پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے مشترکہ اجلاس میں جو 18 اکتوبر کو شروع ہوا تھا۔ 22 اکتوبر کو 14 نکات پر مشتمل ایک ”متفقہ قرار داد“ منظورکرلی گئی اس قرار داد کے اہم نکات میں قبائلی علاقوں سے فوج کی بتدریج واپسی اور قبائلی عمائدین کے ساتھ مذاکرات پر زور دیتے ہوئے 1973ء کے آئین میں دی گئی صوبائی خود مختاری پر عمل درآمد کے ساتھ ساتھ ”آزاد خارجہ پالیسی“ اپنانے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ پاکستان کی سرحدوں کے دفاع اور غیر ملکی حملوں پر جوابی کارروائی کی بات ضرور کی گئی تاہم حکومت کے اصرار پر سفارتی چینل استعمال کے الفاظ شامل کئے گئے۔ جوابی کارروائی میں ”فوجی کارروائی“ کے الفاظ استعمال کرنے سے گریز کیا گیا… بہرحال 14نکات کی تفصیل اور اس قرار داد کی منظوری کے وقت حکومت سمیت مختلف جماعتوں کے معزز ممبران کی بحث اور نقطہ نظر اخبارات میں آچکا ہے لہٰذا اسے یہاں دہرانا ضروری نہیں تاہم جو بات اہم ہے وہ یہ کہ اگر اس ”قرارداد“ کو ہی کافی سمجھ لیا جائے جب کہ یہ کافی نہیں ہے تو بھی کیا حکومت اس ادھوری اور نامکمل قرار داد پر بھی عمل درآمد کرنے کا کوئی ارادہ رکھتی ہے جب کہ اس قرار داد کی منظوری کے فوری بعد قائد حزب اختلاف چوہدری نثار علی خان‘ ن لیگ کے سربراہ اور سابق وزیراعظم میاں نواز شریف سمیت امیر جماعت اسلامی محترم قاضی حسین احمد کے بیانات آچکے ہیں کہ مذکورہ قرار داد پر عمل درآمد کرتے ہوئے بلوچستان اور صوبہ سرحد کے قبائلی علاقوں سے فوج کی بتدریج واپسی اور آزاد خارجہ پالیسی کے لئے فیصلے اور اقدامات کئے جائیں مگر دوسری جانب سے یہ خبر ہے کہ حکومت اس متفقہ قرار داد پر عمل درآمد کرنے کے لئے کوئی ٹائم فریم دینے کے لئے تیار نہیں۔ بس وعدہ ہے ارادہ نہیں۔
آیئے قرار داد کے الفاظ اور نکات سے ذرا ہٹ کر اس کے پس منظر اور پیش منظر کا جائزہ لیتے ہوئے یہ معلوم کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کی مذکورہ قرار داد کس کی ضرورت تھی اور کس کی نہیں؟ بندکمرے کے اجلاس میں چار روز تک بھر پور بحث و مباحثہ کرنے کا مقصد کیا ایک ایسی ہی قرار داد کو منظور کروانا تھا کہ جس کی آڑ میں حکومت کو افغان پالیسی تبدیل کرنے کا موقع مل جاتا یا یہ کہ امریکہ کی حلیف جانبدارانہ پالیسی کی جگہ ”آزاد اور غیر جانبدارانہ خارجہ پالیسی“ ترتیب دینے کے لئے کوئی جواز تلاش کرنا مقصود تھا یعنی اس قرار داد کو امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کو جو پاکستان کو نام نہاد دہشت گردی کی جنگ میں زبردستی گھسیٹ رہے ہیں سے علیحدہ ہونے کے لئے ایک مجبوری بتانا تھا۔ کہ ایک منتخب حکومت منتخب پارلیمان کی متفقہ قرار داد کو نظر انداز نہیں کرسکتی لہٰذا امریکہ اور اس کے اتحادی پاکستان پر مزید دباؤ ڈالنے سے گریز کریں…؟
ایسا نہیں ہے اور ہرگز نہیں ہے ۔جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ پیپلزپارٹی کی حکومت مکمل طور پر امریکی پالیسیوں سے اتفاق کرچکی ہے۔ انسداد دہشت گردی کے نام پر لڑی جانے والی جنگ میں جنرل مشرف کی شمولیت کے فیصلے کو وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی اور صدر آصف علی زرداری بدستور قائم رکھنا چاہتے ہیں۔ جو الفاظ جنرل مشرف کہا کرتے تھے وہی الفاظ پی پی حکومت کے رہنما بھی چبانے لگے ہیں۔ امریکہ کی جنگ کو اپنی جنگ کہنے کے بعد مزید کسی بحث یاشبہ کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ ایسی ہی سوچ ہماری عسکری قیادت کی بھی لگتی ہے… لہٰذا قومی اسمبلی اور حکومت کے درمیان دہشت گردی کی جنگ پر پائی جانے والی سوچ کے مختلف ہونے کے باوجود سینٹ اور قومی اسمبلی کا ”مشترکہ اجلاس“ کیوں منعقد کرایا گیا…؟ تو اس سوال کا جواب پانے کے لئے حکومت کے 6 ماہ کے اقدامات اور امریکہ کے بیانات کو سامنے رکھنا ہوگا۔
