اسلام آباد (احمد نورانی)دنیاکے مشہور و معروف سفارت کار ہینری کسنجرنے ایک جریدے ’’دی اٹلانٹک‘‘ کو دیے گئے اپنے تازہ ترین انٹرویو میں انکشاف کیا ہے کہ نومبر 1971میں اس وقت کے پاکستانی صدر اور پاک فوج کے سربراہ نے امریکی صدر رچرڈنکسن سے کہہ دیا تھا کہ ان کا ملک ، مشرقی پاکستان کو آزاد کردے گا۔یہ ایک حیرت انگیز انکشاف ہے کیونکہ اس وقت تک بھارت نے مشرقی پاکستان پر حملہ بھی نہیں کیا تھا۔ بھارت نے تین دسمبر 1971 کو مشرقی پاکستان پر جارحیت کی تھی۔ہینری کسنجر 22 ستمبر 1973 سے 20 جنوری 1977 تک امریکاکے 56 ویںوزیر خارجہ تھے، انہوں نے 20 جنوری 1969 سے تین نومبر 1975 تک امریکا کے قومی سلامتی کے مشیر کےطور پر بھی خدمات انجام دیں۔1969 سے 1977تک انہوںنے امریکا کی خارجہ پالیسی میںاہم اورنمایاںکردار ادا کیا۔ معروف ترین میگزین ’’دی ایٹلانٹک‘‘ کے ایڈیٹر ان چیف جیفری گولڈ برگ کو اپنے تازہ ترین انٹرویو میں انہوںنے حالیہ امریکی انتخابات سے قبل کئی معاملات پر تبادلہ خیال کیا۔انڈیا پاکستان بنگلا دیش ایشو چین کے دروازے امریکا پر کھلنے کے تناظر میں انہوں نے 1971 کے واقعات بھی بیان کیے۔ انہوںنے کہا کہ پاکستان کے ذریعے چین سے تعلقات کے بعد امریکا نے پاکستان پر زور دینا شروع کیا کہ وہ بنگلادیش کو آزاد کر دے۔ نومبر میںپاکستان کے صدرنے نکسن سے اس بات پر اتفاق کرلیاکہ آنے والے مارچ میں بنگلادیش کوآزادی دے دی جائے گی۔ دی اٹلانٹک کے ایڈ یٹرا ن چیف نےجو متعلقہ سوال ہینری کسنجر سے پوچھے ان کے جواب اس طرح تھے۔گولڈبرگ: کیا بھارت، پاکستان، بنگلادیش کے بحران میں ہونے والی اموات اور قربانیاں چین سے تعلقا ت کے مقابلے میں کسی قدر وقیمت کی حامل نہ تھیں؟ہینری کسنجر: انسانی حقوق امریکی پالیسی کالازمی حصہ ہیںلیکن قومی سلامتی بھی اتنی ہی اہم ہے۔ کچھ موقعے ایسے ہوتے ہیں جن میں ان دونوں کے درمیان انتخاب کی ضرورت نہیںہوتی، جس سے اخلاقی مسئلہ نسبتاآسان ہوجاتا ہے لیکن کچھ ایسے موقعے بھی ہوتے ہیں کہ جن میں ایک تنازع ابھرتا ہے اور صدر کو ایک سے زائد فیصلے کرنا ہوتے ہیں، جو تنازع کے حجم، اس کے حل کےلئے دستیاب وسائل، اندازا جس طرح معاملات طے پائیں گے ان پر ہمارے اقداما ت کے اثرات اور حتمی طور پر اس حوالے سے ہوتےہیں کہ اگر صدر آگے بڑھنے کے کسی راستے کا انتخاب کرلیتا ہے تو کیا امریکی عوام اس کی کوششوںکو آگے بڑھانے پر رضامند بھی ہوں گے یا نہیں۔ان سب عوامل کا خیال خاص طور پر اس وقت رکھا جاتاہے جب ایک ملک امریکا کی سلامتی کے لئے اہم ہوتا ہے یا پھر عالمی حالات ہماری اقدار کے برعکس چل رہے ہوتے ہیں ۔انسانی حقوق پر ہمارے زور دینے کے نتیجے میں عراق میں قوم کی تعمیر کا کام ناکامی سے دو چار ہوگیا۔انسانی حقوق کو نظرانداز کرنے سے روانڈا میں قتل عام ہوگیا۔ تمام پالیسی ساز پوری دنیا میںاس طرح کے چیلنجز کا سامنا کرتے ہیںاور بالخصوص پورے مشرق وسطی میں ایسے چیلنجز کاسامنا ہوتا ہے۔ بنگلادیش پر آپ کے سوال سے یہ ظاہر ہوتاہے کہ کس طرح یہ مسئلہ ہمارے ہاں عوامی بحث و مباحثے میں کنفیوژن کا شکار ہوگیا۔ چین سےتعلقات اور بنگلادیش میںلوگوںکی تکالیف کے مابین کبھی بھی کوئی چوائس نہیں تھی۔ایک انٹرویو میں اس حوالے سے تمام تفصیلات بیان کرنا ناممکن ہے۔ تاہم مجھے کچھ اصولوںکی وضاحت کا موقع دیں۔ (1) چین سے تعلقات کا آغاز 1969 میںہوا۔(2) بنگلادیش کا بحران مارچ 1971 میںشروع ہوا۔(3) اس وقت تک ہم چین کے ساتھ کچھ انتہائی خفیہ رابطے کر چکے تھے اور پیش رفت کے قریب تھے۔ (4) یہ رابطے پاکستان کے زریعے ہوئے تھے جو بیجنگ اور واشنگٹن دونوں کے لئے بات چیت میں انتہائی قابل قبول شراکت دار تھا۔ (5) بنگلادیش کا بحران اپنی اصل میں پاکستان کے بنگالی حصے کا آزادی حاصل کرنےکی کوشش کرنے کا عمل تھا۔ پاکستان نے نہایت پر تشددطریقے سے مزاحمت کی اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاںہوئیں۔(6) ان سنگین خلاف ورزیوںکی سرعام مذمت کرنے سے پاکستانی چینل تباہ و برباد ہوجاتا جس کی چین سے تعلقات کی تکمیل کے لئے آئندہ کئی ماہ تک ضرورت تھی اور یہ چینل بلاشبہ پاکستانکی جانب سے ہی لانچ کیا گیا تھا۔ نکسن انتظامیہ یہ سمجھتی تھی کہ چین سے تعلقات کا آغاز اتناہی ضروری ہے جنتا کہ امن کا حصول اور سوویت یونین سے سفارت کاری کو نئے سانچے میں ڈھالنے کا امکان اہم تھا۔ بنگلادیش میں رونما ہوتی ہوئی ٹریجڈی کو دیکھنے والے امریکی سفارت کار چین سے تعلقات کے حوالے سے بالکل لاعلم تھے،وہ دل دکھانے والا نقشہ کھینچتے تھے لیکن ہم سرعام اس پر ردعمل ظاہر نہیں کرسکتے تھے۔ تاہم صورت حال کو سنبھالنے کے لئے ہم نے سفارتی کو ششو ںکے ساتھ لوگوںکو بڑی مقدار میں خوراک فراہم کی۔ (7) پاکستان کے ذریعے چین سے تعلقات کے بعد امریکا نے پاکستان پر زور دینا شروع کیا کہ وہ بنگلادیش کو خودمختاری دیدیے۔نومبر میں پاکستان کے صدر نکسن سے اس بات پر اتفاق کرلیا کہ وہ مارچ کے مہینے میں بنگلادیش کو آزادکر دیں گے۔ (8) آنے والے مہینے، دسمبر میں بھارت نے سوویت یونین کے ساتھ فوجی معاہدہ کرنے کے بعد مشرقی پاکستان پر چڑھائی کردی، تاکہ پناہ گزینوںکے بوجھ کو کم کیا جاسکے۔ (9) امریکا کو پاکستانی قوم پرستی، چین کے شکوک و شبہات، بھارت کے مقاصد اور سوویت یونین کے دباؤ کے درمیان سے راستہ نکالنا پڑا۔ سمجھوتے کیے گئے اور ان کا ذکرکرنے کے لئے ایک کتاب درکار ہے لیکن جو نتیجہ نکلا اس پر کسی معذرت کی ضرورت نہیں ہے۔ مارچ 1972 تک بحران شروع ہونے کے ایک سال سے بھی کم عرصے کے دوران بنگلادیش آزاد ہوگیا تھا۔ بھارت اور پاکستان کی جنگ ختم ہوگئی اور فروری 1972 میں بیجنگ میں سربراہ اجلاس کے ساتھ ہی چین کے ساتھ تعلقات کا عمل بھی مکمل ہوگیا۔ شام،لیبیا، مصر،عراق اور افغانستان سے موازنہ کیا جائے تو 1971 میں جو قربانیاں دی گئیں ان کہیں زیادہ واضح طور پر اپنے انجام کو پہنچیں۔