اسلام آباد (ایوب ناصر، خصوصی نامہ نگار) بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ایک کھرب پندرہ ارب کے سالانہ فنڈز کے باوجود ’’گداگری‘‘ کی لعنت ملک بھر میں لاکھوں افراد کے باقاعدہ روزگار کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ بچوں کے حقوق کے تحفظ کے نام پر پاکستان میں سینکڑوں ادارے رجسٹرڈ ہیں مگر عملاً وفاقی دارالحکومت اسلام آباد سمیت تمام بڑے اور چھوٹے شہروں میں نہ صرف خواتین بلکہ بچے اور بڑے بھی چوکوں اور چوراہوں میں بھیک مانگ کر دنیا بھر میں پاکستان کی بدنامی کا موجب بنتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے اداروں سے بھی خواتین اور بچوں کے تحفظ کیلئے ’’اربوں روپے‘‘ کے فنڈز آتے ہیں مگر بھکاریوں کیخلاف کارروائی کی ذمہ داری پولیس پر ڈال دی گئی ہے۔ پولیس حکام کا کہنا ہے کہ گداگری کے خاتمہ کیلئے صرف پولیس پر تکیہ کرنا ٹھیک نہیں، بھکاریوں میں 99فیصد پیشہ ور لوگ ہیں جو روزانہ دو تین ہزار جمع کرنے کے باوجود بھی معاشرے میں اچھا مقام حاصل کرنے کی کوشش نہیں کرتے اور جرائم میں اضافہ کا موجب بنتے ہیں۔ اس ’’جرائم پیشہ‘‘ گروہ نے شہر بھر میں ڈیرے ڈال رکھے ہیں اور اسلام آباد انتظامیہ خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہی ہے۔ پولیس جن لوگوں کو گداگری ایکٹ کے تحت گرفتار کر کے جیل بھیجتی ہے‘ اُنہیں ضمانت پر رہا کر دیا جاتا ہے۔ ایس ایس پی ٹریفک ملک مطلوب حسین کا کہنا ہے کہ تمام اداروں کو اپنا اپنا کام کرنا چاہئے‘ صرف پولیس ہر چیز ٹھیک نہیں کرسکتی، ایس پی سٹی زبیر شیخ کا کہنا ہے کہ سماجی بہبود کے ادارے اپنا کام سنبھالیں‘ گداگری کے ساتھ ساتھ جرائم میں بھی کمی آئے گی۔ بیت المال کے ایم ڈی بیرسٹر عابد وحید شیخ نے کہا کہ گداگری ایک لعنت ہے جسے ختم کرنے کیلئے مضبوط اعصاب کے لوگوں کی ضرورت ہے‘ قانون کے ڈنڈے کے ساتھ ساتھ روزگار کے مواقع دیئے جائیں اور بچوں کی تعلیم اور رہائش کا انتظام کیا جائے تو مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔ انہوں نے بیت المال کی طرف سے گداگری کے خاتمہ کیلئے مکمل تعاون کی یقین دہانی کرائی۔ ایس پی سٹی کا کہنا ہے کہ اسلام آباد پولیس پاکستان سب سے زیادہ گداگروں کو گرفتار کرکے جیل بھیج چکی ہے مگر مسئلہ اپنی جگہ موجود ہے‘ متعلقہ اداروں کو بھی باہر نکلنا چاہئے۔