حالیہ دورہ امریکہ کے دوران صدر جناب آصف علی زرداری نے لاس اینجلس ٹائمز کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں اعتراف کیا کہ امریکہ کے ڈرون (بغیر پائلٹ) کے جاسوس طیارے ان کی حکومت کی اجازت سے پاکستانی علاقوں پر حملے کررہے ہیں جب کہ صدر مملکت کے انٹرویو کے بعدسیکریٹری دفاع نے سینٹ کمیٹی برائے دفاع کے اجلاس میں بیان دیا کہ ”امریکی طیارے ہماری اجازت سے سے فضائی حدود استعمال کرتے ہیں‘ ہم امریکہ کی امداد پر انحصار کرتے ہیں‘ دشمنی مول نہیں لے سکتے‘ امریکی انٹیلی جنس اور تعاون کے بغیر پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ نہیں جیت سکتا ‘ برطانیہ نے دہشت گردی کے الزامات لگا کر اقتصادی پابندیاں لگائیں تو پاکستان گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوجائے گا۔ معیشت دیوالیہ ہونے والی ہے۔پاکستان کی عسکری اور سیاسی قیادت کے بیانات کو اگر سامنے رکھا جائے تو یہ بات سمجھنا آسان ہوگی کہ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کا مشترکہ اجلاس جو بند کمرے میں 4 روز تک جاری رہا اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں تھا کہ یہ اجلاس امریکی اتحاد سے علیحدہ ہونے‘ خارجہ پالیسی کو آزاد اور غیر جانبدار بنانے اور امریکی حملوں کامنہ توڑ جواب دینے پر غور کرنے کے لئے بلایا گیا تھا بلکہ بحری بیڑے کی بریفنگ اور صدر بش سے ملاقات میں طے پانے والے امور پر اتفاق‘ تائید اور حمایت حاصل کرنے کے لئے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلایا گیا تھا تاہم مشترکہ اجلاس کے نتیجے میں منظور ہونے والی ”متفقہ قرار داد“ غیر متوقع طو رپر حکومت کی خواہش اور مرضی کے مطابق نہیں رہی یہی وجہ سے کہ اوجھل ہوتی ہوئی امریکی انتظامیہ کے نائب وزیر خارجہ مسٹر رچرڈ باؤچر پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس پر اثر انداز ہونے کے لئے اچانک اسلام آباد آن دھمکے…اس موقع پر باؤچر کے بیانات سے صاف معلوم ہورہا ہے کہ پاکستان کو بدستور دباؤ میں رکھنے کی کوشش کی جارہی ہے خاص طور پر پارلیمان کی قرارداد کو غیر موثر بنانے کے لئے امریکی نائب وزیر خارجہ نے اس اہم موقع پر اسلام آباد کا دورہ ضروری سمجھا۔
ایک بات بڑی واضح ہے کہ پاکستان کی موجودہ ”حکمران قیادت“ امریکی کیمپ سے نکلنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔”خوفزدہ قیادت“ کی بریفنگ بند کمرے میں ہویا کھلے میدان میں وہ قوم کو کسی خطرے کے مقابلے کے لئے تیار نہیں کرسکتی بلکہ وہ خطرے پر خطرہ دکھا کر قوم کو یہاں تک خوفزدہ کرنے کی کوشش کرتی ہے کہ وہ ہاتھ میں موجود تلوار کو بھی نیچے زمین پر رکھ کر سامنے پڑی ہوئی زنجیر سے اپنے آپ کو خودہی باندھ ڈالے اور پھر غلامی کے اُس گیت کو باآواز بلند پڑھنا شروع کردے۔
یہ بات خوش آئند ہے کہ سینٹ اور قومی اسمبلی کے ارکان نے اس موقع پر کافی حد تک عوام کے جذبات کی ترجمانی اور ملک کے وسیع مفاد میں ایک بہتر قرار داد منظور کی ہے تاہم جیسا کہ ہم اوپر لکھ چکے ہیں کہ ایسی قرار داد حکومت پاکستان اور امریکہ کی قطعاً ضرورت نہیں تھی۔ اسی لئے امریکہ نے اس متفقہ قرار داد کے منظور ہونے کے ٹھیک دو گھنٹے بعد پاکستان کے علاقے شمالی وزیرستان کے ایک مدرسے پر میزائل حملہ کیا جس میں11 طلباء شہید اور 6 زخمی ہوگئی جس پر ہماری قیادت خاموش رہی لگتا ہے کہ اس حملے کے ذریعے پارلیمنٹ کو امریکہ اور حکومت پاکستان نے ایک مشترکہ پیغام دیا ہے کہ اگر پارلیمنٹ وائٹ ہاؤس اور اسلام آباد کی اندر اسٹینڈنگ کے مقابلے میں کوئی الگ راستہ بنانے کی کوشش کرے گی تو اس کا ہرگز احترام نہیں کیا جائے گا‘ اور پاکستان کے اندر حملے کرنے اور اُن پر خاموش تماشائی بنے رہنے کی پالیسی جاری رہے گی۔