کراچی میں ہم جماعت اسلامی کے مہمان تھے۔ 5دسمبر شہرِ قائد میں ،جسے کبھی عروس البلاد اور روشنیوں کا شہر بھی کہا جاتاتھا۔ بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کا دن ہے۔ یہاں عمران خان کی تحریکِ انصاف اور جناب سراج الحق کی جماعتِ اسلامی نے ایم کیو ایم کیخلاف اتحاد کیا ہے۔ گزشتہ ہفتے دونوں نے ایک بڑی ریلی کی قیادت بھی کی، کبھی جماعتِ اسلامی یہاں کی تین چار بڑی اسٹیک ہولڈرز میں شمار ہوتی تھی۔ 1980ءکی دہائی کے وسط میں مہاجر قومی موومنٹ کا ظہور ہوا اور وہ کراچی اور حیدرآباد کے سیاسی و انتخابی افق پر چھاگئی۔ نورانی میاں’’مہاجر عصبیت‘‘ کے خلاف تادمِ آخر پورے قد کے ساتھ کھڑے رہے جبکہ جمعیت علماء پاکستان کے کارکن ہی نہیں، اس کے بڑے بڑے لیڈروں نے بھی عافیت کی راہ لی۔ جماعتِ اسلامی کو داد دینی چاہئے کہ ووٹروں کی بڑی تعداد سے محروم ہونے کے باوجود ، اسکے قائدین اور کارکنوں نے بےمثال استقامت کا ثبوت دیا۔ کراچی کا سیاسی کلچر بدل چکا تھا۔ پُرامن سیاسی جدجہد کی بجائے اب یہاں تشدد کا دور، دورہ تھا۔ ٹارچر سیل ، ٹارگٹ کلنگ، بوری بند لاشیں ، ڈرل مشینیں ، لیکن جماعت اسلامی اور اس کی تنظیم بڑی سخت جان نکلی۔ 2002ءکے عام انتخابات میں، جب اسٹیبلشمنٹ کراچی کی حد تک غیر جانبدار تھی، جماعتِ اسلامی اور جمعیت علمااسلام (ف) نے یہاں متحدہ مجلس عمل کے انتخابی نشان(کتاب) پر قومی اسمبلی کی 5نشستیں حاصل کر لی تھیں۔ 3نشستیں پیپلزپارٹی اور ایک نشست آفاق احمد کی ایم کیو ایم (حقیقی ) لے اُڑی۔حیدرآباد میں جے یو پی کے صاحبزادہ ابوالخیر ایم ایم اے کے ٹکٹ پر جیت گئے۔
اسکے ساتھ ہی اہم ڈویلپمنٹ یہ ہوئی کہ متحدہ قومی موومنٹ ، پرویز مشرف کی اتحادی ہوگئی، جناب عشرت العباد کی گورنری کیساتھ، صوبائی حکومت میں داخلہ سمیت، اہم وزارتیں اسکے پاس تھیں۔ وفاق میں بھی وہ مشرف کی قاف لیگ کے ساتھ شیروشکر ہوگئی۔ پھر2008آگیا۔ تب حالات میں جوہری تبدیلی آچکی تھی۔ مشرف کی گرفت ٹوٹ گئی تھی، عملاً وہ Lame Duckبن کر رہ گیا تھاکہ جنرل کیانی کی سربراہی میں فوج سیاست سے لاتعلق ہوکر، اپنے اصل رول کی طرف لوٹ گئی تھی۔ کراچی میں پچاس لاشوں والے 12مئی کے زخم ابھی پرانے نہیں ہوئے تھے ۔ نوازشریف وطن واپس آچکے تھے، محترمہ کا قتل پیپلزپارٹی کیلئے سنگین صدمہ تھا، لیکن اِن کا خون پیپلزپارٹی کو نئی توانائی دے گیا تھا۔ ایم کیو ایم میں اب پہلی والی بات نہ رہی تھی۔حالات سازگار تھے لیکن جماعتِ اسلامی نے انتخابات کے بائیکاٹ کی راہ اپنائی، اور ایم کیو ایم کا کام آسان ہوگیا۔ کراچی میں اسکی نمائندہ حیثیت (2002ءکی نسبت) کہیں زیادہ مضبوط ہوگئی تھی۔
