘ نہیں لیا تھا ، لہذا وہ مار کھا گیااور بعد میں بد مزگی پیدا ہو گئی۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اتنی باریک بین اور ذہین قوم ہونے کے باوجود ہروندر کور ایڈووکیٹ کو جانے کس احساس کمتری نے ستایا کہ وہ سکھوں کے لطیفے بند کرانے کے لیے انڈیا کی سپریم کورٹ میں پہنچ گئی ۔ ہمارے خیال میں یہ سکھ خاتون ایڈووکیٹ سربت سنگھ کے مکتبہ فکر سے تعلق رکھتی ہے ، جس نے شام سنگھ کو سوکھے دریا میں کشتی چلانے کی سعی کرتے دیکھا تو غصے سے بولا ’’ تمہارے جیسے احمقوں نے پوری سکھ برادری کو بد نام کیا ہوا ہے ۔ اگر مجھے تیرنا آتا تو دریا میں اتر کر تمہیں جوتے مارتا‘‘ ۔
معاملہ چونکہ دوسرے ملک کی عدالت میں زیر سماعت ہے ، لہذا اس پر بات کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ۔ فاضل خاتون وکیل نے اپنی اپیل میں سکھوں کے لطیفوں پر پابندی عائد کرنے کی درخواست کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان لطیفوں کے ذریعے سرداروں کو احمق، گنوار ، بے وقوف اور بدھو ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ، جو سراسر بہتا ن ہے ۔ بلاشبہ یہ بہتا ن ہے لیکن کیا کیا جائے کہ لوگ پھر بھی سکھوں کو احمق ثابت کرنے کے لیے خواہ مخوا ہ اپنی توانائیاں ضائع کرنے سے باز نہیں آتے ۔ چراغ دین نے اپنے دوست گورنام سنگھ سے کہا کہ سکھ بے وقوف ہوتے ہیں ۔ سردار اس تہمت پر تپ گیا ۔ اس نے کہا کہ ثابت کرو ۔چراغ دین نے اپنا ہاتھ میز پر رکھا اور سردار کو اس پرمکا مارنے کو کہا۔ گورنام سنگھ نے پوری قوت سے ہاتھ لہرا کر مکا ماراتو چراغ دین نے عین وقت پر اپناہاتھ ہٹا لیا۔ مکا لوہے کی میز پر ایسا پڑا کہ سردار کے ہاتھ کی ہڈی ٹوٹ ہو گئی۔ وہ ہاتھ پر پلستر چڑھائے گھر جا رہا تھا کہ راستے میں صاحب سنگھ نے پوچھا ’’ کی ہویا اے ،سردار جی ؟ ‘‘ گورنام سنگھ نے کہا کہ آ ج ایک مسلمان نے ثابت کردیا ہے کہ سکھ بے وقوف ہوتے ہیں ۔ صاحب سنگھ نے پوچھا کہ وہ کیسے ؟ اب گورنام سنگھ نے ادھر ادھر دیکھا مگر گلی میں کوئی میز نظر نہ آئی تو اس نے اپنے گال پرہاتھ رکھ کر صاحب سنگھ کو اس پر زور سے مکامارنے کو کہا ۔ اس نے جو ہاتھ گھما کر مکامارا تو گورنام نے عین اس لمحے اپنا ہاتھ ہٹا لیا اور نتیجے میں اس کی بتیسی باہر جا پڑی ۔ اس نے کراہتے ہوئے کہا ’’ پہلے ثابت ہوا تھا یا نہیں ، اب ضرور ہو گیا ہے ‘‘ اب خدامعلو م کہ عدالت کیا فیصلہ دیتی ہے مگر یہ بات طے ہے کہ سردار ذہین مخلوق ہونے کے باوجود بات پہلے کرتے ہیں اور سوچتے بعد میں ہیں ، چاہے بعد میں معافی ہی کیوں نہ مانگنی پڑے ۔ وہ عدالتوں میں ایسے بے سروپا مقدمات دائر کر بیٹھتے ہیں اور فیصلے آتے ہیں تو لوگ کہتے ہیں کہ پہلے ان کا بے وقوف ہونا ثابت تھا یا نہیں، اب ضرور ہو گیا ہے ۔
بات پریم سنگھ اور اجیت کور کی شادی کی ہو رہی تھی جو پھسل کر سرداروں کی بے وقوفی اور عقلمندی کی متنازع بحث کی طرف نکل گئی ۔ شادی کے ہنگامہ ہائے شوق سرد پڑے تو تخیل کے گجرے مرجھا گئے اور دونوں دلوں میں شکر رنجی پیدا ہو گئی۔ مزاج کی ’’مطابقت‘‘ نے اپنا رنگ دکھایا تو جذباتی انداز میں شروع ہونے والا سفر بوجھ بن گیا اور محبت کی جگہ ’’گلو گردی‘‘ شروع ہو گئی ۔ نٹ کھٹیوں اور خوش فعلیوں کی جگہ بد اخلاقی اور بد اعتمادی کے سونامی نے لے لی ۔ یہ سونامی برپا کرنے میں کیدو کی نسل نے بھی بھرپور کردار ادا کیا۔ ایک سکھ دانا کا قول ہے کہ اگر گاڑی کا ریڈی ایٹر خراب ہو جائے یا بندے کو شوگر یا بلڈ پریشر ہو جائے یا میاں بیوی کے دلوں میں دراڑ آجائے تو دوبارہ ٹھیک ہونے کے امکانات کم ہی ہوتے ہیں ۔ ادھر بھی باہمی اختلافات اتنی تیزی سے بڑھے جیسے کسی نامعلوم ملک میں مہنگائی اور آبادی بڑھتی ہیں ۔ پریم سنگھ نے اپنے تجربات و مشاہدات کی روشنی میں سمجھ لیا کہ ’’ اے کمپنی چلدی نظر نئیں آئوندی‘‘…پھر وہی ہوا جو اس طرح کے کاموں میں ہوتا ہے کہ
میری لگدی کسے نہ ویکھی
تے ٹٹدی نوں جگ جاندا
آخر میں کالم کی دم کے طور پر محسن ؔنقوی کے دو شعر ؎
ترے مرے ملاپ پر وہ دشمنوں کی سازشیں
وہ سانپ رینگتے ہوئے چنبیلیوں کی اوٹ میں
چلو کہ ہم بجھے بجھے سے گھر کامرثیہ لکھیں
وہ چاند تو اتر گیا حویلیوں کی اوٹ میں
نوٹ: محتر م ظفر اقبال صاحب نے اپنے کالم میں ناچیز کی تحریر ’’ غالب بنام ظفر اقبال‘‘ کو جگہ دی ۔ ان کی اعلیٰ ظرفی اور بڑاپن ہے کہ اپنے خلاف لکھے گئے ’’ خط ‘‘ کو شائع کیا۔ خدا ان کی عمر دراز کرے ۔
تازہ ترین