نوازشریف سے نفرت انتہا کو پہنچ گئی یا خان کو ناسٹلجیا نے آلیا؟ فرمایا، اِس سے تو مشرف حکومت کہیں بہتر تھی۔ 12اکتوبر 1999ء کو مشرف اور اس کے تین چار ’’رفقاء‘‘ نے ایک آئینی حکومت کا تختہ اُلٹ کر اقتدار پر قبضہ کیا تو خان صاحب سمیت بہت سوں کی دِلی مراد برآئی۔ 1996میں اس نے تحریکِ انصاف کی بنیاد رکھی تو وہ میاں صاحب اور محترمہ ، دونوں کو یکساں برائی قرار دے رہا تھا۔ 1997ء کے الیکشن میں خان اور اس کی تحریکِ انصاف ملک بھر میں قومی یا صوبائی کی ایک بھی سیٹ نہ نکال پائی۔ خود خان صاحب درجن بھر نشستوں پر اُمیدوار تھے اور اکثر پر ان کی ضمانت ضبط ہوگئی۔
1999ء کے کارگل بحران کے بعد اُدھر نوازشریف اور مشرف ٹولے میں اختلافات نے جنم لیا، اِدھر ’’نوازہٹاؤ‘‘ کے ون پوائنٹ ایجنڈے کے تحت گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس وجود میں آگیا۔ اس کی دوسری صف میں خان بھی موجود تھا۔ 12اکتوبر کی شام آئینی حکومت پر شب خون کے خیر مقدم میں اس کی آواز بھی نمایاں تھی۔ پھر ہنی مون کا آغاز ہوا۔ وعدے وعید ہوئے۔ سپریم کورٹ نے ڈکٹیٹر کو اپنے ایجنڈے کی تکمیل کیلئے 3سال دیئے تھے ، اس نے مزید پانچ سال پکے کرنے کیلئے عام انتخابات سے قبل ریفرنڈم کا کھڑاک رچایا تو خان (اور اس کا سیاسی کزن، حال مقیم کینیڈا) اس کی کامیابی کیلئے سرگرم تھے۔ ریفرنڈم مہم میںکہیں کہیں تحریکِ انصاف اور عوامی تحریک میں مسابقت کی فضابھی پیدا ہوجاتی کہ ڈکٹیٹر کی حمایت میں کس کے جھنڈے زیادہ ہیں اور کس کے نعروں کی گونج بلندتر ہے۔ اِسی دوران شوکت خانم کے دورے میں ڈکٹیٹر نے بھاری چندے کے ساتھ خان کے سیاسی مستقبل کیلئے نیک خواہشات کا اظہار بھی کیا۔ پھر قاف لیگ کا قیام اور خان سے وزارتِ عظمیٰ کے وعدے سے انحراف ایک الگ کہانی ہے۔ خواب بکھر گئے، ہنی مون ٹوٹ گیا لیکن حسین یادیں کبھی کبھار انگڑائی لے کر جاگ اُٹھتیں۔ کتوں سے خان کی چاہت شدید ہے اور قدیم بھی۔ ڈکٹیٹر نے خان کی اِسی چاہت کے پیشِ نظر ، ہمایوں گوہر کے ذریعے اِسے ’’شیرو‘‘ کو گفٹ کے طور پر بھجوایا (گزشتہ سال ’’شیرو‘‘ مرگیا)۔ڈکٹیٹر کے متعلق خان کے ذاتی تعلقات اور احساسات اپنی جگہ لیکن ایک سیاستدان کے طور پر اُس سے یہ سوال بے جا نہیں کہ وہ مشرف دور کو نوازشریف حکومت سے بہتر قرار دے رہا ہے تو کس بنیاد پر؟ کیا اِس لئے کہ مشرف نے (اور اُس کے رفقاء نے) محض اپنی نوکریاں بچانے کیلئے آئین کو سبوتاژ کیا۔ اس کے سات نکات میں احتساب سرفہرست تھاجسے سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا گیا۔ جس نے اطاعت قبول کرلی، وہ پاک صاف ہوگیا، جو سیاسی وفاداری پر قائم رہا، اُس کے گرد شکنجہ کس دیا گیا۔ ڈکٹیٹر کی کابینہ میںکتنے نیب زدگان شامل تھے؟ نائن الیون کے بعد اُس نے پاکستان کو امریکہ کی 53ویں ریاست بنادیا۔ جس پربُش ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ میں‘‘ پاکستان کو فرنٹ لائن اسٹیٹ اور مشرف کو اپنا ’’نان نیٹو ایلائی‘‘ قرار دیتا۔ عافیہ صدیقی سمیت کتنے بدقسمت تھے جو ڈالروں کے عوض امریکہ کے سپرد کردیئے گئے۔ خان نے تین چار سال قبل جن ڈرون حملوں کے خلاف مہم چلائی، اُس کا آغاز کس دور میں ہوا تھا؟ قبائلی علاقوں پر میزائلوں اور بموں کی بارش کس دور میں شروع ہوئی؟ (اور ردّعمل میں دہشت گردی کی آگ پھیلتی چلی گئی)، پھر لال مسجد اور جامعہ حفصہ ۔ نائن الیون کو ایک ٹیلیفون کال پر ڈھیر ہوتے ہوئے اُس کا کہنا تھاکہ اُس نے’’کشمیر کاز‘‘ کو بچالیا، پھراُس’’کاز‘‘ پر کیا بیتی؟ کشمیر پر اَقوامِ متحدہ کی قرار دادوں سے ہٹ کر ، ’’آؤٹ آف بکس‘‘ حل کے نام پر کشمیرکاز کو جس طرح مذاق بنادیا گیا،پھرآزاد عدلیہ اور میڈیا پر شب خون۔ کیا ڈکٹیٹر کے انہی کارناموں کی بناء پر خان اِسے موجودہ حکومت سے کہیں بہتر قرار دیتا ہے؟ نوازشریف سے خان کا عناد اپنی جگہ لیکن اِس’’سسٹم ‘‘ کی تو قدر کریں جس کے فیوض و برکات سے خود خان صاحب اور ان کی تحریک ِ انصاف مستفید ہورہی ہے۔
آج خیبر پختونخوا میں اُن کی حکومت ہے۔ ملک کے سب سے بڑے صوبے میں حزبِ اختلاف کی قیادت کا منصب تحریک انصاف کے پاس ہے۔ عدالتیں آزاد ہیں ، سول سوسائٹی متحرک ہے، الیکشن کمیشن پہلے سے کہیں آزاد و خودمختار ہے (یہ الگ بات کہ جہاںآپ جیت جائیں، وہاں الیکشن فری اینڈ فیئر ہوتا ہے، جہاں ہار جائیں، وہاں ’’دھاندلی‘‘ ہوجاتی ہے)۔ سول سوسائٹی متحرک ہے، آپ انتخابی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بھی جلسے جلوس نکالنے کیلئے آزاد ہیں۔ الحمد للہ ، میڈیا آزاد ہے اور آپ کے جلسوں جلوسوں کی بال ٹو بال کمنٹری کرتا ہے۔ اس کے باوجود ، آپ کو مشرف کا عہد ِ آمریت ، موجودہ جمہوریت سے کہیں بہتر نظر آتا ہے تو ’’جوچاہے آپکا حسنِ کرشمہ ساز کرے‘‘۔ سینیٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی برائے ریلویز نے اس بار اپنے اجلاس کیلئے لاہور کا انتخاب کیا۔ انہی دِنوں یہاں قراقرم ایکسپریس کے نئے ریک کا افتتاح بھی تھا۔ وائی فائی، ایل سی ڈی ، پبلک ایڈریس سسٹم اور نئے واش رومز سمیت جدید سہولتوں سے آراستہ’’قراقرم ‘‘ پاکستان ریلویز میں گرین لائن کے بعد ایک اور ہائی فائی ٹرین کا اضافہ ہے۔ خواجہ سعد رفیق نے معزز سینیٹرز کو بھی تقریب ِافتتاح پر مدعو کیا سینیٹ اسٹینڈنگ کمیٹی کے چیئرمین سردار فتح محمد محمد حسنی بلوچستان کے سینئر سیاستدانوں میں شمار ہوتے ہیں۔ سیاسی تعلق پیپلزپارٹی سے ہے۔ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا، ہمارا کام حکومت کی کارکردگی پر ناقدانہ نظر رکھنا ہے۔ غلط کام پر روک ٹوک ، صحیح کام کا اعتراف اور جائز تحسین و توصیف ا ور کھلے دِل کے ساتھ وہ اعتراف کررہے تھے کہ خواجہ سعد رفیق نے ریلوے کو زندہ کردیا ہے۔ بزرگ پارلیمنٹیرین تاج حیدر کا کہنا تھا، قراقرم کے معائنے میں، اُنہوںنے مسافروں کو خوش و خرم پایا۔ انہیں توقع تھی کہ نہ صرف ریلوے نیٹ ورک مزید پھیلے گا بلکہ سفر کی کوالٹی بھی بہتر ہوگی۔ سینیٹر سردار محمد اعظم خان کے بقول ریلوے میں نئی زندگی کا اعتراف کئے بغیر چارہ نہیں۔
حافظ حسین احمد کی طرح بلوچستان سے تعلق رکھنے والے سینیٹر حافظ حمد اللہ کی حسِ مزاح بھی تیز و توانا ہے۔ اُن کا کہنا تھا، ہم ریلوے سے مایوس ہوچکے تھے لیکن خواجہ سعد رفیق کی وزارت نے ریلوے کے حوالے سے ہماری توقعات دو چند کردی ہیں۔ اب اُن کی حسِ مزاح پھڑکی،’’تبدیلی کے نعرے کوئی اور لگارہا تھا لیکن تبدیلی خواجہ کے ذریعے آگئی اور’’وہ تبدیلی‘‘ بھاگ گئی‘‘۔