11مئی 2013ء کے عام انتخابات میںجماعت اسلامی آدھے راستے سے واپس ہوگئی۔ دوپہر ایک بجے اس نے بائیکاٹ کردیا تھا لیکن اس کا فائدہ تحریکِ انصاف کو یوں پہنچا ، کہ جماعت کا جو ووٹر گھر سے نکل آیا تھا، تحریکِ انصاف اس کی چوائس ہوگئی۔ NA246کے ضمنی انتخاب میں دونوں ایک دوسرے کے مدمقابل تھیں۔ یہ الیکشن ایم کیو ایم کا حقیقی ٹیسٹ تھے، کہ رینجرز کی کڑی نگرانی میں کسی دھونس دھاندلی کا امکان نہ تھا۔ فیئر اینڈ فری الیکشن کے باوجود ایم کیو ایم 95ہزار سے زائد ووٹ لے گئی، جماعت اور پی ٹی آئی کے ووٹ مل کربھی تیس بتیس ہزار سے زائد نہ تھے۔اب 5دسمبر کے بلدیاتی انتخابات میں، تحریک ِانصاف اور جماعتِ اسلامی کا اتحاد، ایم کیو ایم کے مدمقابل ہے لیکن شہر میں کچھ اور دلچسپ مناظر بھی ہیں۔ بعض حلقوں میں جماعتِ اسلامی اور مسلم لیگ(ن) ایک دوسرے کی اتحادی ہیں۔ یکم دسمبر کو جب جماعتِ اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمن میڈیا کے سامنے اپنا ’’کراچی وژن‘‘ پیش کر رہے تھے، جماعتِ اسلامی کے سیکرٹری جنرل لیاقت بلوچ ، اسٹیل مل کے علاقے گلشن ِ حدید میں جماعتِ اسلامی اور مسلم لیگ(ن) کے مشترکہ جلسے سے مخاطب تھے، (ن ) لیگ سندھ کے صدر اسماعیل راہو بھی اسٹیج پر موجود تھے۔ سب سے دلچسپ منظر اورنگی ٹاؤن کی ایک یونین کونسل میں تھا، جہاں ایم کیوا یم کے مقابل انتخابی اتحاد میں مولانا فضل الرحمن کی جے یو آئی اور خان کی پی ٹی آئی شانہ بشانہ ہیں۔
وہ جو کہتے ہیں، دُنیا اُمید پر قائم ہے تو حافظ نعیم الرحمن پُرامید ہیں کہ تحریکِ انصاف اور جماعتِ اسلامی کا اتحاد 5دسمبر کو کرشمہ دکھا سکتا ہے۔ تاہم ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ اس الیکشن میں "Under Protest" جارہے ہیں کہ ووٹر لسٹیں وہی ہیں، جن کی اصلاح کیلئے چیف جسٹس(سابق) افتخار محمد چوہدری نے حکم دیا تھا۔ حافظ صاحب کے بقول ان لسٹوں کے باعث ایم کیو ایم کو الیکشن سے قبل ہی 30فیصد سبقت حاصل ہے۔ ان کے بقول ، اگر ووٹر 5دسمبر کو گھروں سے نکل آئیں اور بیلٹ پیپر ’’ٹھپوں‘‘ سے محفوظ رہیں تو 30فیصد کی یہ پیشگی سبقت ایم کیو ایم کے کام نہیں آئے گی۔ وہ 5دسمبر کو پولنگ اسٹیشنوں پر فوج کی تعیناتی کا مطالبہ بھی کرتے ہیں کہ اُن کے خیال میں رینجرز کی تعداد اتنی نہیں کہ ’’فری اینڈ فیئر‘‘الیکشن کو یقینی بنایا جاسکے۔ این اے 246کے ضمنی انتخاب کی بات ہوئی ، تو ان کا کہنا تھا، تحریکِ انصاف اور جماعت متحد ہوتے تو پھر بھی جیت چاہے ایم کیو ایم ہی کی ہوتی لیکن اسکے خلاف ڈالے گئے ووٹوں کی تعداد دوگنا ہوجاتی، ان کا اصرار تھا کہ کراچی میں ’’246‘‘ تین، چار سے زیادہ نہیں۔ فرض کیا، ایم کیو ایم کے ساتھ’’انہونی ‘‘ہوجاتی ہے، تو اس صورت میں کراچی کا آئندہ میئر کون ہوگا؟ حافظ صاحب کا جواب تھا ، پُل آئے گا تو اسے عبور بھی کر لیں گے۔ جماعت اور پی ٹی آئی میں اس حوالے سے انڈراسٹینڈنگ موجود ہے، اس پر کوئی لڑائی جھگڑا نہیں ہوگا۔ ایم کیو ایم کے ڈاکٹر فاروق ستار سے رابطہ ہوا تو اُنہوں نے کہا، 6بجے کے بعد چلے آؤ۔ ہم جناب عطاء الرحمن اور نصیر سلیمی صاحب کے ساتھ عزیز آباد پہنچے ، تو جناح گراؤنڈ میں ’’پتنگ میلے‘‘ کی تیاریاں تھیں۔ یہاں امین الحق بھی تھے۔ ہم ان کے ساتھ ’’نائن زیرو‘‘ چلے آئے۔ اسی دوران ، نسرین جلیل بھی چلی آئیں، وہ وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کی پریس کانفرنس کی خبر لائی تھیں جس میں انہوں نے ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کی ایف آئی آر پاکستان میں درج کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اس پر کچھ دیر کو سکوت چھا گیا جسے ڈاکٹر فاروق ستار نے توڑا،’’ لندن میں ہونے والے جُرم کی ایف آئی آر کیا اسلام آباد میں درج ہوسکتی ہے‘‘؟
شاید ہمارے بیشتر قارئین کیلئے یہ بات دلچسپ انکشاف کی حیثیت رکھتی ہو کہ نسرین جلیل کا پیدائشی تعلق لاہور سے ہے ۔ پاکستان بنا تو نسرین کے والد جناب ظفر الاحسن لاہور کے پہلے ڈپٹی کمشنر بنے۔ (متحدہ ہندوستان میں الٰہ آباد یونیورسٹی سے ایم اے اکنامکس میں پہلی پوزیشن حاصل کرنے کے بعد وہ انڈین سول سروس میں منتخب ہوگئے تھے)۔ لاہور میں ان کا گھر جیل روڈ پر تھا، نسرین کو انہوں نے دبستان ِ صوفیہ میں داخل کرادیا۔ نسرین کو یاد ہے کہ تب وہ اپنے دیگر بہن بھائیوں کے ساتھ چار نمبر بس یا تانگے پر اسکول جاتی تھیں کہ سرکاری گاڑی استعمال کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ نسرین نے 8ویں جماعت تک یہیں تعلیم حاصل کی، اسی دوران ظفر الحسن نے لندن میں گھر خریدلیا اور نسرین سمیت چاروں بہن بھائی مزید تعلیم کیلئے لندن چلے گئے۔ تب نسرین کی عمر صرف12سال تھی۔ (نوزائیدہ مملکتِ خداداد میں انفراسٹرکچر کی تعمیر میں ظفرالاحسن کے کارنامے ایک طویل مضمون کا موضوع ہیں)۔
فاروق ستار کا کہنا تھا، ستمبر2013ء میں میاں صاحب نے کراچی کو اس کی روشنیاں لوٹانے اور یہاں امن و امان بحال کرنے کا فیصلہ کیا تو ہم نے اس کا رِ خیر میں بھرپور تعاون کا اعلان کیا(تب جنرل کیانی سپہ سالار تھے)پھر ضربِ عضب میں بھی ہم کسی سے پیچھے نہ رہے۔ نیشنل ایکشن پلان اور 21ویں ترمیم کی منظوری سمیت ہم ہر جگہ پیش پیش تھے۔ پرائم منسٹر ہاؤس میں اس سلسلے میں منعقدہ میٹنگ اختتام کو پہنچی تو جنرل راحیل شریف پاس آئے اور میرے کندھے پر باقاعدہ تھپکی دی۔ فاروق ستار کہہ رہے تھے:پالیٹکس کو کرائم سے علیحدہ کرنے کا کام تو اپنی صفوں نے خود ہم نے 2012ء میں شروع کردیا تھا۔ تب سے اب تک ہم تین ہزار سے زائد افراد کو اپنی صفوں سے نکال چکے ہیں۔اس سال مئی میں ایجنسیوں نے جارحانہ آپریشن شروع کیا تو ہم نے اس کی بھی مزاحمت نہ کی۔ ہمارے سینکڑوں لوگ پکڑے گئے، اور تفتیش کے مراحل میں بے گناہ قرار پا کر ، لوٹ آئے۔ ڈھائی تین ہفتے پہلے ڈی جی رینجر کی دعوت پر مفصل میٹنگ میں ان سے تبادلۂ خیال ہوا۔ ہمارے خیال میں یہ ملاقات اعتماد افزا تھی لیکن رینجرز کے قتل کے بعد پھر پکڑ دھکڑ شروع ہوگئی۔ ایک سوال کے جواب میں فاروق ستار پر اُمید تھے کہ بلدیاتی انتخابات میں ایم کیوا یم کی کامیابی کی صورت میں کرائم کو پالیٹکس سے الگ کرنے کیلئے آپریشن جاری رہ سکتا ہے۔ اس کیلئے صرف باہم اعتماد کی ضرورت ہے۔