کہنے والے نے سچ کہا، جنوبی ایشیا کی یہ عظیم اور قدیم مادرِ علمی نام کی حد تک ’’پنجاب یونیورسٹی‘‘لیکن حقیقت میں ایک قومی یونیورسٹی ہے، جو سارے پاکستان کابلکہ پوری ملّتِ اسلامیہ کا درد اپنے جگر میں رکھتی ہے۔ کتنی ہی قومی تحریکیں تھیں جن کا آغاز یہاں سے ہوا۔ سول اور فوجی آمریتوں کی گھٹن میں یہاں سے اُٹھنے والی جرأت اور جمہوریت کی آواز سارے ملک میں پھیل گئی۔ یہاں سے اُبھرنے والی طلبہ قیادت نے قومی سیاست میں بھی اپنا نقش جمایا، اپنا لوہا منوایا۔ نام گننے شروع کروں تو سارا کالم شاید اسی کی نذر ہوجائے۔ اختصار کے پیشِ نظر جاوید ہاشمی، لیاقت بلوچ اور جہانگیر بدر بطورِ مثال پیش کئے جاسکتے ہیں۔
الطاف حسن قریشی کا پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف نیشنل افیئرز(پائنا) پاکستان کے اہم تھنک ٹینکس میں شمار ہوتا ہے۔ قومی مسائل پر غور وفکر جس کا بنیادی فریضہ ہے۔ ایک وقت تھا، ہر مہینے، ڈیڑھ مہینے پائنا ایک نشست کا اہتمام کرتا، اربابِ فکر و نظر مل بیٹھتے، کسی اہم ترین مسئلے پر غوروفکر اور تبادلۂ خیال ہوتا۔ الطاف صاحب اگرچہ 80کے پیٹے میں بھی، جوانوں بلکہ نوجوانوں جیسا جوش و جذبہ رکھتے ہیں۔کبھی سوچتا ہوں، الطاف صاحب جیسی ادارہ ساز شخصیتوں کا دم غنیمت ہے، لیکن یہ بزرگ اپنے جانشین کیوں تیار نہیں کرتے؟ کہ نیا خون، ان اداروں کو تروتازہ رکھے۔ بات کسی اور طرف نکل گئی۔ ذکر اِس ہفتے پنجاب یونیورسٹی اور پائنا کے اشتراک سے منعقد ہونے والے ’’بلوچستان سیمینار‘‘ کا مقصودہے۔ بلوچستان ہماری قومی سیاست کا اہم مسئلہ رہا ہے۔ آمریتوں کے ادوار میں جس کی سنگینی میں اضافہ ہوتا اور یہ ایک طرح کافلیش پوائنٹ بن جاتا جبکہ جمہوریت کی فضا اس کے لئے سکون آور ثابت ہوتی ہے، قومی معاملات میں شرکت کا احساس اس کے لئے قرار و اطمینان کا باعث بنتا ہے۔پونے تین سال قبل بھی پنجاب یونیورسٹی اور پائنا کے زیراہتمام، یہیں الرازی ہال میں بلوچستان پر دو روزہ قومی سیمینار کا اہتمام ہوا تھا۔ تب بلوچستان میں طوفان کی کیفیت تھی۔ ڈھائی تین ماہ بعد عام انتخابات ہونے والے تھے اور بیرونِ ملک بیٹھے ہوئے’’ناراض بلوچوں‘‘ (جن کی تنظیموں کو بلوچستان کے وزیر داخلہ سرفراز بگٹی ’’Raw Funded‘‘ قرار دیتے ہیں) کا اعلان تھا کہ وہ یہ انتخابات کسی صورت نہیں ہونے دیں گے۔ امن و امان کی دگرگوں حالت میں، یہ واقعی ایک چیلنج تھا جسے قبول کرنے کی ذمہ داری غوث بخش باروزئی کے سپردہوئی۔ سیکورٹی اِداروں نے بھی اپنا بھرپور کردار ادا کیا۔ تبدیلی کے لئے آئینی و جمہوری ذرائع پر یقین رکھنے والی سیاسی (اور مذہبی) جماعتوں نے بھی ہمت کی۔ بوڑھے سردار عطاء اللہ مینگل کے جانشین ، اختر مینگل بھی اس یقین دہانی پر دبئی سے بلوچستان لوٹ آئے کہ انتخابات آزادانہ و منصفانہ ہوں گے اور عوام کے مینڈیٹ کو’’Manage‘‘ نہیں کیا جائے گا۔ماضی میں مینگل سرداروں کا تجربہ بڑا ناخوشگوار رہاتھا۔ سقوطِ مشرقی پاکستان کے بعد،’’نئے پاکستان‘‘ میں بھٹو صاحب نے بلوچستان کوولی خان کی نیشنل عوامی پارٹی اور مفتی محمود کی جمعیت علمائےاسلام کے سپرد کیا کہ 1970کے مینڈیٹ کے مطابق یہ انہی کا حق تھا (پیپلزپارٹی کی تو یہاں ایک نشست بھی نہ تھی)لیکن صرف دس ماہ بعد ہی عطاءاللہ مینگل کی حکومت برطرف کردی گئی۔ اس صدمے کے باوجود سردار مینگل یہ کہہ کر اپنی حب الوطنی کا یقین دلاتا رہاکہ خدانخواستہ (اِس باقی ماندہ) پاکستان پر براوقت آیا تو وہ بلوچستان کا نام پاکستان رکھ دیں گے۔ 1973کے آئین کی منظوری کا وقت آیا، توبلوچستان میں مینگل حکومت کی برطرفی اور لیاقت باغ پنڈی کے سانحہ کے باوجود، ولی خان (اور سردار مینگل) کی نیپ نے آئین کو متفقہ بنانے میں اپنا کردار ادا کیا جس کا صِلہ کچھ عرصے بعد نیپ کو کالعدم قرار دینے،اس کی قیادت کو غداری کے الزام میں حوالۂ زنداں کرنے اور بلوچستان میں فوجی آپریشن کی صورت میں ملا۔
1997ء کے انتخابات کے بعد، اختر مینگل مسلم لیگ کی حمایت کے ساتھ بلوچستان کے وزیراعلیٰ بنے، وزیراعظم نوازشریف کے خلاف صدر فاروق لغاری اور چیف جسٹس سجاد علی شاہ کے پیداکردہ بحران میںبلوچ قیادت ’’پنجابی‘‘وزیراعظم کے ساتھ تھی۔ لاہور، اسلام آباد موٹر وے کے افتتاح پر اختر مینگل، وزیراعظم کی گاڑی چلارہے تھے ، کچھ عرصہ بعد بلوچستان مسلم لیگ نے اپنی حمایت واپس لے لی اور اختر مینگل گھر چلے گئے (میاں صاحب اب بھی اس پر افسوس کا اظہارکرتے ہیں) سردارعطاء اللہ مینگل کا ایک بیٹا، بھٹو دور کے آپریشن بلوچستان میں کراچی سے لاپتہ ہوگیا تھا۔ دوسرا’’ناراض بلوچوں‘‘ کے ایک گروپ کی قیادت کررہا ہے، جبکہ اختر مینگل ابھی پاکستان سے مایوس نہیں ہوا، اُمید کی ڈور ابھی ٹوٹی نہیں۔ خود بڑے مینگل صاحب بھی نئی نسل کے سامنے سوال اُٹھاتے رہتے ہیں، سوچ لو! آزادی کے بعد کیا اِسے قائم بھی رکھ سکو گے، کسی بڑی طاقت کے غلام تونہیں ہوجاؤ گے؟
اس سوموار کو ’’بلوچستان سیمینار‘‘ میں سردار مینگل کی بلوچستان نیشنل پارٹی کے غلام نبی مری بھی ’’ قصۂ درد‘‘ سنانے آئے تھے۔ اُن کا کہنا تھا، حقیقی طور پر کچھ بھی نہیں بدلا، سب کچھ مصنوعی سا ہے۔ ان کا سوال تھا، اختر مینگل نے مئی 2013کے انتخابات سے قبل، سپریم کورٹ میں 6نکات پیش کئے تو تمام سیاسی جماعتوں نے اس کی تائید کی۔ ملک کے مقتدر حلقوں نے بھی اختر مینگل کو کچھ یقین دہانیاں کرائی تھیں، وہ قول و قرار کیا ہوئے؟
بلوچستان کے وزیرداخلہ سرفراز بگٹی کی تقریر، جواب آں غزل تھی۔ ان کا کہنا تھا، ابھی گزشتہ روز اختر مینگل نے نوشکی میں جلسۂ عام کیا ہے، حالات نہیں بدلے، تو امن و سکون کے ساتھ یہ جلسہ کیسے ہوگیا؟ ماضی میں کوئٹہ میں ان کے جلسے پر بی ایل اے نے قبضہ کر لیا تھا۔ 2013میں ڈیرہ بگٹی کا پریس کلب بند تھا، اب وہ کھلا ہے(ہنستے ہوئے کہا،اور یہاں سے سب سے زیادہ خبریں میرے خلاف آتی ہیں)اختر مینگل الیکشن لڑ رہے تھے، تو سیکورٹی ایجنسیوں نے انہیں ہر طرح سہولت مہیاکی۔ دشوار گزار علاقوں میں ان کے پولنگ ایجنٹس ، ہیلی کاپٹر کے ذریعے پہنچائے گئے۔ طاہر بزنجو نے وزیراعلیٰ ڈاکٹر مالک کی نیشنل پارٹی کی نمائندگی کی۔ جماعت ِاسلامی کی نمائندگی کے لئے کوئٹہ سے ڈاکٹر عطاء الرحمن آئے تھے۔ ان کا لب و لہجہ اور جماعت کی سوچ میں تبدیلی کا غماز اِن کا اظہار ِ خیال سب کے لئے خوشگوار حیرت کا باعث تھا، بلوچستان کی محرومیوں اور اس کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا ذکر کرتے ہوئے وہ کہہ رہے تھے پاکستان سے بلوچستان کے الحاق کے لئے کاسٹنگ ووٹ دینے والے اکبر بگٹی کے ساتھ ڈکٹیٹر نے کیاکیا؟
