• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ممتاز سرائیکی شاعر رفعت عباس کے ایک شعر کا اردو ترجمہ کچھ یوں ہے ’’ جو کام بھی حاکم نے کہا ، نہیں کیا رفعت ۔۔۔ ہم نے اپنی سستی میں سے جنگیں جیتی ہیں ۔ ‘‘ اس شعر کے ذریعہ وادی سندھ کے لوگوں کی مزاحمت کے انداز کو جس طرح بیان گیا ہے ، اس طرح شاید معروف امریکی دانشور اور مورخ ول ڈیورانٹ بھی نہ کر سکتے تھے ۔ ول ڈیورانٹ کو کسی بھی خطے کی ہزار ہا سالہ تاریخ کو تاثراتی انداز میں ایک جملے میں بیان کرنے میں ملکہ حاصل ہے ۔ رفعت عباس نے ان سے بھی زیادہ کمال کا مظاہرہ کیا ہے ۔ یہ شعر ’’ خواجہ فرید سرائیکی ادبی ثقافتی میلہ ‘‘ کے دعوت نامہ میں تحریر ہے ۔ یہ میلہ ضلع راجن پور کے قصبہ مہرے والا میں 21 اور 22 نومبر کو منعقد ہو رہا ہے ۔ یہ 30 واں سالانہ میلہ ہے ۔ اس میلے کے میزبان سرائیکی کے درویش صفت شاعر ، دانشور اور سیاست دان عاشق بزدار ہیں ۔ ان کی شاعری کی مشہور کتاب ’’ اساں قیدی تخت لہور دے ‘‘ کو پنجاب حکومت نے ضبط کرنے کا حکم دیا ہوا ہے ۔ کینیڈا کے نوجوان محقق اور مورخ اور ’’ تاریخ پر نظرثانی ‘‘ نامی کتاب کے مصنف انتھونی ڈی ولیمز ( Anthony D. Williams ) کا کہنا ہے کہ ’’ جب انسانیت ، محبت ، سچائی اور دانش کے پیمانے سے دولت کی پیمائش کرے گی تو ہم سب امیر ہو جائیں گے ۔ ‘‘ تاریخ میں یہ مرحلہ نہ جانے کب آئے گا لیکن عاشق بزدار امیر ترین آدمی ہو گئے ہیں کیونکہ انہوں نے اپنا سب کچھ اس کےلیے لٹا دیا ہے ، جسے وہ سچ سمجھتے ہیں ۔ عاشق بزدار کے اس ادبی اور ثقافتی میلے کے سیاسی اثرات بہت گہرے ہیں ۔ دریائے سندھ کے
دائیں کنارے پر واقع قصبہ مہرے والا عوام کی پر امن مزاحمت کا قلعہ بن گیا ہے ۔ مہرے والا کا یہ میلہ پاکستان کی تاریخ کا شاید پہلا غیر مذہبی اور غیر مسلکی عوامی اجتماع ہے ، جو 30 سال کی طویل مدت سے تسلسل کے ساتھ سالانہ بنیادوں پر منعقد ہو رہا ہے ۔ یہ ایک ایسا ادبی اور ثقافتی اجتماع ہوتاہے ، جس میں پاکستان کی ہر زبان بولنے والے اسکالرز اور ترقی پسند سوچ رکھنے والے سیاسی کارکنان بڑی تعداد میں شرکت کرتے ہیں ، جو یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کے لوگوں کی تاریخی ، ثقافتی اور تہذیبی شناخت کو اجاگر کرنے سے پاکستان ایک قومی ریاست کے طور پر تمام بحرانوں سے نکل کر اپنی سمت کا تعین کر سکتا ہے ۔ عام لوگ بھی بہت بڑی تعداد میں شریک ہوتے ہیں ۔ اس میلے میں دانشوروں اور نظریاتی سیاسی کارکنوں کو لوگوں کے ساتھ ڈائیلاگ کرنے کی تربیت ملتی ہے اور ہزاروں سال قدیم سرائیکی تہذیب مکمل ربط کے ساتھ اس عہد میں اپنااظہار کر رہی ہوتی ہے ۔ اس دو روزہ میلے میں سرائیکی زبان کا سب سے بڑا مشاعرہ ہوتا ہے ۔ روایتی سرائیکی رقص ’’ جھمر ‘‘ اور حضرت خواجہ غلام فرید کی کافیوں کے ساتھ اس میلے کا آغاز ہوتا ہے اور جھمر کے ساتھ اس کا اختتام ہوتا ہے ۔ سرائیکی کے بڑے گلوکار اپنے فن کا مظاہرہ کرتے ہیں ۔ سرائیکی ادب ، شاعری ، تاریخ اور ثقافت پر شائع شدہ کتابوں کے اسٹالز لگتے ہیں ۔ جدید سرائیکی ڈرامہ پیش کیا جاتا ہے ۔ سندھ ، بلوچستان ، خیبرپختونخوا اور وسطی پنجاب سے سیاست اور ثقافت سے دلچسپی رکھنے والے بڑے بڑے لوگ اس میلے میں موجود ہوتے ہیں ۔ سرائیکی وادی سندھ کی سب سے بڑی زبان ہے ، جو ملک کے چاروں صوبوں میں بولی اور سمجھی جاتی ہے ۔ یہ آج بھی پاکستان کے لوگوں کے درمیان رابطے کی ایک زبان ہے ۔ جن علاقوں کو سرائیکی وسیب کا نام دیا جاتا ہے اور جہاں ایک نیا سرائیکی صوبہ بنانے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے ، وہ علاقے وادی سندھ کے مرکزی علاقے ہیں ، جنہیں سپت سندھو یا سپتا سندھو یعنی سات دریاؤں کی سرزمین کہا جاتا ہے ۔ رفعت عباس نے اپنے شعر میں سستی کا جو لفظ استعمال کیا ہے ، وہ دراصل درویشانہ اصطلاح ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ سپت سندھو کے لوگ تہذیبی اور ثقافتی طور پر اتنے امیر ہیں کہ وہ کسی غیر حاکم کا حکم نہیں مانتے بلکہ اپنے آپ میں مست رہتے ہیں ۔ وادی سندھ کے لوگوں کی مزاحمت کا انداز یہ ہے کہ وہ اپنی تہذیب اور ثقافت کے دشمن حاکموں سے لاتعلق رہتے ہیں ۔ وہ تشدد کا راستہ اختیار نہیں کرتے ہیں ۔ 1985 ء میں کریم نواز خان کورائی کی بستی ’’ بنگلہ کورائی میں سرائیکی وسیب کے دانشور ، ادیب ، شاعر اور ترقی پسند سیاسی کارکن جمع ہوئےتھے اور انہوں نے ادبی اور ثقافتی سرگرمیوں کے ذریعہ عوام کے حقوق کی پر امن جدوجہد کو آگے بڑھانے کا فیصلہ کیا تھا ۔ ’’ اعلان بنگلہ کورائی ‘‘ کو سامنے رکھتے ہوئے قلندر مزاج عاشق بزدار نے اپنے دوستوں صوفی تاج گوپانگ ، منظور دریشک ، مرحوم جام تاج ، مرحوم منظور بوہڑ ، مرحوم کریم نواز کورائی اور دیگر دوستوں کے ساتھ مل کر سالانہ ادبی ثقافتی میلے کا آغاز کیا تھا ۔آج ان کے ساتھیوں کی تعداد ہزاروں میں ہے ، جن کے نام میلے کے اشتہار میں پڑھے جا سکتے ہیں ۔ اس میلے کے اثرات کسی بڑی سیاسی تحریک سے بھی زیادہ ہیں ۔ اس میلے نے سرائیکی قومی تحریک کو شاؤنزم ، تنگ نظری اور تشدد کی طرف نہیں جانے دیا ۔ وادی سندھ کو مذہبی انتہا پسندی میں دھکیلنے والی قوتوں کو روکنے کا بھی آج صرف یہی طریقہ نظر آ رہا ہے ، جو مہرے والا کے میلے کا ہے ۔ اس میلے کو ایک روایت کے طور پر دیگر صوبوں کی ترقی پسند اور قوم پرست قوتوں نے رائج کرنے کی کوشش کی ۔ سرائیکی وسیب میں اس میلے کے اثرات کا اندازہ لگاناہے تو جدید سرائیکی شعراء کے چند اشعار کا حوالہ دینا مناسب ہو گا ۔ ڈیرہ اسماعیل خان کے سرائیکی شاعر سعید اختر سیال کے شعری مجموعہ ’’ وساخ ‘‘ پر انہیں صدارتی ایوارڈ دیا گیا ہے ۔ یہ کتاب سرائیکی رزمیہ ہے ۔ اس میں ایک جگہ کہا گیا ہے کہ ’’ ڈھول مہرے والا میں بجتے ہیں ۔۔۔ یار لوگ شیرن میں ناچتے ہیں ۔ ‘‘ (ترجمہ ) شیرن ڈیرہ اسماعیل خان کا ایک قصبہ ہے ۔ ایشو لعل اپنے ایک شعر میں کہتے ہیں کہ ’’ کئی قصوںمیں جاگ رہی ہے ۔۔۔ ایک رات مہرے والے کی ‘‘ ( ترجمہ ) رفعت عباس کا ایک اور شعر ہے ’’ وہاں مہرے والے کے لوگوں نے ایک بات چلائی ہے ۔۔۔ یہاں شہر کروڑ میں جھمر لگا رہے ہیں رفیق ‘‘ ۔ ( ترجمہ ) یہاں کروڑ کا مطلب شہر کروڑ لعل عیسن ہے اور رفیق کا مطلب ممتاز سرائیکی دانشور ڈاکٹر رفیق ہیں ۔ اس میلے کے اثرات صرف پاکستان کی موجودہ سیاست پر نہیں بلکہ پاکستان کے مستقبل کی سیاست پر بھی پڑتے رہیں گے ۔ بقول ڈاکٹر احسن واگھا سرائیکی وسیب کے لوگوں نے اپنی قومی شناخت کو محفوظ بنانے کے لیے مہرے والا کے میلے کو اپنی قومی تحریک کا واضح راستہ تصور کر لیا ہے ۔ میرے خیال میں پاکستان کی دیگر قوموں اور مظلوم طبقات کےلیے بھی یہی راستہ ہے۔ ثقافت شناخت ہے ، ثقافت محبت ہے ، ثقافت سچ ہے ، ثقافت دانش ہے اور ثقافت پرامن مزاحمت ہے ۔
تازہ ترین