• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

زمانہ قدیم کے متروک فقیر اور منگتوں کی ٹیم,,,,,کٹہرا … خالد مسعود خان

جب میں اپنی پاکستانی حکومتوں کی شاہ خرچیاں ، اللے تللے اور مانگے کے ٹھاٹھ باٹھ دیکھتا ہوں اور پاکستان کی معاشی بد حالی پر نظر ڈالتا ہوں تو مجھے ایک لطیفہ بہت یاد آتا ہے۔ ایک فقیر خوشحال لوگوں کی رہائشی کالونی میں صدا لگا رہاتھا کہ اے دولت مندو! کبھی میں بھی آپ کی طرح دولت مندتھا۔ اے پیسے والو! کبھی میرے پاس بھی پیسے تھے اور میں بھی آپ کی طرح خوشحال تھا، کبھی میں بھی اسی طرح کے مکان میں رہتا تھا ۔ میرے گھر کے باہر بھی خیرات مانگنے والے آتے تھے اور میں انہیں صدقہ خیرات دیا کر تاتھا۔
اے خوشحال لوگو! وقت کبھی ایک سا نہیں رہتا۔ کل تک میں دینے والوں میں تھا اور آج میں خود مانگنے والوں میں سے ہوں ۔ کبھی میں خود حاجت مندوں کی حاجتیں پوری کرتا تھا آج میں خود حاجت مند ہوں۔ کبھی میں لوگوں کی ضرورتیں پوری کرتا تھا آج خود ضرور ت مند ہوں ۔ اس کی یہ صدائیں سن کر ایک خدا ترس شخص باہر نکلا اس فقیر کو ایک ہزار روپے کا نوٹ دیا اور پوچھنے لگا کہ آخر اس پر ایسی کیا افتاد آن پڑی کہ وہ یوں پیسے پیسے کا محتاج ہو کر گلیوں میں بھیک مانگ رہا ہے۔ فقیر نے ہزار روپے کانوٹ جیب میں ڈالا اور کہنے لگا۔ جناب عالی! میں بھی آپ کی طرح گلی میں مانگنے والے فقیروں کو ایک ایک ہزار روپے خیرات میں دیتا تھا۔
ہمارے حکمران ایک طرف تو کشکول اٹھائے ساری دنیا میں مارے مارے پھر رہے ہیں۔ مشیر خزانہ اپنی ساری بینکاری کا تجربہ قرضہ مانگنے میں صرف کر رہے ہیں۔ ہم فرینڈز آف پاکستان نامی فورم سے صبح جاگنے کے فوراً بعد پھر سارا دن اور پھر رات کو سونے سے پہلے دوچار ارب ڈالر کی امداد مانگتے ہیں ۔ سعودی عرب ، امارات ، چین اور ہر ایسے ملک سے جہاں ہماری تھوڑی بہت عزت یا واقفیت ہے ادھار مانگ کر شرمندہ ہوچکے ہیں مگر تقریباً ہر جگہ سے وعدہ فردا اور پندو نصائح سن کر واپس آچکے ہیں ۔ ہر صبح اخبارات قوم کو یہ خبر سناتے ہیں کہ اگلے پندرہ روز میں کم از کم سات ارب ڈالر کی ضرورت ہے بصورت دیگر
ملک دیوالیہ اور نادہندہ ہو جائے گا۔ آئی ایم ایف کو لات مارنے کے دعویدار آئی ایم ایف کے دروازے پر ناک رگڑ رہے ہیں اور اس کی ہر ذلت آمیز شرط کو ماننے کے لیے تیار ہیں ۔ دوسری طرف ہمارے تمام تراللے تللے، فضول خرشیاں اور شاہ بخشیاں پوری شان وشوکت سے جاری ہیں۔
پچپن وزراء پر مشتمل پاکستان کی تاریخ کی دوسری بڑی کابینہ جہاں غربت ، مہنگائی اور بے روزگاری کے بوجھ تلے دبی ہوئی عوام کو منہ چڑارہی ہے وہیں دنیا بھر میں ہماری معاشی بد حالی کے شور میں ہماری جگ ہنسائی کا باعث بھی بن رہی ہے ۔ ان پچپن وزراء کے علاوہ مولانا فضل الرحمن، اسفند یارولی اورعثمان فاروقی سے لیکرشیری رحمان کی مہربانیوں سے پی ٹی وی کی چیئرمینی سے مستعفی ہونے والے شاہد مسعود تک کئی افراد ہیں جو وزیر نہ ہونے کے باوجود وزیر کے مساوی درجے کا سٹیٹس اور سہولتیں انجوائے کر رہے ہیں۔ یہ وہ وزراء ہیں جن کی غالب تعداد پی پی پی سے تعلق رکھتی ہے اور چند وزیر ہیں جو اے این پی یا دوسری اتحادی جماعتوں سے لیے گئے ہیں لیکن حالیہ تازہ توسیع میں اپنی پسند کی وزراتیں نہ ملنے پر ایم کیو ایم کی ناراضگی اور مولانا فضل الرحمن کی مناسب پذیرائی نہ ہونے کے باعث ابھی ہر دو اتحادی جماعتیں مزید وزراتوں کی طلب گار ہیں ۔ ایم کیو ایم شپنگ اور ہاؤسنگ کی وزارت نہ ملنے پر اور مولانا فضل الرحمن اپنے بھائی عطاالرحمن اور اپنے فنانسر سینیٹر بیک وقت وزیر نہ بنانے پر ناراض ہیں تاہم معاملات بہتر ہونے اور درمیانی راستہ نکل آنے کے بعد ابھی اس پچپن رکنی کابینہ میں مزید اضافے کے امکانات خاصے روشن ہیں۔