خواجہ سعد رفیق اس وفد میں شامل تھے، جس نے بحران کے دِنوں میںمشرف کے ستائے ہوئے اکبر بگٹی سے ملاقات کی تھی۔ وہ بتارہے تھے، بزرگ بلوچ لیڈر مسائل کے حل کے لئے مذاکرات پر آمادہ تھا۔ (چوہدری شجاعت اور مشاہد حسین کی گواہی بھی یہی ہے) لیکن ڈکٹیٹر کی انا غالب آئی، نواب بگٹی کے قتل نے چنگاریوں کو ہوا دی اور خرابی انتہاکوپہنچ گئی۔ آمریت کے دور میں کاشت کی گئی کانٹوں کی فصل اب کاٹی جارہی ہے تو اس کے مکمل خاتمے میں کچھ وقت تو لگے گا۔ انہوں نے بلوچستان کے لئے پاکستان ریلویز کے منصوبوں کا بھی ذکر کیا۔ ان میں کوئٹہ اور پشاور کو ملانے کا منصوبہ بھی ہے جس سے یہ سفر صر ف آٹھ ، نو گھنٹے کا رہ جائے گا۔ احسن اقبال کے دانشورانہ خطاب کا اپنا لطف تھا، انہوں نے چائنا پاک اکنامک کاریڈور کے فیوض و برکات کا ذکرکیا، جن میں بلوچستان کا بھی وافر حصہ ہے۔ جناب مجیب الرحمٰن شامی ، بریگیڈیئر نادر میر، پرنس احمد علی، وائس چانسلر جناب مجاہد کامران کی تقاریر اور ایس ایم ظفر کے خطبۂ صدارت کا اپنا اپنا رنگ تھا، اور سبھی رنگ خوشگوار تھے۔وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے ان ڈھائی برسوں میں بلوچستان میں اصلاحِ احوال کا تفصیل سے ذکر کیا۔ ان کا کہنا تھا، چی گویرا اور کاسترو کا دور گزر گیا۔ یہ بندوق سے نہیں، گفتگو کے ذریعے مسائل کے حل کا دور ہے۔ بلوچ نفسیاتی طور پر، مذاکرات کا قائل نہیں تھا لیکن اب اسے احسا س ہورہا ہے کہ زمانہ مختلف ہے، منطق اور مذاکرات کا زمانہ۔ ان کا کہنا تھا، مجھے مذاکرات کا مینڈیٹ ملا تو میں نے ’’ناراض بلوچوں‘‘ کے سامنے صرف 2شرائط رکھیں، پاکستان کی جغرافیائی حدوداور آئین ِ پاکستان کے اندر رہتے ہوئے، ہر مسئلے پر بات ہوسکتی ہے۔ ان کا کہنا تھا، بلوچستان میں پانچ بغاوتیں ہوچکیں، اب چھٹی بغاوت کو روکنا ہے، تو اس کے لئے ’’مائنڈ سیٹ‘‘ کی تبدیلی لازم ہے۔ بلوچ اپنی شناخت کے متعلق بہت حساس ہے، وہ ’’ریڈ انڈین‘‘ نہیں بنے گا۔ مسائل کا حل جمہوریت میں ہے اور اس کے لئے لازم ہے کہ وہاں الیکشن manage نہ ہو، چائنا پاک اکنامک کاریڈور سمیت تمام میگا پروجیکٹس کے فوائد میں بلوچستان اور اہلِ بلوچستان کے جائز حصے کو یقینی بنایا جائے۔مری معاہدے کے مطابق ، دسمبر کے پہلے ہفتے مالک حکومت کو رخصت ہوجانا ہے جس کے بعد مسلم لیگ(ن) کی باری ہے۔ جناب عطاء الحق قاسمی کا اصرار تھا، باقی ماندہ ڈھائی سال بھی ڈاکٹر مالک کو دے دیئے جائیں ، شامی صاحب کا جواب تھا، یہ فیصلہ لاہور کی بجائے کیوں نہ کوئٹہ میں ہو؟ قصۂ زمین ، برسرِ زمین۔سیمینار میں بلوچستان میں سول، ملٹری ریلیشن شپ میں توازن پر مسرت کا اظہار کرتے ہوئے جنرل ناصر جنجوعہ کی خدمات کو بھرپور خراجِ تحسین کے ساتھ اب وزیراعظم کے سیکورٹی ایڈوائزر کی حیثیت سے بھی ان سے نیک توقعات کا اظہار کیا گیا۔