تاشقند میں جب زلزلہ آیا تھا اور پورا شہر زمیں بوس ہو گیا تھا تو روس کی تمام ریاستوں نے اپنے ذمے ایک ایک محلہ لے لیا تھا۔ تین ماہ میں پورا شہر نئے سرے سے تعمیر ہو چکا تھا۔ تباہ شدہ شہر کا ایک حصہ، البتہ محفوظ کیا گیا تھا کہ آئندہ آنے والی نسلیں یہ دیکھیں کہ شہر کس قدر برباد ہوا تھا۔ اسی طرح ہیرو شیما میں جب امریکہ نے بم پھینکا تھا، پورے کا پورا شہر معہ تمام تر آبادی کے جل کر خاکستر ہو گیا تھا۔ جاپان کی حکومت نے تین سال میں نیا خوبصورت شہر تعمیر کرنے کے ساتھ اول تو میوزیم بنایا تھا تاکہ جلے ہوئے شہر کا نقشہ آئندہ نسلوں کے لئے محفوظ کیا جائے اور پھر ہر روز ہیروشیما میں صبح آٹھ بجنے میں دس منٹ پر سائرن بجایا جاتا ہے۔ قوم کی یاددہانی کے لئے کہ ہم پہ کیسی آفت ٹوٹی تھی۔
ہمارے یہاں 2005ء میں جو زلزلہ آیا، اس کی باقیات اب تک مظفر آباد شہر میں دیکھی جا سکتی ہیں۔ مانسہرہ ہو یا بٹ گرام اب تک نئی آبادیوں کے نقشوں تک محدود ہیں۔ ترکی ایک ملک تھا کہ جس نے پیسے ہاتھ میں نہیں پکڑائے سیدھا جا کر خود رقم خرچ کی اور کالج بنا کر دے دیا۔ بالکل اسی طرح کہ ہماری رشوت ستانی کے قصے تو اتنے عام ہیں کہ گوادر میں چینیوں نے اپنی لیبر لا کر کام کیا اور چلے گئے۔ اب بھی چینی یہی کہہ رہے ہیں کہ ہم آپ کے ہاتھ میں رقم نہیں پکڑائیں گے جو کام کرنا ہو گا، ہم خود کر کے چلے جائیں گے۔
اس سارے منظر کو زیارت کے زلزلے کے پس منظر میں دیکھئے اور میرے ساتھ پرانے تجربے کی روشنی میں تجزیہ کیجئے۔ 2005ء کے زلزلے کے سلسلے میں آئے ہوئے کتنے ٹینٹ، کتنے کمبل اور کتنا سامان لوٹ کر دکانوں پر بیچا گیا۔ یہ سب تو آپ کو یاد ہو گا۔ اس وقت بھی کہا تھا میں نے اور دوسرے بہت سے لوگوں نے کہ کوئی مدد باغ کے ضلع کی تعمیر کے لئے وقف کر دی جائے ، دوسرے علاقے کی مدد راولا کوٹ کے لئے ، نیا شہر مظفر آباد بنانے کے لئے الگ رقم وقف کر دی جائے۔ یہی عملی منظر نامہ بٹ گرام، بالاکوٹ اور مانسہرہ کے لئے اختیار کیا جائے۔ ایسی سوچ کے لئے تو تنظیمی استطاعت اور خلوصِ نیت چاہئے ہوتی ہے۔ یہ دونوں چیزیں ہمارے ملک میں مفقود ہیں۔
اب جبکہ زیارت میں زلزلے کے ہولناک مناظر سامنے آرہے ہیں تو میری دست بستہ گزارش یہ ہے کہ بلوچستان کی حکومت میں 53 میں سے 50 ممبران تو وزیر ہیں ان کے اتنے ہی سیکرٹری ہیں، اتنے ہی ڈی جی ہیں، یہ سب اپنی ایک ایک مہینے کی تنخواہ دے دیں تو پورے علاقے میں نئے گھر ، نئے جدید گاؤں اور تمام ذرائع مواصلات، ہسپتال، سکول اور کالج تعمیر ہو سکتے ہیں اور یہ وزیروں کی ظفر موج کی سرخروئی کا سامان بھی پیدا ہو گا۔
مگر یہ نہیں ہو گا۔ دنیا بھر سے کمبل، کپڑے اور ٹینٹ آئیں گے ، بازار میں بیچے جائیں گے، لوگ آخر تنگ آ کر خود ہی دوبارہ مٹی کے گھر بنائیں گے، حکومت کے منہ پہ روئیں گے اور پھر روزمرہ کے معمولات میں مصروف ہو جائیں گے۔