جب ہم اپنی پچپن رکنی کابینہ کے ساتھ پچیس رکنی کابینہ رکھنے والے ملک چین سے، پندرہ رکنی کابینہ والے ملک جرمنی سے اور اکیس رکنی کابینہ والے سعودی عرب سے معاشی بد حالی اور مالی مشکلات کے باعث خیرات دینے کی اپیل کرتے ہیں تو اس عاجز کو یقین ہے کہ وہ دل ہی دل میں ہم پر ،ہماری حرکات پر، ہماری بد انتظامی پر اور ہماری حماقتوں پر نہ صرف پیچ وتاب کھاتے ہونگے بلکہ شاید دوچار گالیاں دیتے ہونگے۔
جب ان کی نظریں ان لوگوں پر پڑتی ہوں گی جن کے غیر ملکی بینکوں میں اربوں روپے پڑے ہوئے ہیں اور وہ اس ”منگتوں کی ٹیم“ کے باعزت رکن ہیں جو دربہ در ، ملک بہ ملک اور ادارہ بہ ادارہ دروازے کھٹکھٹا کر خیرات مانگنے پر لگی ہوئی ہے تو وہ نہ صرف ہماری بے شرمی اور ڈھٹائی پر حیران ہوتے ہونگے بلکہ صرف اس لیے خاموش رہتے ہونگے کہ سفارتی آداب اور مہمانداری کے تقاضوں نے انہیں روک رکھا ہو گا وگرنہ وہ ہم سے یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ آپ ہم سے ادھار یا خیرات مانگنے سے پہلے اپنے فلاں فلاں شخص سے بھی دوچار ارب روپے لے سکتے ہیں۔ جوفلاں غیر ملکی بینک میں پڑے انڈے دے رہے ہیں۔
ایک ستم ظریف نے تو یہ افواہ بھی پھیلانے کی کوشش کی تھی کہ جب زرداری صاحب نے چینی صدر ہو جن تاؤ سے مدد کی درخواست کی تو اس نے کہا کہ جتنی رقم آپ اپنے غیر ملکی اکاؤنٹس سے اپنے ملک کے لیے واپس لائیں گے چین اتنی ہی رقم کی ”میچنگ گرانٹ“ فراہم کرے گا جو ناقابل واپسی ہوگی ۔ تاہم اس عاجز نے اس افواہ پر یقین نہیں کیاکیونکہ بامروت چینی صدر ممکن ہے دل میں اس سے بھی بڑھ کرکچھ سوچ رہا ہو مگر منہ سے ایسی بات نہیں کہہ سکتا۔
صدر آصف علی زرداری دوسو بیس رکنی ایک وفد کے ساتھ تیل ادھار پر لینے کی غرض سے سعودی عرب گئے ۔ کسی زمانے میں فقیر ٹولیوں کی صورت میں مانگنے کے لیے نکلتے تھے۔ فقیروں کی قطاریں بھی کسی زمانے میں نظر آتی تھیں جن میں اکثریت نابینا فقیروں کی ہو تی تھی جو ایک بینا فقیر کے کندھے پر ہاتھ رکھے کورس کی صورت میں دل پر اثر کرنے والا کوئی گانا ساگا کرخیرات مانگتے تھے۔ لیکن عزت دار لوگ تب بھی بحالت مجبوری اکیلے اورچھپ چھپاکر مانگنے کے لیے جاتے تھے اور اپنی مالی ضرورت کا بیان تنہائی میں نہایت ہی خاموشی سے کر تے تھے لیکن ہم لوگ پرانے فقیروں کی طرح گروپ کی صورت میں مانگنے نکلے ہوئے ہیں ۔حالانکہ یہ طریقہ کار اب پیشہ ور فقیر بھی ترک کر چکے ہیں۔
ہمارے ایک دوست کا کہنا ہے کہ اس طریقے میں سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ فقیروں کے پورے گروپ میں کم از کم دوچار ایسے قابل رحم شکل والے فقیر ضرور ہو تے تھے جن کو دیکھ کر دل میں جذبہ ترحم اور ہمدردی کے جذبات ابھر آتے تھے اور ان دوچار فقیروں کے طفیل پورے گروہ کو کچھ نہ کچھ مل جاتا تھا۔ میں نے اپنے اس دوست کو کہا کہ ہمارے اس گروہ میں شاید یہ خوبی تونہ ہو مگر ایک خرابی تو ضرور ہے کہ اس گروہ میں کوئی قابل رحم شکل والا فقیر ہویا نہ ہو مگر دوچار چہرے ایسے ضرور ہونگے جنہیں دیکھ کر خیرات دینے والا جیب میں ڈالا ہوا ہاتھ واپس خالی نکال لیتا ہو گا کہ جو شخص خود خیرات دینے کے قابل ہواسے خیرات دینا ہر گز واجب نہیں اور جس پر خیرات واجب نہ ہو بھلا اسے خیرات کون دیتا ہے؟
تازہ ترین