یہ بھی تو ہو سکتا تھا کہ پنجاب، بجائے دس کروڑ دینے کے لوگوں کو گھر بنا کر دیتا، اسی طرح سندھ اور سرحد کے صوبے کی جانب سے تعمیر کے منصوبے ہوتے تو دوماہ کے اندر نیا بلوچستان سامنے آ جاتا۔ ابھی تو یہ خبر بھی نہیں ہے کہ قائد اعظم ریذیڈنسی سلامت ہے کہ اس میں بھی نقصان ہوا ہے۔ ابھی تو یہ بھی خبر نہیں کہ معدنیات کے ذخائر جو زیارت کے قرب و جوار میں میں جواہر سے بھرے پڑے تھے ان کی بھی کوئی رکھوالی کر رہا ہے کہ نہیں۔ یہ بھی خبر نہیں ہے کہ زیتون کے باغ بچے ہیں کہ نہیں۔ یہ بھی خبر نہیں کہ جوینپر کے قدیم ترین درخت سلامت ہیں کہ نہیں۔
بلوچستان میں ترقیاتی فنڈ بچتے ہی نہیں۔ اس وقت بھی کئی بلین کی مانگ حکومت پاکستان کے پاس پڑی ہے۔ سبب یہ کہ سارا بجٹ تو ختم ہو جاتا ہے تنخواہوں اور وزیروں کی مانگوں پر کہ اتنی ہی گاڑیاں چاہئیں، اتنے ہی گھر چاہئیں اور پھر پرائیویٹ سیکرٹری کے لئے بھی گاڑی چاہئے، دیگر لوازمات سفر خرچ ، اپنے علاقے میں جانا، جلسے کرانے اور بخشش الگ۔ صوبے کی ترقی کی مد میں رقم بچتی ہی نہیں اس لئے چھاؤنی کے علاقے کے علاوہ کوئٹہ شہر کی تمام سڑکیں ٹوٹی ہوئی ہیں۔ باڑہ مارکیٹیں بھری ہوئی ہیں۔ ہزارہ ٹاؤن سے لے کر ہزار گنجی اور سریاب روڈ تک افغانیوں کا قبضہ ہے، ان کی باقاعدہ کالونیاں بنی ہوئی ہیں۔ من چلے کا سودا ہے جیسے چاہیں، جب چاہیں اور جو چاہیں وہ کرتے پھرتے ہیں ، کوئی پوچھنے والا ہی نہیں ہے۔ مدرسوں کے نام پہ جہادی گروپ بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ برقعے میں لپٹی کبھی تین اور کبھی چار بیویاں ایک عام روش ہے۔ زرغونہ کی پہاڑیوں کو ایسے زخم لگے ہیں جو شاید کبھی نہ بھر سکیں گے۔
اسی طرح کا منظر نامہ ہر چند سوات اور پشاور کا بھی ہے۔ وہاں تو وہ حیات آباد، جو خوبصورتی میں اپنی مثال آپ تھا، وہ بھی اب اغوا کنندگان کی آماجگاہ بن چکا ہے۔ مٹہ کا علاقہ ایسا جہادیوں کے ہاتھ میں ہے کہ سوات کے سارے لوگ ان کے خلاف ہیں مگر ان کا اثر ختم نہیں ہو رہا ہے۔ زلزلے میں جتنی اموات ہوئی ہیں ان سے زیادہ لوگ تو سوات اور فاٹا میں مارے جا چکے ہیں۔
حکومتی افسران نے کہا ہے کہ وہ لوگوں کو گھر بنا کر دیں گے۔ یہی بات کہی تھی 2005ء میں حکومت کارندوں نے۔ اب تک یہ کہاوت سچ نہیں ہوئی ہے۔ لوگ مظفر آباد تک ہی ٹینٹ کی دیوار بنا کر بیٹھے ہوئے ہیں۔ خدا کے لئے اے میری حکومت کے نامعتبر لوگو! سچ بولنا سیکھ لو ورنہ نہ کوئی یہاں سرمایہ کاری کے لئے آئے گا نہ کوئی یقین کرے گا کہ کتنی بربادی ہوئی ہے، نہ کوئی آباد کاری کے لئے آئے گا۔ ہماری دیدہ دلیری کی کہانیاں تو دنیا بھر میں عام ہیں۔ رشوت کے قصوں کو کتنا بھی کم کرو پھر بھی اربوں میں نکلتے ہیں۔ وہ لوگ جو اکتوبر میں اربوں روپے باہر لے گئے ان کے 2% وصول کر کے میرے غریب لوگوں کی مدد کر دو۔ بلوچستان کے لوگوں کا سارا تعصب، سارا غصہ دور ہو جائے گا۔ یہ نہ ہو کہ جتنی دیر میں سوئی گیس کوئٹہ پہنچی تھی اتنی ہی دیر میں زلزلہ زدگان کی بحالی کا کام ہو۔ بہت لوگ ابھی تک پہاڑوں پر بیٹھے ہیں ، ان کو نیچے لانے کے لئے جو محبتیں چاہئیں وہ ارزاں کرو۔ لوگ جی جان سے پاکستان کی خدمت کریں گے۔